مصر میں یومِ مادر منانے کی دل چسپ روایت

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی  اتوار 3 اپريل 2022
ماضی سے حال تک مصری معاشرے میں ماں کے احترام کی کہانی

ماضی سے حال تک مصری معاشرے میں ماں کے احترام کی کہانی

(اردو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ۔ مصر)

ماں ایک ایسی نعمت ہے جس کا زندگی میں کسی اور سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا اور جو قربانیاں ماں دے سکتی ہے کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ ماں کی اہمیت کے پیش نظر دنیا والوں نے ہر سال اس کے لیے ایک خاص دن مقرر کیا ہے، تاکہ اسے خراج تحسین پیش کیا جائے۔ یوم مادر منانے کی تاریخ ہر ملک میں مختلف ہوتی ہے۔ یہ پوری دنیا میں عام طور پر مارچ یا مئی کے مہینوں میں منایا جاتا ہے۔

ہر معاشرے کی ثقافت، نقطہ نظر اور تاریخ کے مطابق جشن کے مظاہر بذات خود ایک ملک سے دوسرے ملک میں مختلف ہوتے ہیں، لیکن ماؤں کو تحفے اور پھول دینا یا ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھانا ہر جگہ پکایا جاتا ہے۔ بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اس کے لیے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر تحفے دیتے ہیں، اور اس طرح ماں کی خدمات کے لئے اظہار تشکر کرتے ہیں۔

مصر میں ہر سال 21 مارچ کو یوم مادر منایا جاتا ہے، جو کہ موسم بہار کی ا?مد ساتھ ا?تا ہے۔ موسم بہار یعنی سکون اور نیکی کا موسم۔ مصر میں 21 مارچ کے دن کے انتخاب کی کہانی مرحوم صحافی مصطفیٰ امین تک جاتی ہے، وہ مائوں کے لیے ایک دن مخصوص کرنا چاہتے تھے تاکہ ماں کے احسانوں کے عوض اس کی کچھ خدمت کی جائے اور مائوں کی خدمات کو یاد کرنے کے لیے تمام اہل و عیال یکجا ہوں۔

جہاں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا “ہم کیوں سال کے کسی ایسے دن پر متفق نہیں ہوتے جسے ہم یوم مادر کہا جائے۔ اس دن کو اپنے ملک اور مشرق کے دوسرے ممالک میں چھٹی کا دن بنا دیں۔ اس دن بیٹے اپنی ماؤں کو چھوٹے چھوٹے تحائف دیں اور ماؤں کو چھوٹے چھوٹے خط بھیجیں جس میں مائوں کا شکریہ ادا کیا جائے۔

آپ لوگ مجھے بتائیں کہ ہم سال کے کس دن کو یوم مادر بنائیں؟” اس تحریر کے بعد ان کے پاس ایک خط آیا۔ یہ خط ان کو ایک مصری ماں کی طرف سے موصول ہوا تھا، جس میں اس ماں نے اپنے بیٹوں کی بدسلوکی کی شکایت کی تھی اور اپنی کہانی سنائی تھی۔

اس نے لکھا تھا کہ وہ بیوہ تھی اور اس کے بچے جوان تھے اور اس نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔ اس نے اپنی پوری زندگی اپنے بچوں کی خاطر وقف کر دی تھی اور وہ ان کی دیکھ بھال کرتی رہی یہاں تک کہ اس کے بچے یونیورسٹی سے فارغ ہو گئے، پھر اس کے بچوں نے شادیاں کر لیں اور اسے مکمل طور پر چھوڑ گئے۔ اس نے خط میں بتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کی پرورش کیسے کی، ڈاکٹر بننے کے لیے اس کی تعلیم کا خرچہ کیسے اٹھایا اور کس طرح ان کی شادی کے لیے ایک گھر خریدا۔ اتنی جفاکشی کے باعث وہ ذہنی طور پر بیمار ہو گئی مگر اب اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں کیوںکہ بچے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔

اخبار میں یہ خط شائع ہونے کے بعد، پڑھنے والوں نے 21 مارچ کو موسم بہار کے آغاز کو یوم مادر کے بطور منائے جانے کی رائے دی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جس طرح موسم بہار سکونِ قلب اور خوش گوار لمحات ساتھ لے کر آتا ہے اسی طرح ماں کا تصور بھی ایسا ہے جس سے سکون قلب اور خوش گوار لمحات حاصل ہوتے ہیں۔ مصطفیٰ امین نے حکومت کو ایک سرکاری درخواست بھیجی۔

اس جشن کی منظوری کے لیے ایک مہم شروع کی۔ اس کی منظوری صدر جمال عبدالناصر نے دی، جنہوں نے 1956 میں اعلان کیا کہ 21 مارچ کو سرکاری طور پر ماؤں کا دن منایا جائے گا۔ مصر میں ماؤں کا پہلا دن 21 مارچ 1956ء کو منایا گیا۔ یہ خیال مصر سے مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی پہنچا اور پوری عرب دنیا یوم مادر منانے لگی۔

اس دن، مصری بیٹے بیٹیاں اپنی ماں سے ملنے اور اپنی زندگی میں ان کی خدمات اور جفاکشی کے اعتراف میں تحائف پیش کر کے یوم مادر کا جشن مناتے ہیں۔ اس دن سرکاری اور غیرسرکاری دونوں سطحوں پر ان مثالی ماؤں کو اعزازات دیے جاتے ہیں، جو جدوجہد کر رہی ہیں، ان کی محنت، مشقت، ممتا اور قربانیوں کو اجاگر کرنے کے لیے، انہیں پرفیکٹ مدر، بیسٹ سروگیٹ مدر اور پرفیکٹ مدر فار پیپل ودھ اسپیشل نیڈز کا خطاب ملتا ہے اور ان ماؤں کو جو اپنے بچوں کے اخراجات کو پورا کرتی ہیں ان کو آرڈر آف پرفیکشن سے نوازا جاتا ہے۔

ویسے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یوم مادر ایک جدید رواج ہے اور یہ رومی تہذیب و تاریخ سے منسلک نہیں ہے، جب کہ دوسرے طبقے کا ماننا کہ فرعونوں کے زمانے میں بھی یوم مادر منایا جاتا تھا، اور مصری تہذیب ان تہذیبوں میں سے ایک تھی جس نے خواتین کو اونچا مقام دینے کے ساتھ ان کے حقوق بھی دیے۔

قدیم مصریوں نے یوم مادر منانے کے لیے تاریخ کا انتخاب “حطور ” کے مہینے میں کیا، جو کہ قدیم مصری کیلنڈر کے مطابق نیل کے سیلاب کا آخری مہینہ ہے، جب زرخیز زمین بیج بونے کے لیے تیار کی جاتی تھی، یعنی فطرت کی زرخیزی کا وقت۔ مصر کے قدیم باشندوں نے بھی ماں کو دریائے نیل سے تشبیہ دی جو نئی زندگی اورخوش حالی دیتی ہے۔

انہوں نے جشن منانے کے لیے موسم بہار کے پہلے دن کا انتخاب بھی کیا۔ فرعون جان بوجھ کر موسم بہار میں مناتے تھے کیوںکہ یہ وہ موسم ہے جس میں پھول کھلتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ ارتقا ہی زندگی ہے۔ مارچ میں اس وقت بیج بونے کے لیے زرخیز زمین اچھی طرح سے تیار ہوتی ہے۔

تو یوم مادر کا منایا جانا تاریخ سے جڑا ہوا ہے اور ماؤں کو عزت دینا کوئی نیا رواج نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا رواج ہے جس سے لوگ پرانے زمانے سے مانوس ہیں۔ 5000 سال سے بھی زیادہ پہلے قدیم مصر کا مرد سماج عورت اور ماں کی قدر اور عزت کرتا تھا اور وہ بھی اسی طرح کی تقریبات مناتا تھا جیسی اب مدر ڈے پر ہو رہا ہے۔

فرعونی آثار قدیمہ بھی ماں کے احترام اور تعظیم کیے جانے کی تصدیق کرتے ہیں۔ قدیم مصر کے نوادرات، ان کی شان دار پینٹنگز اور نوشتہ جات کے ساتھ، عام طور پر خواتین اور خاص طور پر ماؤں کے ممتاز مقام کی تصدیق کرتے ہیں۔ فرعونوں نے ماں کو ایک ایسے آسمان کا جیسا بتایا جو ہر صبح ایک نئے سورج کو جنم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ فرعونوں کی کہانیوں میں ملتا ہے کہ ان کے دیوتاؤں کی ایک بڑی تعداد مائیں تھیں جیسے نیفتھیس ۔ قدیم مصری ماں کو “ست بار” کہتے تھے، جس کا مطلب ہوتا ہے “گھر کی بیوی۔”-

قدیم مصری تعلیم نے بچوں کو یہ سکھایا کہ ماں سب سے بڑے خدا کے سب سے زیادہ قریب ہے، اس لیے اگر بچہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اس بات کے لیے دعا کرنے کے لیے ان کو اپنی ماں سے رجوع کرنا چاہیے، اور کچھ قدیم مصری بزرگوں کا کہنا ہے کہ”بچوں کی دعا اس وقت تک جنت کے کانوں تک نہیں پہنچتی جب تک کہ وہ ماؤں کے منہ سے نہ نکلے۔” قدیم مصریوں کے چھوڑے گئے خطوط میں ایک کاغذ بھی پایا گیا تھا جو ایک بچے نے اپنی ماں کا دن منانے کے لیے لکھا تھا۔

اس کے علاوہ بھی ایسے کئی قدیم مخطوطات ہیں جن کو دیکھ کر قدیم مصر میں مدر ڈے منائے کے ثبوت ملتے ہیں۔ قدیم مصر کے ایک پاپائرس میں، مدر ڈے کے لیے خاص الفاظ پائے گئے ہیں، اور ان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ میری ماں! آپ کی سال گرہ کے موقع پر سورج کی کرنیں کھڑکی سے آپ کی پیشانی کو چوم کر آپ کو آپ کی عید کے دن مبارک باد دینے آرہی ہیں۔

باغوں میں پرندے آپ کی فرمائش پر آپ کے لیے گانا گانے کے لیے صبح سویرے بیدار ہوگئے ہیں اور آج آپ کو مبارک باد دینے کے لیے جھیل کی سطح پر مقدس کمل کھلے ہیں میری ماں! آج آپ کی سال گرہ ہے، رب سے اپنی دعاؤں میں میرے لیے دعا کرنا مت بھولیے گا۔”

اس کے علاوہ قدیم مصری دانش مندوں کے مخطوطات میں ماں سے متعلق سیکڑوں کہاوتیں پائی جاتی ہیں، معروف دانش مند “آنی” ایک مخطوطے میں اپنے بیٹے کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ ’’اپنی ماں کی اطاعت اور احترام کرے، کیوںکہ وہ خدا کی ایک بخشش ہے۔ وہ بدلے میں کسی چیز کا انتظار کیے بغیر تیری خاطر نرم مزاج اور اپنے آرام کی قربانی دیتی ہے۔

تو اپنی ماں کا احسان فراموش نہ کر، وہ تجھے اپنے دل کے قریب رکھتی تھی، تجھے درس گاہ لے جاتی تھی اور کھانا لے کر تیرا انتظار کرتی تھی۔ تو جب بڑا ہوجائے اور تیری ایک بیوی ہو تو اپنی ماں کو مت بھول۔ اپنی ماں کو ایک دو گنا روٹی لوٹا دے جو اس نے تجھے دی تھی، یاد رکھ تیری ماں نے تجھے جنم دیا اور تیری اچھی پرورش کی۔ ماں زمین کے لیے خدا کی ایک انمول نعمت ہے۔‘‘

مصری مندروں کے نوشتہ جات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ قدیم مصری کس حد تک ماں کی تعظیم کرتے تھے اور یہاں تک کہ اسے دیوی کے درجے تک پہنچایا، جیسے کہ دیوی “حتحور”محبت اور مادریت کی دیوی، دیوی “تاورت” حمل، ولادت اور زرخیزی کی دیوی اور زچگی کے معاملات میں سب زیادہ مشہور دیوی آئیسس” بھی شامل ہے، جس نے اپنے شوہر کی لاش اور اپنے بیٹے حورس کے حقوق کی بحالی کے لیے طویل عرصے تک جدوجہد کی تھی، اس دیوی کے بہت سے مجسمے بنائے گئے ہیں جن میں اس کو اپنے بچے کو گلے لگاتے اور دودھ پلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

تقریباً پانچ ہزار سال قبل قدیم مصر سے تعلق رکھنے والی پاپیری نے انکشاف کیا کہ قدیم مصری اس دن کو سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ مناتے تھے، جس کی روشنی اور شعاعوں کو وہ آسمان کے دیوتا کی طرف سے اس کی مبارک باد میں شریک ہونے کا پیغام سمجھتے تھے۔ پھولوں سے سجے جلوس مصری شہروں کے اندر گھومتے تھے اور اس دن کو کئی ناموں سے پکارا جاتا تھا، جیسے مدر ڈے، مدر آف ایکسٹینس ڈے، مدر آف لائف ڈے، اور خوب صورت مدر ڈے۔

اور چوںکہ قدیم فرعونی ملکہ آئیسس قدیم مصری مذہب میں مادریت کی علامت اور ایک اچھی بیوی تھی، اس لیے قدیم مصریوں نے اسے اپنے مندروں کی یادگاروں، تخلیق اور تشکیل کے متنوں اور خرافات اور مقدس پیڑوں کی چھال میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ قدیم مصری اپنی ماؤں کے لیے تحفے اور مقدس مجسمے اس کے کمرے میں رکھا کرتے تھے، جس سے زچگی کا اظہار ہوتا تھا۔ وہ اپنے بیٹے حورس کو لے جانے والے کے مجسمے کو زچگی کی علامت اور مدر ڈے کی علامت سمجھتے تھے۔

قدیم مصری قیامت اور دوسری دنیا پر یقین رکھتے تھے، پھر انہوں نے نسل انسانی، پیدائش اور تولید کو نسل انسانی کی بقا اور تسلسل کی ضمانت کے طور پر دیکھا، جس سے عورت کے کردار کی تصدیق ہوئی اور ماں ہی خاندان کا مرکز بن گئی، اور انہوں نے ماں کو معبودوں کے درجے تک پہنچا دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ کوئی تہذیب اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اسے ماں کے بازو پر نہ بنایا جائے، وہ خواتین کی بہت عزت کرتے تھے اور یہ ان کے مندروں میں بنی پینٹنگز سے واضح ہو تا ہے کہ وہ خواتین اور خاص طور پر ماؤں کا خیال کیسے رکھتے تھے۔

آخر میں کہنا چاہتی ہوں کہ ماں کی تعظیم صرف ایک دن نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہر دن اور ہر وقت ہونی چاہیے اور بلاشبہہ سب سے قیمتی تحفہ جو ایک ماں کو اس کے دن پر دیا جا سکتا ہے وہ ہے تمام آسمانی مذاہب کی طرف سے تجویز کردہ احسان، پیار اور رحم ہے۔ ماں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنا سکون قربان کر دیتی ہے اور ان کی شخصیت کو اس طرح بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ معاشرے کی تعمیر کے لیے اچھے فرد بنیں۔

ماں عطا کا وہ بہتا ہوا دریا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔ ماں کا مقام اور معاشروں اور تہذیبوں کی تعمیر میں اس کا کردار کو جو سب سے زیادہ بیان کرتا ہے۔ میں مصر کے عظیم شاعر حافظ ابراہیم کے شعر کا ترجمہ پیش کر رہی ہوں جس میں ماں کے مصری سماج میں احترام کی ایک جھلک ملے گی:

ماں ایک درس گاہ ہے جسے پیار سب کریں
دنیا میں اچھی نسل کو تیار سب کریں
میں ایک ماں ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی بیٹی کے احترام میں یوم دختر مناؤں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔