غیر آئینی طریقہ سے آئینی کام بھی غلط ہی ہوتا ہے

مزمل سہروردی  منگل 5 اپريل 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل کے تحت ایک رولنگ دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا ہے۔ اس کے فوراً بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیج دی۔

صدر مملکت بھی تیار ہی بیٹھے تھے‘ انھوں نے جھٹ پٹ قومی اسمبلی تحلیل کر دی اور اگلے ہی لمحے عمران خان کو نئے نگران وزیر اعظم کے تقرر تک کام جاری رکھنے کے احکامات تھما دیے ہیں۔یہ سب کام صرف ایک گھنٹہ کے اندر مکمل ہوا۔

قومی اسمبلی میں تو کارروائی صرف پانچ منٹ جاری رہی‘ اس کے بعد وزیر اعظم نے قوم سے پانچ منٹ خطاب کیا۔ جس کے بعد ضابطے کی تمام کارروائی ایک گھنٹہ میں مکمل کر لی گئی۔ حکومت کی جانب سے یہ ایک فول پروف پلان تھا۔ اس پلان کے تحت عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تو روک دی۔ تا ہم اس کے عوض تاوان میں انھیں اپنی حکومت قربان کرنی پڑی۔ کیونکہ انھیں اندازہ تھا کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ اپنی حکومت جاری نہیں رکھ سکتے۔

سپریم کورٹ نے اتوار اور چھٹی کا دن ہونے کے باوجود اس ساری کارروائی پر نہ صرف نوٹس لیا بلکہ ابتدائی سماعت بھی کی۔ فاضل ججز بھی چھٹی والے دن سپریم کورٹ پہنچے، بنچ کا بھی قیام ہوا اور سماعت بھی ہوئی۔ اس لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ حکومت کے اقدامات نے ریاست پاکستان کے ستون ہلا کر رکھ دیے ہیں۔ شایداس کو اس طرح برداشت نہ کیا جا سکے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں سپریم کورٹ پہنچے ہیں۔

اتوار کے دن سپریم کورٹ کا کام کرنا اپوزیشن کے لیے حوصلہ کا باعث ہے ‘ شاید حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ حکومت کا خیال ہوگا کہ پٹیشن جائے گی پھر سماعت ہوگی لیکن شاید از خود نوٹس اور اتوار کی سماعت کا انھیں اندازہ نہیں تھا۔

سپریم کورٹ کو یہ دیکھنا ہے کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت مسترد کرنے کی جو رولنگ دی ہے‘ کیا وہ آئین وقانون کے مطابق ہے۔ عمران خان کی ٹیم کا دفاع نظر آرہا ہے کہ عدالتیں بارہا یہ قرار دے چکی ہیں کہ آرٹیکل 69کے تحت اسپیکر کی رولنگ اور پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی جا سکتی‘ اس لیے عدالت اسپیکر کی رولنگ پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ عدالتیں کئی بار متعدد مقدمات میں یہ قرار دے چکی ہیں کہ پارلیمان کی کارروائی اور اسپیکر کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

یہ پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے اسے پارلیمان کے اندر ہی طے کرنے کی ضرورت ہے‘ عدالتوں کو اس میں ملوث نہ کیا جائے۔ عمران خان کی لیگل ٹیم بار بار حال ہی میں سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے کیس میں دیے گئے مقدمہ میں فیصلہ کا حوالہ دے رہی ہے۔ جس میں عدالت نے ووٹ مسترد کرنے کی کارروائی میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر اسپیکر کی رولنگ عدالت سے ختم ہو گئی تو نہ صرف قومی اسمبلی بحال ہو جائے گی بلکہ عدم اعتماد پر ووٹنگ بھی ہوگی۔

دوسری طرف اپوزیشن کا موقف ہے کہ عدالت نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ ویسے تو یہ قسم اسپیکر نے بھی کھائی ہوتی ہے۔ لیکن ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کی ذمے داری سپریم کورٹ پر زیادہ ہے۔جہاں تک اسپیکر کی رولنگ کا تعلق ہے تو جہاں عدالتوں کے یہ فیصلے موجود ہیں کہ پارلیمان کی کارروائی اور اسپیکر کی رولنگ میں مداخلت نہیں کی جائے گی‘ وہاں فہمیدہ مرزا کیس میں یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ اگر اسپیکر کی رولنگ آئین کے منافی ہو تو عدالتیں اس رولنگ کو ختم کر سکتی ہیں۔

اس لیے اگر رولنگ آئین کے منافی نہیں‘ اس میں ضابطے اور اسمبلی رولز کا تعلق ہے تو عدالتیں مداخلت نہیں کرتی ہیں۔ لیکن جہاں آئین کے منافی سمجھی جائے وہاں مداخلت کرتی بھی ہیں۔ اس لیے عمران خان کی لیگل ٹیم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ رولنگ آئین کے منافی نہیں ہے۔ صرف آرٹیکل 69کا سہارا کافی نہیں ہے۔ اس صورتحال میں مجھے عمران خان کی ٹیم کا کیس کمزور دکھائی دے رہا ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جب ضیا ء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر کے اسمبلی تحلیل کر دی تھی تو سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ بے شک ضیا ء الحق کا اسمبلی توڑنے اور جونیجو کو برطرف کرنے کا اقدام غیر آئینی ہے۔ لیکن چونکہ اب ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اس لیے اب دوبارہ اسمبلیاں اور جونیجوحکومت کو بحال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ویسے تو اس فیصلہ کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ لیکن پھر بھی عمران خان کو ضیاء الحق جیسی طاقت میسر نہیں۔ اس لیے شاید انھیں آئین سے کھیلنے کی اس طرح اجازت نہ دی جائے جو ماضی میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو حاصل رہی ہے۔ پھر اس کے بعد ہم نے نواز شریف کی حکومت عدالت سے بحال ہوتے بھی دیکھی ہے۔ چاہے وہ قائم رہ سکی یا نہ رہ سکی۔ لیکن عدالت نے آئین کی سربلندی قائم رکھتے ہوئے بحال کر دی تھی۔

اس لیے جہاں تک میری مختلف ماہرین قانون سے بات ہوئی ہے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اسپیکر کی رولنگ موجودہ شکل میں عدالت میں کھڑی نہیں رہ سکے گی۔ آئین کی سربلندی کی خاطر عدم اعتماد پر ووٹنگ تو کروانی ہوگی ورنہ آئین میں درج وزیر اعظم کو ہٹانے کا آئینی و قانونی راستہ ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب بھی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد آئے گی اسپیکر اس کو مسترد کر دے گا اور ووٹنگ نہیں کروائے گا۔ اس طرح تو آئین کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔ وزیر اعظم بھی مطلق العنان حکمران بن جائے گا جس کو نکالنے کا کوئی آئینی طریقہ موجود نہیں ہوگا۔

جہان تک عمران خان کے اس بیانیہ کا تعلق ہے کہ عدم اعتماد بیرونی سازش ہے تو ابھی تک کسی عدالت نے اس کو بیرونی سازش قرار نہیں دیا۔ یہ صرف عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا موقف ہے۔ وہ اس مقدمہ کو قانون کی کسی عدالت میں نہیں لے کر گئے۔ اس مقدمہ کے وہ خودی مدعی اور خودی منصف بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے خود ہی الزام لگایا ہے اور خودی ہی سزا دے دی ہے۔

اگر ان کا موقف سچاہے تو انھیں کسی عدالت میں مقدمہ دائر کرنا چاہیے تھا۔ کوئی کمیشن بنانا چاہیے تھا۔ کوئی ریفرنس بھیجنا چاہیے تھا۔ صرف ان کے اپنے موقف پر یہ کیسے مانا جا سکتا ہے۔ چاہے درست بھی ہو۔ اس لیے بیرونی سازش کے جب تک شواہد کسی عدالت میں نہیں آئیں گے۔ رولنگ کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ اس تناظر میں بھی یہ رولنگ کمزور لگتی ہے۔

آپ اگر غیر آئینی طریقہ سے کوئی آئینی کام بھی کریں تو وہ آئینی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ آئینی کام آئینی طریقہ سے کرنے سے ہی وہ آئینی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر کسی کام کی آئین میں گنجائش بھی ہے تو اس کو غیر آئینی انداز میں کرنے سے اس کو آئینی تحفظ نہیں مل سکتا۔ اسی طرح وزیر اعظم کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تب یہ وہ اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔

اس لیے یہ دلیل کہ وزیر اعظم اسمبلیاں توڑ سکتا ہے کافی نہیں کیونکہ اگر عدم اعتماد پر اسپیکر رولنگ غیر آئینی قرار پا جائے گی تو وزیر اعظم کا اسمبلیاں توڑنے کا عمل بھی غیر آئینی ہو جائے گا۔ دوستوں کی رائے کہ عمران خان نے بہت بہادری دکھائی ہے۔ انھوں نے ایک گیند پر 172وکٹیں لے لی ہیں۔ انھوں نے کیا سرپرائز دیا ہے۔

واہ کمال کیا بات ہے۔ لیکن یہ سب جذبات عارضی ہیں۔ اس منظر نامہ کے بارے میں سوچیں اگر سپریم کورٹ نے سارے عمل کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ تو پھر عمران خان اور ان کی ٹیم کہاں کھڑی ہوگی۔ شاید پرویز مشرف پر تو آئین سے انحراف کا مقدمہ نہیں چل سکا تھا۔ کیونکہ ان کی طاقت کا مرکز بہت مضبوط تھا۔ لیکن اگر عمران خان اور ان کی ٹیم کے خلاف آئین سے انحراف کا مقدمہ چلتا ہے تو کیا ان کے پاس اس مقدمہ سے بچنے کے لیے وہ طاقت ہے۔ ابھی جیت کے گیت بج رہے ہیں۔

لوگ و اہ واہ کر رہے ہیں۔کیونکہ سب جیت کے ساتھی ہوتے ہیں۔ کل اگر منظر نامہ بدل گیا اور مشکل آگئی تو یہی سب کہیں گے میں نے تو سمجھایا تھا، لیکن خان سمجھتے ہی نہیں تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔