سیاسی وآئینی بحران

جمشید باغوان  پير 4 اپريل 2022

اپنے گزشتہ ہفتے کے کالم میں عمران خان کی جانب سے تصادم کی راہ اختیار کیے جانے کا ذکر کر چکا تھا اگرچہ اس کی صورت کسی اور شکل میں ظاہر ہوئی لیکن وزیراعظم عمران خان نے اقتدار بچانے کے لیے تصادم کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں سب سے آسان ترین غداری کا الزام لگا کر پہلے سے سیاسی اور معاشی بحران کے شکار ملک کو آئینی بحران سے بھی دو چار کر دیا ہے۔

تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے ہی حکومت نے اس آئینی عمل کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر اسے ٹالنا چاہا اور پھر اچانک امریکی مداخلت اور دھمکیوں کا نعرہ لگا کر امر بالمعروف کے نام سے جلسہ کیا اور بالآخر تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کو غیر ملکی سازش قرار دینے کے بعد ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے اسے مسترد کر دیا۔

اس تمام عمل کے دوران اسپیکر اسد قیصر غائب رہے۔ اس پر بھی کبھی بات کریں گے اس میں حکومت نے ملک کو ایک آئینی بحران سے دو چار کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے وزراء اور کارکنان اس بات پر تو خوش ہیں کہ ان کے کپتان نے اپوزیشن کو سرپرائز دیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ سرپرائز سیاسی اور قانونی طور پر کئی سالوں تک ان کا پیچھا کرے گا۔

وکٹیں توڑنے، پچ خراب کرنے سے کبھی کسی ٹیم نے نام نہیں کمایا۔ نام اگر کسی ٹیم نے کمایا ہے تو وہ ہے بہادری کے ساتھ کھیلنے سے۔ جس صورتحال سے آج کل عمران خان گذر رہے ہیں وہ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف سے کافی مختلف ہے۔

عمران خان کے خلاف اسمبلی کے اندر سے عدم اعتماد کی تحریک آئی ان کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ پارٹی کے اندر خراب معاشی صورتحال‘ کرپشن اور ممبران اسمبلی کو نظرانداز کیے جانے پر بغاوت سامنے آئی۔ علیم اور ترین گروپ ساتھ چھوڑ گئے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بجلی، گیس لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام عاجز آ چکے ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری تھی۔ ملاکنڈ ڈویژن کے لاکھوں لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑا۔ ایک مضبوط فوجی آپریشن کے نتیجے میں طالبان سے ملاکنڈ آزاد کروایا گیا۔ معاشی صورتحال خراب تھی تاہم حکومت کی جانب سے تنخواہوں میں مسلسل اضافے نے غریب کو غریب تر ہونے سے بچایا۔ لیکن صدر زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے کی پاداش میں سپریم کورٹ نے انھیں ایک معمولی سی سزا سنائی اور وہ نااہل ہو گئے مجال ہے کہ گیلانی نے چوں چراں کی ہو۔

انھوں نے عدالت کا فیصلہ تسلیم کیا اور حکومت سے الگ ہو گئے نیا وزیراعظم منتخب ہوا ۔اسی طرح نواز شریف کے دور میں بھی حالات بہتر تھے۔ پٹرول کی قیمت 60 روپے تک آ گئی تھی۔ بجلی کے بلوں میں عوام کو پہلی بار وصول شدہ پیسوں کی واپسی شروع ہوئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اہم کامیابیاں ہیں۔

ہم نے اپنے سابقہ فاٹا کو دہشت گردی سے پاک کرکے اس کی آئینی حیثیت بھی بدل دی اور اس کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا۔ لیکن پھر پاناما سکینڈل آیا۔ عمران خان نے اس پر شور مچایا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا وزیراعظم اپنی بیٹی سمیت پیش ہوتے رہے۔ پھر صادق اور امین نہ ٹھہرے اور عمر بھر کے لیے نااہل بھی ہوئے اور جیل بھی گئے لیکن عدالتی فیصلہ آنے کے بعد انھوں نے ایک ہی لمحے میں وزارت عظمیٰ چھوڑ دی اس کے برعکس عمران خان نے بہادری سے لڑنے کے بجائے ایک سیدھی سادھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش سے تعبیر کیا۔

پھر خود اپنی ہی حکومت میں جلسے کیے اور آخر کار ملک کو ایک اور آئینی بحران میں دھکیل دیا۔ اگرچہ ان کے کارکن خوش ہوں گے کہ عمران خان نے میچ کو تھوڑا طول دے دیا لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک سیکیورٹی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں منعقدہ سیکیورٹی کانفرنس میں اہم ممالک کے سفیروں نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس کے پہلے روز وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کرپشن پر بات کی اور خصوصاً سرمایہ دار ملکوں پر الزام لگایا کہ وہ اپنے ملک میں کرپشن کا پیسہ لے کر آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

وزیراعظم اپنی اس تقریر میں کشمیر کا ذکر کرنا بھول گئے۔ اپنے سیاسی مستقبل کو سوچتے سوچتے وہ یہ بھی بھول گئے کہ ابھی پچھلے دنوں بھارت کا ایک سپرسانک میزائل پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ اس سے پہلے بھارت ڈرون کے ذریعے بھی ہماری فضائی حدود کو چیک کر چکا ہے۔

وزیراعظم جو اہم نکات کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران اٹھانا بھول گئے تھے وہ آرمی چیف نے ایک لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر کافی بہتر انداز میں اٹھائے۔ جنرل باجوہ نے کشمیرمسئلہ بھی اٹھایا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا ذکر بھی کیا۔ بھارتی سپرسانک میزائل کے واقعے کو بھی اہم ممالک کے سامنے پیش کیا اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

جنرل باجوہ نے عالمی دنیا کے سامنے سوال بھی اٹھایا کہ یہ کیسا ذمے دار ایٹمی ملک ہے جس کے میزائل اپنے اختیار میں نہیں۔ بھارت نے میزائل حملے کو غلطی قرار دیا تھا اسی لیے جنرل باجوہ نے عالمی برادری کے سامنے بھارتی ایٹمی ہتھیاروں کے محفوظ رکھنے پر سوال اٹھایا۔ جس کا یقیناً عالمی سطح پر نوٹس لیا جائے گا۔

اسی کانفرنس کے دوران آرمی چیف نے پاک امریکا تعلقات پر بھی بات کی اور کہا کہ پاکستان امریکا سے گہرے تعلقات کا خواہش مند ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ امریکا پاکستانی مصنوعات کے فروخت کے لیے ایک بڑی منڈی بھی ہے۔ یہی نہیں بلکہ جنرل باجوہ نے یوکرین میں روسی جارحیت کی بھی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس جنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں پر بھی غم کا اظہار کیا۔

آرمی چیف کا خطاب حکومتی پالیسی کے بالکل برعکس تھا۔ عمران خان نے پہلے دورہ روس کو اپنے خلاف امریکی سازش کے لیے بنیاد ٹھہرایا۔ حالانکہ پاکستان کا دوست ملک برطانیہ اور یورپی یونین جس نے پاکستانی مصنوعات کو اپنی منڈیوں تک رسائی کے لیے رعایت دے رکھی ہے نے بھی حکومت سے کچھ ایسا ہی مطالبہ کیا تھا لیکن حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ آحر جا کر یوکرین صدر سے وزیراعظم کی بات ہوئی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

ان سطور کے لکھنے تک صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی توڑ دی اور سپریم کورٹ نے صورت حال کا نوٹس لے لیا ہے۔ اپوزیشن نے ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع کرنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ مسترد کر دی ہے۔

دوسری جانب جب پاک فوج کے ترجمان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا آج کی کارروائی میں آپ بھی شامل ہیں تو انھوں نے کہا کہ Absolutely Not۔ اسی دوران گورنر پنجاب چوہدری سرور جنھیں علی الصبح چوہدری پرویز الٰہی کی شکایت پر وزیراعظم عمران خان نے برطرف کر دیا تھا اپنی پریس کانفرنس میں عثمان بزدار کو عمران خان کے خلاف بڑی سازش قرار دے رہے تھے۔

انھوں نے وزیراعظم کے ساتھ اسمبلی اجلاس بلانے کے حوالے سے بات چیت بھی افشا کی اور الزام لگایا کہ انھیں پنجاب اسمبلی کا اجلاس پرویز الٰہی کی ہار سامنے نظر آنے کے بعد ملتوی نہ کرنے پر برطرف کیا گیا، ساتھ ہی انھوں نے کرپشن کے الزامات بھی لگائے۔ غرض ملک کو اس وقت معاشی اور سیاسی کے ساتھ ساتھ ایک آئینی بحران کا بھی سامنا ہے۔ اسی لیے ذمے دار قوتوں کو مل بیٹھ کر اس آئینی بحران کا حل نکالنا چاہیے کیونکہ معاشی صورتحال اور خطے کے یہ بدلتے حالات استحکام کے متقاضی ہیں۔ جب ملکی معاملات کرکٹ میچ کی طرح چلائے جائیں گے اور توجہ وکٹیں اڑانے پر ہو گی تو ایسا ہی ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔