سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 3 اپريل 2022
اس رمضان ان کی مدد کیجیے، جو کبھی مانگتے نہیں!

اس رمضان ان کی مدد کیجیے، جو کبھی مانگتے نہیں!

اس رمضان ان کی مدد کیجیے، جو کبھی مانگتے نہیں!

خانہ پری
ر۔ ط۔ م

ہماری ان سطور کی اشاعت کے روز ممکنہ طور پر یکم رمضان ہوگا، یا اِس سے اگلے روز تو یقینی طور پر پہلا روزہ ہوگا۔۔۔ سو ہم نے سوچا، اسی مناسبت ہی سے کچھ اظہار خیال کر لیا جائے، بالخصوص وہ قارئین ہمارے مخاطب ہیں، جو ’صاحبِ حیثیت‘ ہیں اور رب تعالیٰ کے فضل سے انھیں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی توفیق بھی حاصل ہے، باقی یہ ہے کہ رمضانوں میں تو اللہ کے سبھی بندے اپنی اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ نذر کرنے کی کوشش کرتے ہی ہیں، وہ بھی ضرور ان باتوں پر غور کریں۔

ہمیں چاہے کسی بھی مد میں خرچ کرنا ہو، ہمارے لیے پہلی تلقین یہی ہے کہ ’اپنے قریب کے لوگوں میں مستحقین تلاش کیجیے، رشتے دار، قرابت دار، پاس پڑوس، ہم سائے، محلے دار، میل جول والے، اپنی قوم اور قبیلے والے وغیرہ وغیرہ۔ شاید تبھی اپنوں کی خبر گیری کی بھی تلقین کی جاتی ہے، تاکہ ہمیں ان کے دکھ سکھ کے ساتھ مالی معاملات کی بھی جان کاری رہ سکے۔۔۔

اس لیے اس ماہِ مبارک میں جب ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں، تو ضرور مختلف رفاہی اداروں، سماجی تنظیموں اور وغیرہ وغیرہ جگہوں پر بھی دیں، لیکن اس سے پہلے لازمی طور پر اپنے اردگرد نظر دوڑا لیں۔۔۔ اور ہمیں کافی حد تک یقین ہے کہ اگر آپ ایسا کریں گے، تو ضرور آپ کو کچھ ایسے خاندان اور کنبے دکھائی دے جائیں گے، جو بہ ظاہر اچھے دکھائی دیتے ہیں، لیکن دراصل مالی تنگی، بے روزگاری اور قرض جیسے مختلف مسائل سے دوچار ہیں اور اپنی خاندانی وضع داری کے باعث کسی سے اپنی ضرورت کا ذکر کرنا توہین سمجھتے ہیں۔۔۔ لیکن زندگی کے مسئلے مسائل کے سبب ان کے لیے کافی زیادہ مشکلات موجود ہیں۔

تو کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ذرا اس پہلو کی طرف بھی توجہ کریں، کیوں کہ باقاعدہ اعلانیہ طور پر چندہ اور فنڈ وغیرہ جمع کرنے والوں کے لیے تو اور بہتیرے موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ کا کوئی اپنا ایسا ہے، جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا بہت معیوب سمجھتا ہے، لیکن اب اپنی ’سفید پوشی‘ کا بھرم رکھنے میں ہانپ رہا ہے۔۔۔! اس کی معاشی مشکلات بہت بڑھی ہوئی ہیں، دکھ بیماری اور بچوں کی شادی کے حوالے سے اسے بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔ کیا ایسے میں یہ ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ذرا راز داری سے اور پردہ رکھتے ہوئے اسے زندگی کے ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے نجات دلا دی جائے۔

کسی پختہ طریقے سے اس کی ایسی مدد ہو جائے کہ اس کا ادھار چُکتا ہو جائے، بھاری قرض ادا ہو جائے، سر پر چھت ہو جائے، بیٹیوں کی شادی ہو جائے، اس کے بچوں کی تعلیم پوری ہو، کوئی علاج معالجہ یا اس کا کوئی چھوٹا سا اپنا کاروبار ممکن ہو جائے۔۔۔ الغرض وہ کسی طرح خود کفیل ہوجائے، اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے، اس کی زندگی جس کسی بھی مسئلے کی وجہ سے پٹری سے اتری ہوئی ہے، اور باوجود کوششوں کو پٹری پر رواں نہیں ہو پا رہی، وہ ایک سمت گام زن ہو جائے۔۔۔ اور اس کے حالات بھی بہتر ہونے لگیں۔۔۔

سوچیے، وہ خاندان جو کسی سے سوال کرنے میں انتہائی شرم اور جھجھک محسوس کرتا ہے، کسی سے اپنی مالی مشکلات کا ذکر کرنے سے گریزاں رہتا ہے، اگر اس کے یہ چھوٹے چھوٹے سے مسئلے حل ہو جائیں، تو آپ اور ہم تصور نہیں کر سکتے کہ ایسے خاندان یا فرد کے لیے آپ کس قدر بڑے انقلاب کا باعث بن جائیں گے۔۔۔ آپ کا پختہ اور مضبوط پیمانے پر مدد کرنا، چار دیواری میں اپنے رکھ رکھائو کا بھرم رکھنے والوں کی زندگیوں کو جنت بنا دے گا۔ آٹا، دال چاول اور راشن وغیرہ دینے کے عارضی حل کے بہ جائے کسی کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا زیادہ مفید اور بہتر امر ثابت ہوتا ہے۔۔۔

کہنے کو کراچی بہت بڑا شہر ہے، یہاں اربوں کھربوں کا کاروبار ہوتا ہے، کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، لیکن آپ بھی اِس بڑے شہر میں زندگی کرتے ہیں، کیا واقعی متوسط طبقے کی، اور نچلے طبقے کی زندگیاں اتنی آسان رہی ہیں۔۔۔ 25 اور 30 ہزار ماہانہ تنخواہوں میں آپ ایک چھوٹے سے گھر کا بجٹ تو بنا کر دیکھ لیجیے۔۔۔ اور اس وقت عمومی تنخواہوں کی صورت حال کم وبیش یہی ہے۔۔۔ بلکہ بہت سے تو برسوں سے اس سے بھی نصف تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس لیے تھوڑی سی مشقت کیجیے، اپنے گلی محلے اور شہر کے ان گھروں کی طرف ذرا توجہ دیجیے، جہاں رمضان اور عید اور سارے تیوہار کسی پریشانی اور ’مشکل‘ کی طرح آتے ہیں۔۔۔

جہاں کے مکینوں کے لیے خوشیاں ’مسئلہ‘ بن جاتی ہیں۔۔۔ منہ زور مہنگائی نے چار دیواری میں دنیا کے سامنے اپنے بھرم قائم رکھنے ناممکن بنا دیے ہیں۔۔۔! اس لیے اِس رمضان ایسے گھروں کی طرف ضرور توجہ دیجیے۔۔۔ یقین مانیے، یہاں کی ایک مارکیٹ ملک کے دیگر پورے پورے شہر سے زیادہ ٹیکس دیتی ہے، لیکن غریب شہر والے اپنے گھٹن زدہ گھروں میں روز مر رہے ہیں اور روز جی رہے ہیں۔۔۔ ان گھروں کی خبر گیری کیجیے، ان خاندان لوگوں کے ٹوٹتے ہوئے بھرم بچا لیجیے، اپنوں کی ان کے ویرانیوں میں بہار لے آئیے۔۔۔ یقیناً آپ کو ایک الگ طرح کی مسرت کا احساس ہوگا، جب آپ کسی سفید پوش گھرانے کے تاریک گھر میں ایک امید کا چراغ روشن کریں گے، آپ کو اپنے اندر سے لگے گا کہ واقعی آپ نے اپنے مال کا حق ادا کیا ہے۔

اور جس کے لیے آپ رحمت کا فرشتہ بنیں گے، اس سے ملنے والی دعائوں کا تو آپ شمار ہی نہیں کر سکتے۔۔۔ کیوں کہ کسی نامی گرامی، بڑے خاندانوں اور اچھے شجروں کے مصائب میں پڑ جانے والے لوگ کسی سے اپنی ضرورت کا ذکر کرنے میں موت جیسی تکلیف محسوس کرتے ہیں کہ کیسے بتائیں کہ وہ گردشِ زمانہ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس لیے اس ’ماہِ مبارک‘ میں خود ذرا سی زحمت کر کے اپنوں کی دست گیری کیجیے، کہ شرعاً ہم پر پہلا حق اپنوں ہی کا ہے اور ایسے اپنوں کا جو اپنی ضرورتیں صرف جائے نمازوں پر کہتے ہیں، افطار کے وقت اپنے رب سے امید لگاتے ہیں۔۔۔ اپنے تر بہ تر سجدوں میں آکاش والے سے سرگوشی کرتے ہیں۔۔۔! سوچیے اللہ کی طرف سے اپنے ایسے کسی بندے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اگر آپ کا انتخاب ہو جائے، تو بتائیے ہمیں اس زندگی میں اور بھلا کس چیز کی چاہ ہے۔۔۔

۔۔۔

’ٹی وی‘ کو اتحاد ویگانگت کا ذریعہ ہونا چاہیے!

زارا احمد، کراچی
گذشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی پر ایک سیریل دیکھنے کا اتفاق ہوا، جو دراصل ایک کتاب کی ڈرامائی تشکیل ہے۔ مشرقی پاکستان جیسے حساس موضوع پر بننے والے ڈرامے کو ویسے تو خاصی پذیرائی مل رہی ہے، البتہ ڈرامے کا اسکرپٹ روایتی ’مطالعہ پاکستان‘ کے کسی یک طرفہ مضمون سے ذرا بھی مختلف نہیں۔

اس میں دیکھا کہ بنگالیوں کے ساتھ ناانصافی کا ذکر تو ایسا نہیں، البتہ کچھ مواقع پر یہ ضرور دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اُس وقت ہمارے ملک کے بنگالی شہری، مغربی پاکستانیوں سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

دوسری جانب بنگالی پاکستانیوں کی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی پاکستانیوں اور یہاں والوں کے ’’جذبات‘‘ کی تشہیر زیادہ کی گئی ہے اور حیرت انگیز طور پر سیاست دانوں ہی کو اس عظیم سانحے کا اصل قصور وار ٹھیرایا گیا ہے۔ حالاں کہ 1971ء میں ملک کا اقتدار مارشل لا انتظامیہ کے ہاتھ میں تھا۔

ڈرامے میں سب سے قابل اعتراض بات یہ ہے کہ مغربی پاکستان کو مکمل طور پر اردو بولنے والوں پر مشتمل دکھایا گیا اور دانستہ طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اصل لڑائی شاید بنگالی اور مہاجروں (اردو بولنے والوں) ہی کے درمیان تھی۔ کچھ ایسے مکالمے ہیں، جن سے تاثر ملتا ہے کہ ملک میں اردو بولنے والے ہی مسئلے کی جڑ ہیں۔ ایک افسر اپنے سپاہی سے کہتا ہے کہ کیا آپ ایک سیاسی مسلے کا فوجی حل چاہتے ہیں۔

اس سے اردو بولنے والوں اور مغربی پاکستانیوں کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسرے مکالمے میں کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ جو حرکتیں پاکستان میں کر رہی ہے، وہی اگر ہم اتر پردیش میں کریں تو۔۔۔؟‘‘ یعنی ہندوستان یا اس کے دارالحکومت کے بہ جائے ایک خاص صوبے کی جانب اشارہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈرامے میں ایک لڑکی سونیا عوامی لیگ کے ایک اسٹوڈنٹ لیڈر کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’ہجرت تو پنجاب میں بھی ہوئی اور کراچی میں تو اتنی ہجرت ہوئی تھی کہ وہاں کے رہنے والے سندھی اقلیت بن گئے تھے۔‘‘

یہاں میں کسی بھی قسم کی کوئی تلخ سچائی کہنے کے بہ جائے صرف یہی کہنے پر اکتفا کروں گی کہ کراچی کے حوالے سے بیان کی گئی صورت حال کی سچائی کو تاریخ کے پنوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔! ہمیں اس وقت ہمیں زیادہ توجہ موجودہ پاکستان کی مختلف لسانی اکائیوں کے درمیان محبت اور تعاون کی فضا پروان چڑھانے پر دینی چاہیے۔ تاریخ پر بننے والے افسانوی ڈراموں سے کسی دانش ور کی کتاب کی طرح تنقیدی جائزے کی توقع نہیں کی جا سکتی، لیکن عام ٹی وی اسکرین پر تاریخ کو مسخ کر کے کسی اور کا دامن بالکل صاف کرنے کے لیے ملک کی کسی مخصوص قوم کے خلاف ایسے غیرمناسب اور نفرت انگیز مواد نشر کرنے کی اجازت بھی بالکل نہیں ہونی چاہیے۔

۔۔۔

نصیحت آموز باتیں
مہرمنظور، ساہی وال
٭جب تمھیں دعوت دی جائے، تو یاد رکھو سب سے اونچی جگہ نہ بیٹھنا، تاکہ اگر میزبان کا تم سے بڑا دوست آجائے، تو میزبان تم سے یہ کہے اٹھو اور ذرا نیچے بیٹھ جائو۔ ایسا تمھارے لیے باعث شرمندگی ہوگا۔ اس لیے سب سے حقیر جگہ بیٹھو، تاکہ جس نے دعوت دی ہے وہ کہے ’’ اٹھو دوست اور یہاں اوپر آکر بیٹھو اس طرح تمھاری بڑی عزت ہوگی۔

٭سب سے بڑا جاہل وہ شخص ہے، جو اپنی پوری زندگی میں اس بات کو نہ جان سکا کہ اس کی دنیا میں آمد کا مقصد کیا ہے؟
٭جب بھی گناہ کی طرف مائل ہونے لگو، تو تین باتیں لازمی یاد رکھنا، اﷲ دیکھ رہا ہے، فرشتے لکھ رہے ہیں، موت ہر حال میں آنی ہے۔

٭ لوگ اچھا پڑھنے اور اچھا لکھنے والے کو قابل انسان سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت میں قابل انسان وہ ہے، جو اچھا سوچے اور اچھا بولے۔
٭ پرانے لوگ سمجھ دار تھے، تعلقات سنبھالتے تھے پھر لوگ ’عملی‘ ہوگئے۔ تعلق سے فائدہ نکالنے لگے، اب اگر ہمارے پیشے میں فائدہ ہو تبھی لوگ تعلق رکھتے ہیں۔

٭اچھی باتوں کا اثر آج کل اس لیے بھی نہیں ہوتا، کیوں کہ لکھنے والے اور پڑھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب دوسروں کے لیے ہے۔
٭یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ دنیا کی محبت سے رّب نہیں ملتا، لیکن ربّ کی محبت سے دنیا اور آخرت دونوں مل جاتی ہے۔

٭ انسان جب کچھ برا فعل کرتا ہے، تو دائیں بائیں آگے ، پیچھے ہر جگہ دیکھ لیتا ہے بس اوپر نہیں دیکھتا۔
٭ کسی کی بیٹی دیکھنے سے پہلے اپنا بیٹا دیکھ کر جایا کریں۔

٭ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت، غریب سے قریب کا رشتہ بھی چھپاتے ہیں اور امیروں سے دور کا رشتہ بھی بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں۔
٭گائوں میں رہوگے، تو ماں باپ کے ناموں سے پہچانے جائوگے ، بڑے شہروں کی تمّنا ہے، تو پھر مکان نمبر سے پہچانے جائو گے۔

٭ جب اﷲ کی طرف سے تم کو مال اور خوشیاں ملنے لگیں، تو تین باتوں کو مت بھولنا :
ایک خدا کو، ایک اس کی مخلوق کو ، اور ایک اپنی اوقات کو!

۔۔۔

دنیا۔۔۔ انسانی گھرانے کا وطن
مولانا ابو الکلام آزاد
خدا نے تمھیں ایک ہی ’’جامہ انسانیت‘‘ دیا تھا، لیکن تم نے طرح طرح کے ’بھیس‘ اور نام اختیار کر لیے اور ’رشتہ انسانیت‘ کی وحدت سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔۔۔ تمھاری نسلیں بہت سی ہیں اس لیے تم نسل کے نام پر ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ہو۔۔۔ تمھارے وطن بہت بن گئے ہیں۔۔۔ اس لیے اختلاف وطن کے نام پر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہو۔۔۔ تمھاری قومیں بے شمار ہیں۔۔۔ اس لیے ہر قوم دوسری قوم سے دست وگریبان ہو رہی ہے۔۔۔

تمھارے رنگ یک ساں نہیں اور یہ بھی باہمی نفرت وعناد کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔۔۔ تمھاری بولیاں مختلف ہیں اور یہ بھی ایک دوسرے سے جدا رہنے کی حجت بن گئی ہے، پھر ان کے علاوہ امیر وفقیر، نوکر وآقا، وضیع وشریف، ضعیف وقوی، ادنی واعلیٰ بے شمار اختلاف پیدا کر لیے گئے ہیں اور سب کا منشا یہی ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائو اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہو۔

ایسی حالت میں بتلائو وہ رشتہ کون سا رشتہ ہے، جو اتنے اختلافات رکھنے پر بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے اور انسانیت کا بچھڑا ہوا گھرانا پھر از سرنو آباد ہو جائے۔۔۔؟ وہ (خدا) کہتا ہے، صرف ایک ہی رشتہ باقی رہ گیا ہے اور وہ خدا پرستی کا مقدس رشتہ ہے۔۔۔ تم کتنے ہی الگ الگ ہو گئے ہو، لیکن تمھارے خدا الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ تم سب ایک ہی پروردگار کے بندے ہو۔۔۔ یہ آسمانی رشتہ تمھارے تمام ارضی اختلافات مٹادے گا۔ تم سب کے بچھڑے ہوئے دل ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے۔ تم محسوس کرو گے کہ تمام دنیا تمھارا وطن ہے، تمام نسل انسانی تمھارا گھرانا ہے اور تم سب ایک ہی رب العالمین کی عیال ہو۔۔۔!

(ترجمان القران، جلد اول)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔