کراچی بد امنی کیس: ایجنسیوں کے افسران قبضہ مافیا کے سرپرست بن گئے،سپریم کورٹ

اسٹاف رپورٹر  منگل 25 فروری 2014
سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنیوالے اداروں اورافرادکیخلاف کارروائی کی تفصیلات بھی پیش کرنیکی ہدایت،افوٹو: فائل

سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنیوالے اداروں اورافرادکیخلاف کارروائی کی تفصیلات بھی پیش کرنیکی ہدایت،افوٹو: فائل

کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں 3رکنی لارجربینچ  نے کراچی میں امن وامان سے متعلق پولیس کی رپورٹ مستردکرتے ہوئے  ٹارگٹڈآپریشن کی  پیش رفت کے بار ے میں مکمل  رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیاہے۔

عدالت نے آبزروکیا کہ 10ہزار سے زائدملزمان کودہشت گردقرار دیتے ہوئے گرفتارکیا گیامگر صرف 175ملزمان کے خلاف انسداددہشت گردی کی عدالتوں میں چالان پیش کیے گئے۔ جسٹس انورظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ جج کے بیٹے کوبھی قتل کردیا گیاتواس سے بڑی دہشت گردی کیا ہوگی؟ عدالت نے سیشن جج جیکب آبادکے بیٹے کاشف علی کے  قتل کی تفتیشی رپورٹ پیش کرنے جبکہ سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والے سرکاری اداروں اورافراد کے خلاف کارروائی کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔ جسٹس انورظہیرجمالی  نے ریمارکس دیے کہ جب ایجنسیوں کے افسران کی  سرپرستی میں زمینوں پرقبضے ہورہے ہوں تو مافیازکوکون پوچھے گا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پرانسداد تجاوزات سیل کے سربراہ عارف عزیزکو بھی پیش ہونے کی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3رکنی بینچ نے عدالت کی اجازت کے بغیر ایس ایس پی راؤ انوار احمد کی بحالی کے خلاف درخواست پر آئی جی سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر وضاحت طلب کرلی۔ پیرکو 3رکنی بینچ نے سماعت شروع کی۔ عدالت کے استفسارپر ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے روایتی شکایت کی کہ ماتحت عدالتوں میں پراسیکیوشن کو غیرقانونی اسلحے سے متعلق مقدمات کے فیصلوں میں مشکلات کاسامنا ہے۔ پورے صوبے میں اسلحہ ایکٹ2013کے تحت قائم کیے گئے۔

مقدمات میں سزاؤں کی شرح صفرہے اورماتحت عدالتوں کے جج ان مقدمات کے بجائے پہلے سے زیرسماعت مقدمات کوترجیح دیتے ہیں جبکہ حکومت کی سفارش کے باوجودکراچی کے پانچوںاضلاع میں غیرقانونی اسلحہ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم نہیں کی گئی ہیں۔ اس موقع پرجسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ کراچی آپریشن کے دوران 10ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر عدالتوں میں چند مقدمات کا چالا ن پیش کیا گیا۔ بینچ کے استفسارپر ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہدحیات نے بتایاکہ کراچی آپریشن کے دوران 7523ملزمان گرفتار ہوئے جن میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار ملزمان کی تعداد 175ہے جبکہ دیگرملزمان کے خلاف مقدمات سیشن عدالتوں میں ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ مقدمات کاچالان پیش نہ ہوتو کوئی فائدہ نہیں۔ اگر جیل میں ملزمان موبائل فون استعمال کرتے اور نیٹ ورک چلاتے ہوں تو کیا امن ہوگا؟ شاہدحیات نے کہاکہ 7ہزار سے زائد مقدمات سیشن عدالتوںمیں زیرسماعت ہیں۔ انھوںنے بینچ کوبتایاکہ جیل میں موبائل فون کا استعمال روکنے کے لیے جیمرزنصب کردیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے استفسار کیا کہ جیمرز کی وجہ سے جیل کے اطراف میں کتنا رہائشی علاقہ متاثر ہوتا ہے؟

شاہدحیات نے بتایا کہ جیمرزسے غوثیہ کالونی، حیدرآبادکالونی اورعثمانیہ کالونی زیادہ متاثرہیں۔ تاہم جیمرز کے اثرات جیل تک محدود رکھنے کے لیے اقدام کیے جارہے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے، کتنے قابضین کو بے دخلی کے نوٹس جاری کیے گئے۔ ایڈووکیٹ جنرل اور غیرقانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ نذر محمدلغاری نے بتایا کہ اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ عدالت میں پہلے ہی پیش کی جاچکی ہے جس میں بتا دیاگیا ہے کہ کتنی سرکاری زمینوں کی غیرقانونی الاٹمنٹ کی گئی ہے۔ اس موقع پر بورڈآف ریونیوکے ممبر ٹیکنیکل ذوالفقارشاہ نے بتایاکہ سیٹلائٹ سروے کے مطابق کراچی کی 60ہزار ایکڑسرکاری اراضی پر غیرقانونی قبضہ ہے جس میں 52ہزار ایکڑپر کے پی ٹی، ڈی ایچ اے اورایم ڈی اے جیسے سرکاری ادارے قابض ہیں۔ جسٹس انورظہیر جمالی نے آبزرویشن دی کہ یہ ایک منظم جرم بن چکاہے۔ حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے کیا اقدام کیے ہیں۔ ایک طاقتورمافیا ہے جوقبضے کررہا ہے۔ کے ڈی اے نے جن زمینوں کو نیلامی کے ذریعے فروخت کیاان پربھی قبضے ہوگئے۔ اصل مالکان عدالتوں میں دھکے کھاتے پھررہے ہیں۔ عدالتوں کے حکم پر اس لیے عمل درآمدنہیں ہوتا کیونکہ ایجنسیاں مافیاکی سرپرستی کررہی ہیں۔ پولٹری اوربلڈر مافیا زمینوں پربے خطر قبضے کررہی ہیں۔ عدالت کے استفسار پر نذر محمد لغاری نے بتایا کہ گوٹھ آباداسکیم کے تحت کسی بھی گوٹھ کو ریگولرائزکرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے بتایا کہ غیر قانونی قبضوں اور تجاوزات کے خلاف انسداد تجاوزات سیل کارروائی کرتا ہے جوبراہ راست محکمہ ریونیو کے ماتحت ہے تاہم اس کے سربراہ کی نامزدگی آئی جی سندھ کی جانب سے کی جاتی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ سیل کے سربراہ عارف عزیزآئندہ سماعت پرمکمل ریکارڈسمیت پیش ہوں اوریہ بھی بتائیں کہ قبضوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔

جسٹس انورظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ ناردرن بائی پاس کے قریب 90فیصد غیرقانونی دیہات قائم کردیے گئے ہیں۔ اس موقع پر سماجی کارکن سید محمود اختر نقوی نے بتا یا کہ 6مارچ 2013کو عدالت نے سانحہ عباس ٹاؤن میں مجرمانہ غفلت برتنے پر ایس ایس پی ملیر راؤانوار سمیت دیگرمتعلقہ افسران کومعطل کرنے اوران کے خلاف محکمانہ کارروائی کاحکم دیاتھا تاہم عدالت کی اجازت کے بغیرایس ایس پی راؤانوار کو دوبارہ عہدے پربحال کردیا ہے۔ وہ زمینوں پر قبضہ کرنے والی مافیا کے سرغنہ ہیں لیکن کیونکہ ان کے بااثر شخصیات سے تعلقات ہیں جو اسے دوبارہ اسی مقام پربحال کرانے میں کامیاب ہوئیں۔ آئی جی سندھ کا یہ اقدام توہین عدالت کے مترادف ہے۔ عدالت نے حکم دیاکہ آئی جی سندھ آئندہ سماعت پرخود پیش ہوکر وضاحت کریں۔ غیرقانونی سموں کے اجراکے خلاف اقدام کے متعلق اٹارنی جنرل پاکستان سلمان بٹ نے بینچ کو بتایاکہ اس ضمن میں کارروائی کے لیے جو کمیشن تشکیل دیا جائے گااس کے لیے انھوں نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے ساتھ مل کرٹیکنیکل، جوڈیشل اوراکاؤنٹنگ کے ارکان نامزد کردیے ہیں۔ عدالت نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت 26فروری تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔