بنانا اسٹیٹ

سعد اللہ جان برق  منگل 5 اپريل 2022
barq@email.com

[email protected]

اس سے پہلے کہ آپ ہمارے لیے کوئی لکڑی پتھرڈھونڈنے کی تکلیف کریں یہ وضاحت کیے دیتے ہیں کہ ’’بنانااسٹیٹ‘‘ سے ہمارامطلب وہ بنانااسٹیٹ نہیں جوآپ سمجھ رہے ہیں بلکہ وہ ہے جوآپ نہیں سمجھ رہے ہیں،یہ ’’بنانا‘‘ انگریزی کا نہیں اردوبناناہے جو ہمارے ہاں پچھترسال سے جاری تھا، جاری ہے اور جاری رہے گا،خاص طورپر گزشتہ سال سے تواس انڈسٹری نے اتنی ترقی کی ہے کہ ملک میں ایساکوئی نہیں ہے جو ’’بنا‘‘نہیں رہا ہوں یا بن نہیں رہاہو۔

ہرطرف بنانا ہی بنانا ہے اورجب بنانا ہی بنانا ہے کہ بننا بھی اسی رفتار سے جاری ہو۔کسی ٹی وی چینل پر ایک آئیورویدک ڈاکٹرکا پروگرام تھا اسے کسی نے کال کرکے پوچھاکہ بازار میں جو اشتہاری آئیوویدک دوائیں چل رہی ہیں،وزن بڑھانے، وزن گھٹانے، قد بڑھانے گھٹانے وغیرہ کے ،یہ کیسی ہیں، ڈاکٹر نے کہا میں ،میں صرف اتنا کہوں گا کہ وہ ’’بنا‘‘رہے ہیں اورآپ بن رہے ہیں۔

دراصل یہ بننے بنانے کاکام بھی دوطرفہ ہوتاہے یعنی وہ جوکہتے ہیں کہ ’’عشق اول درد دل معشوق پیدا می شود‘‘یا جھوٹ بولنے والے نہیں بولتے بلکہ سننے والے ان سے بلواتے ہیں ۔اسی طرح ’’بنانے والے‘‘بھی اسی کوبناتے ہیں جو بننے کے لیے ’’بنا‘‘ہو۔یونہی ہرکوئی ہرکسی کوپکڑ کرنہیں بناسکتاہے بلکہ بنانے والے میں بننے کی پوری پوری نشانیاں دیکھ کر ہی بنانے والابناتا ہے۔

اس کامعاملہ بھی ہپناٹزم جیسا ہے، کہتے ہیں کہ جب تک کوئی خودہپناٹائزہونے کے لیے تیارنہ ہو، بڑے سے بڑا ماہر بھی اسے ہپناٹائزنہیں کرسکتا۔ وہ کسی سفرمیں دوآدمیوںکی ملاقات ہوئی ایک کے پاس انتہائی شاندارقیمتی گھوڑا تھا اوردوسرے کے پاس ایک انجر پنجر میریل ساگدھا۔گپ شپ میں گدھے والے نے گھوڑے والے سے کہا، سواری بدلنے کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے ؟دوسرے نے کہا ،تم اپناگدھا دیکھواورمیراگھوڑا۔کیامیں تمہیں احمق لگتاہوں۔

گدھے والے نے کہا ۔میں نے سوچا شاید آپ ہوں ،اس لیے کوشش کرلینے میں کیاحرج ہے ؟آپ سنتے ہوں گے کہ فلاں فلاں شخص نے اتنے کروڑمیں ووٹ بیچا یا خریدا۔یہ ہوتے ہیں بنانے والے اوروہ جو گلیوں میںگلے پھلاپھلا کرچیختے چلاتے ہیں،اچھل کود کر نعرے لگاتے ہیں دھرنوں میں دھرتے ہیں، وہ ہوتے ہیں بننے والے ۔بلکہ بنے بنائے بننے والے۔ انھیں لوگوں کوعلامہ نے سمجھایا بھی تھاکہ ۔

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

لیکن وہ نہ اپنا بنتے ہیں نہ کسی اورکے ۔صرف بنانے والوں کے بنتے ہیں،بنانے کے سلسلے میں یہ ایک انگریزی’’میڈ‘‘بھی ہے ،انگریزوں کی طرح دھوکا باز ہے،ایک طرف ’’میڈ‘‘ کامطلب ہے پاگل۔دوسری طرف بنانا۔شکل وصورت میں تھوڑا سافرق اگر ہے تو کیاہوا۔میڈتومیڈ ہے۔اگر کوئی کہے کہ ’’میڈ ان پاکستان‘‘ توہم جیسے لوگ جو انگریزی کی زیادہ باریکیوں سے واقف نہیں ہوتے یہی سمجھیں گے کہ ’’میڈ ان پاکستان‘‘

انگریزوں اورانگریزی کے اس دوغلے پن کے بعد بھی ثبوت ہیں ہمارے پاس مثلاً ’’لائر‘‘ اب ہم اگر کسی کودیکھ کر ’’لائر‘‘ کہیں تو ساتھ میں یہ تو نہیں کہتے کہ ہمارا مطلب وہ لائرنہیں بلکہ وہ لائر ہے۔یا ساتھ میں ہجے کرکے تونہیں بول سکتے اس لیے لائرکو لائرہی کہیں گے۔اسی طرح ’’میڈ‘‘کالفظ ہے حاشیہ یاہجے تو ہم تحریرمیںکرسکتے ہیں تقریرمیں کیسے کریں گے اورپھر آج کل تو یہ پرابلم بہت بڑھ گئی ہے، انگلش میڈیم اور اردو میڈیم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں بلکہ گتھم گتھاہو رہے ہیں۔

ایسے میں ہم جیسے عامی امی لوگ کیاکریں ’’میڈ‘‘ ہی سمجھ لیتے ہیں۔اب یہ ’’بنانا‘‘ کامعاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ اپنے ہاں انگریزی ’’بنانا‘‘ بھی بہت ہوتاہے اوراردوبھی قومی یاسرکاری زبان ہے اس لیے ’’میڈ‘‘ کوہم’’میڈ‘‘ہی سمجھیں گے اور’’بنانا‘‘ کوبنانا۔

اس بنانے سے بہزاد لکھنوی بھی ’’بھنا‘‘کر بھن بھنا گئے ہیں کہ

دیوانہ بناناہے تو دیوانہ بنا دے

ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنا دے

اوروہ ہم ’’بن چکے‘‘ہیں بلکہ بن رہے ہیں اور بنائے جائیں گے اورکیوں نہ بنیںکہ’’بنانے‘‘ والے جانتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے ہی سے ’’بنے‘‘ہوئے ہیں توکیوں نہ ہم بھی انھیں بنائیں،پڑوس والے اس بننے بنانے کے ساتھ ایک اورلفظ بھی کہتے ہیں ’’مورکھ‘‘

لیکن ہم اس کااردو میں ترجمہ نہیں کریں گے کیوں کہ ہرطرف مورکھ ہی مورکھ ہیں تومورکھ کاترجمہ کوئی کیسے کر سکتاہے۔

رہا اسٹیٹ اوراسٹیٹ میں رہنے والے ’’انسان نمبردو‘‘ یعنی عوام کالانعام کامعاملہ؟تو جب وہ ’’خود‘‘بننے کو تیاربیٹھے ہیں بلکہ خود’’بنانے والوں‘‘ کے پاس جاجا کر ’’بنواتے ‘‘ہیں توہم ’’کون‘‘ ہوتے ہیں ان پر انگلی اٹھانے والے۔جب میاں بیوی راضی ہو تو بیچارا قاضی کیاکرے۔وہ ’’بننے‘‘ کے لیے بے چین رہتے ہیں تو کوئی کیوں نہ ’’بنائے‘‘ ویسے موجودہ ’’بنانے والوں‘‘کو داد نہ دینا بے انصافی ہوگی کیوں کہ اس نے ’’بنانا‘‘ہے، اتنا پچھلے سترسال میں یہ بنے میاں نہیں بنے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔