اللہ رسول محمد ؐ

راؤ منظر حیات  پير 4 اپريل 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

اعجاز احمد سے میری پہلی ملاقات صرف دو ڈھائی برس پہلے کی ہے۔ کامیاب تاجر اور بے حد درد دل سے مزین انسان ۔ بہاولپور ہاؤس کی سرکاری رہائش گاہ چھوڑ کر اپنے گھر میں منتقل ہوا۔ تو نئی آبادی کا ماحول بالکل اجنبی سا تھا۔ یاد ہے ۔

سب سے پہلے اعجاز میرے پاس آیا۔ تیکھے نقش اور حد درجہ دانشمند آنکھیں۔ حدود و قیود میں تعارف ہوا ۔ تھوڑے دن بعد کہنے لگا کہ سیرت النبی ؐپرکتاب لکھنی ہے۔ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے صرف یہ عرض کی کہ جس موضوع پر ابن کثیر‘ ابن ہشام‘ اورشبلی نعمانی جیسے جید لوگ قلم اٹھا چکے ہیں۔ کیا اس پر آپ کا لکھنا مناسب ہے۔ جواب حد درجہ محترم تھا۔ عام اور سادہ اردو زبان میں لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس لیے کہ جولوگ ٹھوس اردو پڑھ نہیں سکتے ‘ وہ بھی آقاؐ کے متعلق جان پائے۔ خیر ان جملوں کے بعد بحث کی گنجائش ہی ختم ہو گئی۔

اب ہوتا یہ تھا کہ نیم پختہ مسودہ مجھے گھر بھجوا دیتے تھے۔ معمولی سی کتر وبرید کر کے واپس بھجوا دیا کرتا تھا۔ اس پورے معمول میں یہ اندازہ ہوا کہ اعجاز کو سیرت النبی ؐ پر بہت زیادہ عبور حاصل ہے۔ کم از کم میرے جیسے طالب علم سے تو حد درجہ زیادہ ۔ ایک دن کہنے لگا کہ اب مسودہ مکمل ہو گیا ہے۔ لہٰذا چھپنے دے رہا ہوں۔

چند ہفتوں بعد ‘ سیرت پر لکھی گئی ایک حد درجہ خوبصورت کتاب میری میز پر پڑی ہوئی تھی۔ نام ’’اللہ رسول محمدؐ‘‘ تھا۔ ویسے اس نام پر بھی ہم دونوں کی باہمی مشاورت ضرور ہوئی تھی۔ آقاؐ کی مہر کے نیچے صرف اللہ رسول محمد درج تھا۔ بہت موثر سرورق ہے۔ حاشیے پر پروفیسر احمد رفیق اختر‘ ہارون الرشید‘ اوریا مقبول جان‘ پروفیسر احمد القاضی اور جسٹس نذیر احمد غازی جیسے بڑے لوگوں کے اکتسابات درج تھے۔

احمد رفیق اختر بذات خود غیر معمولی انسان ہیں اور یہی جادو ان کی تحریر میں بھی ہے۔ لکھتے ہیں۔مصنف دور افتادہ ادیب نہیں بلکہ بہت قریب کے واقعہ نگار لگتے ہیں۔ ہر نقطہ‘ ہر جملہ ہمارے سامنے سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے مسافر کا بیان لگتا ہے جو اُس زمانے میں ‘ اس معاشرہ کا حصہ ہونے کی حیثیت سے واقعات اور حادثات کو بیان کر رہا ہو۔ہارون الرشید جو کالم نگاری میں انتہائی ممتاز مقام رکھتے ہیں۔

اس کتاب کے متعلق کہتے ہیں ۔ کتاب کا ہنر سادگی اور سلاست ہے۔ ہر ایک روایت صحت مندی اور سچائی کے ساتھ لیکن سہل۔ اس قدر سہل کہ ایک معمولی طالب علم بھی ادراک کر سکے۔ رفتہ رفتہ سرکار ؐ کی شخصیت کا جمال باطن میں اترتا اور نور لاتا جائے۔ میں اسے پڑھتا ہوںاور حیران ہوتا ہوں۔ ایسا نادر اسلوب ہے۔

اوریا مقبول نے پیش لفظ میں بھی بہت اعلیٰ بات تحریر کی۔ محبت سے لکھی گئی سیرت النبی درج ہے۔ہر طبقہ فکر اور پیشے سے منسلک افراد کے لیے سیرت کے علیحدہ علیحدہ پہلوؤں پر کتابیں لکھی گئیں لیکن بہت کم کتابیں ایسی ہیں جو آسان زبان میں عام آدمی کی فہم کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہوں۔ اردو میں شبلی نعمانی کی سیرت النبی ؐ سے لے کر آج تک یہ شعبہ بہت تشنہ تھا۔ اس تشنگی کو اعجاز احمد صاحب نے ایسی خوبصورتی سے ختم کیا ہے کہ دل و روح کو سراب کر دیا ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ زبان صرف سہل ہی نہیں‘ اس میں چاشنی اور مٹھاس بھی ہے۔

دوسری خوبی یہ ہے کہ سیرت النبی ؐ کے حوالے سے جتنے بھی واقعات بیان ہوئے ہیں ‘ وہ مستند اور ان کے حوالہ جات قاری کو اطمینان دلانے کے لیے کتاب میں موجود ہیں۔پیر محمد امین الحسنات شاہ نے بھی کمال تحریر کی ۔فرماتے ہیں کتاب مسلک سے بالا تر ہے ۔یہ کتاب سیرت انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو نہایت آسان انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس آسان انداز میں بھی گہری بصیرت اور اخلاص و محبت کے کئی رنگ دیکھے جا سکتے ہیں۔ کتاب کے حرف حرف اور سطر سطر سے عقیدت و محبت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ کتاب کا اسلوب بیان اور حسن ترتیب بھی دلکش اور جاذب نظر ہے۔

محمود احمد کنگن پوری کا بیان ہے ۔ محترم اعجاز احمد! علمی گہرائی ‘ وسعت مطالعہ ‘ عمیق فکر‘ اسلوب نگارش‘ انداز فکر‘ مؤرخانہ بصیرت اور ذوق انتخاب میں جو شان و مقام ‘ فضل و کمال اللہ کریم نے آپ کو عطا کیا ہے وہ بہت ہی کم لوگوں کو میسر ہے۔ آپ نے سیرت پاک پر اردو زبان میں ’’اللہ رسول محمد‘‘ لکھ کر سیرت نگاری میں ایک سنگ میل قائم کیا ہے۔

سیرت طیبہ سے متعلق مواد کا ایک ایسا گلدستہ اور مجموعہ جس کی مثال اردو زبان میں تو درکنار دیگر زبانوں میں بھی کم ملتی ہے۔ ایسی پیاری کتاب کی ایک ایک سطر محبت رسول ؐ کی خوشبو میں بسی ہوئی‘ ایک ایک لفظ عقیدت رسول میں ڈوبا ہوا ہے۔

ڈاکٹر سیدہ سعدیہ کتاب کے بارے میں فرماتی ہیں۔ ’’اللہ رسول محمدؐ ‘‘ بھی خون دل نوازی سے آراستہ‘ محبت کی کیفیت احوال کا اظہار اور عقیدت و محبت کی چاشنی میں گندھی ہوئی ایسی عطر بیز تصنیف ہے جو ’’رسول اللہ ؐ سے نسبت کی تلاش‘‘ کا مقصد لیے ہوئے زمانۂ حال کے مسافر کو دیار محبوب میں لے جاتی ہے جس کی مسافت میں چودہ صدیوں سے زیادہ کا وقت حائل ہے۔ واقعات و حوادث کی ترتیب اور اسلوب بیان قاری کو اس زمانہ کا فرد سمجھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جس میں اس کا محبوب سانس لے رہا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر راحیلہ خالد قریشی نے بھی اعلیٰ بات کہی۔محترم مصنف کی جانب سے نوجوان قارئین کی سہولت اور بہتر فہم کے لیے انگریزی میں مفردات و مرکبات کا ترجمہ اچھی کاوش ہے۔ ہماری نوجوان نسل یقینا اپنے مروجہ جدید انداز کے مطابق اس کتاب کو پڑھ کر مستفید ہو سکے گی۔ اللہ تعالیٰ نوجوان نسل کو صحیح سمت میں ہدایت اور سیرت محمد ؐ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس کتاب کا مکمل انگریزی زبان میں ترجمہ کر دیا جائے۔

مولوی عبدالوہاب جن کا تعلق قرآن اکیڈمی سے ہے‘ کہتے ہیں ۔کتاب مستندمعلومات سے لبریز ہے جو قارئین کے لیے حضور اکرم ؐ کے ساتھ محبت بڑھانے کا ذریعہ بنے گی۔مدینہ یونیورسٹی سے منسلک ابو حمزہ مقصوداحمد المدنی کا بیان ہے۔یہ عظیم شاہکار جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس میں تاریخی اور مستند معلومات ایک نئے محبت بھرے انداز میں پیش کی گئی ہیں۔ دلی دعا اور تمنا ہے کہ مختلف زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہو جائے۔حجتہ الاسلام آغا سید حسن رضا ہمدانی ‘ پرنسپل مدرسہ قرآن ناطق کے مطابق ‘ نسل نو کے استفادہ ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ‘‘ کے لیے ایک شاہکار تالیف ہے۔

سید عامر محمود جعفری ‘ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ لکھتے ہیںکہ ہر سطر لائق قدر ہے۔ اس کتاب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ دور جدید کا طالب علم روز مرہ کی اردو زبان میں آسانی سے سیرت کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ زاہد حسین چھیپا سے کون واقف نہیں ہے ۔ ان کے مطابق اللہ رسول محمدؐ سیرت کی کتاب ہی نہیں‘ ایک محبت نامہ ہے۔ آقا ؐ کے روبرو کھڑے غلام کی طرف سے ہدیہ ہے۔ تاریخ میں عقیدت کی اتنی خوبصورت عکاسی خال خال ہی ملتی ہے۔

کتاب میں مکی زندگی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ قبل از ولادت ‘ بچپن ‘ جوانی‘ اعلان نبوت ‘ مشکلات کا دور ‘ سفر معراج اور ہجرت تک واقعات تک انتہائی تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ درج ہے کہ رسول اللہ ؐ کے اوصاف حمیدہ کے بحر ذخار کا چند اوراق میں احاطہ کرنا بہت مشکل فن ہے۔

فاضل مصنف نے اس فن سے انصاف کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے‘ ورنہ اس موضوع پر تو ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ کے مصداق انتہائی محنت و توانائی صرف کر دیں تو بھی سیرت طیبہ کا ایک باب رقم نہ ہو اور طلب مزید بڑھتی جائے۔ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ یہ غماز ہے اس بات کا کہ انسان کا قلم مجسم قرآن کے اوصاف حمیدہ کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔

آپ کے ذہن میں یہ ضرور سوال اٹھے گا کہ میں صرف دوسرے لوگوں کا حوالہ کیوں دے رہا ہوں ۔اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نایاب کتاب میں ایک نقطے کا اضافہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔

سیرت النبیؐ جیسے بلند پایۂ موضوع پر میرے جیسا لا علم انسان قطعاً بات نہیں کر سکتا۔ اگر تھوڑا سا ادراک ہے بھی ‘ تو اس کو بیان کرنا بساط سے باہر ہے ۔ اتنے سنجیدہ موضو ع پر قلم اٹھانا آسان کام نہیں۔ یہ انتہائی مشکل اور علمی کام لکھاری نے کمال محبت سے ادا کیا ہے۔علم اور عقیدت کا یہ امتزاج خال خال ہی نظر میں آتا ہے ۔ یہ مٹھاس اس شاندار کتاب میں محبت کی وہ روشنائی گھول دیتی ہے جو صرف اور صرف ایک عاشق رسول ہی کر سکتا ہے۔

سیرت پر کتابوں کا ایک خزانہ موجود ہے۔ آقاؐ کی زندگی کے ہر پہلو پر کمال کتابیں موجود ہیں۔ دقیق ترین تحقیق سے آویزہ کتب ۔ مگر اعجاز احمد کا اعجاز یہ ہے کہ حد درجہ عام فہم اردو زبان میں سیرت کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔ اردو اصطلاحوں کے انگریزی ترجمے بھی جابجا موجود ہیں۔ سیرت پر لکھی گئی یہ کتاب عام فہم زبان میں لکھی گئی منفرد ترین تصنیف ہے۔ اعجاز تو سب پر بازی لے گیا۔ آخرت کا توشہ‘ دنیا ہی میں بھی معتبر کر دیا۔ تعریف کے علاوہ خاکسار کے پاس اور کوئی لفظ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔