سیاسی غیر یقینی حالات کا خاتمہ ناگزیر

ایڈیٹوریل  پير 4 اپريل 2022
دیکھا جائے تو ایک متوقع عالمی بحران ہمارے سامنے ہے، ہمارا ملک بھی اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

دیکھا جائے تو ایک متوقع عالمی بحران ہمارے سامنے ہے، ہمارا ملک بھی اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں سیاسی اور آئینی صورت حال نے جو رخ اختیار کیا ہے، اس کے بارے میں خدشات تو موجود تھے لیکن حالات اس نہج تک پہنچا دیے جائیں گے ،اس کا اندازہ شاید چند اسٹیک ہولڈرز کو تو ہو سکتا ہے لیکن ملک کے عوام کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان اور ان کے قریبی لوگ ملک کو غیر یقینی حالات کے سپرد کردیں گے۔

ملک کے عوام اور فہمیدہ حلقے امید کرتے ہیں، ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز آئین وقانون کا ہی راستہ اختیار کریں گے کیونکہ حالیہ بحران وفاق پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی اس کے بارے میں فی الحال کوئی رائے دینا مناسب نہیں ہے البتہ یہ امید رکھنی چاہیے کہ مستقبل میں جو کچھ بھی ہو گا، آئین وقانون کے مطابق ہو گا۔

ادھرگزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے امریکا کے ساتھ بھی بہترین اسٹرٹیجک تعلقات کی طویل تاریخ ہے، پاکستان ان دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کیے بغیر مزید وسعت دینا چاہتا ہے،اسلام آباد میں منعقدہ سیکیورٹی ڈائیلاگ کے دوسرے روز شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے واضح کیا کہ پاکستان کیمپوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔

اْنھوں نے کہا کہ پاکستان کے اپنے شراکت داروں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات دوسرے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کی قیمت پر قائم نہیں ہیں۔ اس پر مزید بات کرتے ہوئے اْنھوں نے کہا کہ پاکستان کا چین کے ساتھ قریبی اسٹرٹیجک تعلق ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے سے عیاں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح ہماری امریکا کے ساتھ بہترین اسٹرٹیجک تعلقات کی طویل تاریخ ہے اور امریکا ہماری سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے،جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان کسی ایک ملک سے تعلقات خراب کیے بغیر دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔

پاکستان کو روس یوکرین تنازع پر تشویش ہے، روس کا یوکرین پر حملہ افسوس ناک ہے جس میں بہت سے شہری ہلاک ہو چکے ہیں، یوکرین پر روسی جارحیت کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے اور مذاکرات کے ذریعے تنازع کا حل ہونا چاہیے،آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان مذاکرات پر یقین رکھتا ہے، روسی جارحیت بہت بڑا سانحہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا،ہمارے یورپی یونین اور جاپان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں، پاکستان سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔

خطے کی سیکیورٹی اور استحکام ہماری پالیسی کا حصہ ہے، ملک کی خوشحالی،ترقی اور امن ہماری ترجیح ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 90 ہزار جانیں قربان کیں،پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف مثالی کامیابیاں حاصل کیں اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بھارت کا سپرسانک میزائل پاکستان میں گرنے پر شدید تشویش ہے، ایک ایٹمی ملک کا دوسری ایٹمی ملک پر میزائل گرا ہے، بھارت دنیا اور پاکستان کو بتائے کیا اس کے ہتھیار محفوظ ہیں، میزائل کے باعث کسی بھی قسم کا جانی نقصان ہوسکتا تھا یا کوئی مسافر طیارہ بھی نشانہ بن سکتا تھا، پاکستان نے بھارت کے میزائل گرنے کے واقعے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ ایل او سی پر صورت حال فی الحال باعث اطمینان اور پرامن ہے، گزشتہ ایک سال سے کوئی بڑا تنازع نہیں ہوا، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سفارت کاری اور مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔

پاک فوج کے سربراہ نے داخلہ اور خارجہ حوالے سے بہت واضح باتیں کی ہیں، ان کی باتوں سے پاک امریکا تعلقات ، روس یوکرین تنازعہ ، چین اور بھارت کے ساتھ تعلقات اور تنازعہ کشمیر پر پاکستان کا موقف کھل کر سامنے آیا ہے ۔روس کی یوکرین پر جارحیت کے حوالے سے حکومت نے جو ابہام پیدا کیا تھا، اسے ختم کردیا گیا ہے ۔ پاک فوج کے سربراہ نے واضح طور پر کہا کہ روس نے یوکرین پر جارحیت کی ہے اور اسے جلد ختم کیا جانا ضروری ہے ۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے مارچ کے دوسرے ہفتے میں واضح کیا تھا کہ اگر نیٹو اور روس کا تصادم ہوا تو تیسری جنگ عظیم شروع ہوجائے گی، صدر بائیڈن نے یہ بات وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے روس کے یوکرین پر حملے کو روکنے کے لیے امریکا کی طرف سے کسی بھی براہ راست مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اس طرح کا تنازع نیٹو کو روس کے خلاف کھڑا کرنا تیسری عالمی جنگ ہے۔ امریکی صدر نے جس جانب اشارہ کیا وہ درست ہے کیونکہ روس اور یوکرین کا بحران زیادہ بڑھا تو یہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ درست ہے کہ یوکرین پر روس کا حملہ کسی ملک کی ’ قومی خود مختاری‘ اور ’عالمی قانون‘ کی خلاف ورزی کے زمرہ میں آتا ہے۔عالمی عدالت انصاف بھی روس کو یوکرین کے خلاف فوج کشی ختم کرنے کا کہہ چکی ہے۔ عالمی عدالت نے ماسکو کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یوکرینی صدر نے اس فیصلے کو مکمل فتح قرار دیا تھا لیکن دیکھا گیا ہے کہ روس یوکرین بحران تاحال جاری ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق مسئلے کا فوری حل تو فی الحال سامنے نہیں آ رہا۔ یوکرین پر روسی حملے کو دنیا میں ایک اور سرد جنگ کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔

ایک مرتبہ پھر اس سرد جنگ کا مرکز یورپ ہوگا۔ روس یوکرین کے تنازع نے سب سے زیادہ تیل کی تجارت کو متاثر کیا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ روس دنیا کو تیل سپلائی کا تقریباً 12 فیصد حصہ رکھتا ہے اور یورپی یونین کو تقریباً 40 فیصد گیس فراہم کرتا ہے۔

پاکستان بھی اس صورتحال سے شدید طور پر متاثر ہورہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مغرب مزید سخت پابندیوں کی تیاری کر رہا ہے لیکن اس کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور روس کے لیے بھی خاصی مشکلات جنم لیں گی۔ جنگ اور پابندیوں کے امکانات نے وبائی مرض کورونا سے بمشکل ابھرنے والی عالمی معیشت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

گزشتہ دنوں آئی ایم ایف نے روس اور یوکرین کے مابین جنگ پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین میں حالیہ جنگ کے باعث اس کا معاشی گراف 10 فیصد تک گر سکتا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بدترین منفی اثرات معیشت پر مرتب ہوں گے اور اس ملک کا معاشی بحران خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرینی معیشت میں 10 فیصد تنزلی کا خدشہ ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جاری رہی تو معیشت مزید تیزی سے گر سکتی ہے۔

آئی ایم ایف نے یہ رپورٹ یوکرین کو ہنگامی امداد جاری کرنے سے پہلے تیار کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق جنگی صورتحال پر قابو نہ پانے کی صورت میں بڑے پیمانے پر مزید تباہی کا اندیشہ ہے ۔ اس رپورٹ میں جنگ کے شکار ممالک عراق اور لبنان کے معاشی بحران کو بھی زیر غور لایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام ممالک جو جنگی صورتحال سے نبرد آزما ہیں، ان کے جی ڈی پی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ میں اعداد و شمار کے بعد خبردار کیا گیا ہے کہ یوکرین کی اقتصادی پیداوار 25 سے 35 فیصد تک گر سکتی ہے اور یہ اندازے درست ثابت ہونے کی جانب رواں دواں ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو ایک متوقع عالمی بحران ہمارے سامنے ہے، ہمارا ملک بھی اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہورہا ہے ، ایسے نازک وقت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی نے ملک کے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں، یوکرین کے بحران پر جو پوزیشن لی گئی ، اس کی وجہ سے امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہورہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی صورتحال میں بھی ایسی تبدیلی آئی جس کے نتیجے میں امریکا کے ساتھ محاذآرائی پیدا ہونے کے خطرات نظر آنے لگے تھے ۔

ایسے موقعے پر پاک فوج کے سربراہ نے صورتحال کو سنبھالا ہے، پاکستان روس اور چین کی خاطر امریکا سے محاذآرائی کا رسک نہیں لے سکتا اور نہ ہی افغانستان کی طالبان حکومت کی غلطیوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔طالبان نے اقتدار میں آنے کے لیے دوحہ میں امریکا اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ جو وعدے وعید کیے یا کوئی معاہدہ کیا ہے۔

اس پر عمل کرنا طالبان کی قیادت کی ذمے داری اور اگر طالبان ان پر عمل نہیں کررہے تو پھر جن قوتوں نے ان کے ساتھ کوئی معاہدہ یا وعدہ کیا، وہ طالبان پر دباؤ ڈال کر ان پر عملدرآمد کرائیں۔پاکستان کے حکمرانوں کو طالبان کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنے ملک کے عوام اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے کیونکہ یہی ان آئینی مینڈیٹ ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز حالات کی سنگینی کو سمجھیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔