کم ظرفی کی انتہا

سالار سلیمان  منگل 5 اپريل 2022
عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرکے خود ہی بیرونی سازش کی معاونت کی ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرکے خود ہی بیرونی سازش کی معاونت کی ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان جاتے جاتے بھی یوٹرن لے گئے۔ بجائے اس کے کہ وزیراعظم شان سے رخصت ہونے کو ترجیح دیتے، انہوں نے کم ظرفی کی انتہا کردی۔

کچھ لوگوں کو وزیراعظم سے ایسی ہی امید تھی، لیکن کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ شاید عمران خان اس حد تک نیچے نہیں گریں گے۔ جو کچھ ہوا ہے، یہ پہلے سے طے شدہ لگ رہا تھا۔

اسپیکر کے بجائے ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی شروع کی۔ مائیک اس شخص کے حوالے کیا گیا جسے چند گھنٹے کےلیے وفاقی وزیر برائے قانون بھی بنایا گیا تھا۔ ان موصوف نے اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی قوتوں کے خدشے کا اظہار کیا۔ اس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد مسترد کردی۔ اس کے بعد فوری طور پر وزیراعظم نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری صدر کو بھجوا دی اور صدر صاحب نے فوری طور پر اس کو منظور کرکے اسمبلیاں تحلیل کردیں۔

یہ سب کچھ پہلے سے پلان تھا بلکہ شاید ہفتوں پہلے سے اس آپشن کو ساتھ رکھا گیا تھا کہ اگر اسمبلی میں نمبر گیم ہار گئے تو ایسے کرنا ہے۔ اگر یہ پہلے سے پلان ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ بیرونی ہاتھ کا محض کارڈ کھیلا جارہا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ ایکٹیو ہوئی ہے اور اب وہ کیا فیصلہ کرتی ہے، یہ وقت بتائے گا۔

جب کچھ صحافی تجزیہ کار اس حوالےسے بات کر رہے تھے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کی جانب جا سکتے ہیں تو کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ خاکسار نے بھی 26 مارچ کو اسی پورٹل پر لکھے گئے بلاگ کے آخر میں یہی لکھا تھا۔ تاہم اس وقت کہا یہ جارہا تھا کہ قانونی و آئینی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ لیکن ایک شخص جو سیلف سینٹرڈ ہے، جو آئین و قانون کو کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ دیکھ لیجئے اس نے کیسے سب کچھ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن کو پہلے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد لانی چاہیے تھی، اس کے بعد وہ وزیراعظم کو نکال سکتے تھے۔ خیر، اب گیند سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

اپوزیشن کے موقف پر بعد میں آئیں گے لیکن پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ مختصراً کہانی کیا ہے؟ بقول حکومت عدم اعتماد کا کھیل امریکا کے کہنے پر کھیلا جارہا ہے اور یہاں ہمارا کپتان ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ہے، یعنی وہ کپتان جس نے آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ کر اس کی ساری شرائط مان لیں، جس نے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کو بٹہ لگادیا، جس نے ٹرمپ کے سامنے کشمیر کا مقدمہ ہار دیا، جو یورپی یونین کے خوف سے ناموس رسالتؐ کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کرسکا، وہ کہہ رہا ہے کہ وہ امریکا کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔ امریکا سے اس کی محبت کا عالم یہ ہے کہ اس کے مشیران و کابینہ میں امریکی شہریت والے موجود ہیں۔ خود اکبر ایس بابر کیا کہتے ہیں، وہ بھی سننے والا ہے۔ اور عمران خان کہہ رہا ہے کہ میں امریکا کے خلاف کھڑا ہوں۔ مبینہ طور پر ستاروں، موثر سوشل میڈیا شخصیات میں کروڑوں روپے تقسیم کرکے پرسیپشن مینجمنٹ کروانے والی پارٹی کہتی ہے کہ وہ امریکا کے خلاف کھڑی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جو پیسے لے کر عمران خان کےلیے اپنی رائے اپنے سوشل میڈیا پر دیتے ہیں، وہ نجی محافل میں کیمرے کے پیچھے ان کی شان میں کئی القابات کا اضافہ بھی کرتے ہیں۔

اگر اس سب کے پیچھے امریکا ہی ہے تو عمران خان نے عدم اعتماد اسمبلی میں آنے کیوں دی؟ اس کو منظور کیوں ہونے دیا؟ چلیے، باقی سب تو چھوڑیئے، یہ بتائیے کہ اتنی بڑی سازش کے بعد ابھی تک امریکی سفیر پاکستان میں کیا کررہا ہے؟ ہمت کیجئے اور اس کو دیس نکالا دے کر دیکھیے۔ اب وزیراعظم نے اسمبلی توڑ کر اپنی حکومت کا خاتمہ کیا ہے، یعنی بیرونی سازش کو تقویت دی ہے؟ مجھے کوئی یہ سمجھائے کہ تحریک انصاف کس بات کا جشن منا رہی ہے؟ اپنی حکومت مکمل نہ ہوسکنے کا جشن؟ بیرونی سازش کے کامیاب ہونے کا جشن؟ یعنی ایک شخص کو پھانسی کی سزا ہوئی اور اس نے پھانسی سے پہلے ہی خودکشی کرلی، اس پر اس کی برادری خوش ہوگئی کہ چلو پھانسی تو نہیں ہوئی۔ ایسے دیتے ہیں سرپرائز؟ مطلب دعویٰ یہ تھا کہ میں آخری گیند تک کھیلوں گا اور جب معلوم ہوا کہ آخری اوور میں اسکور پورا ہونا ناممکن ہے تو اپنا بلا اور وکٹیں لے کر بھاگ گئے اور جاتے جاتے پچ بھی اکھاڑ دی۔ یہ ظرف ہے؟

اب اپوزیشن کا موقف دیکھتے ہیں۔ اپوزیشن کا موقف یہ ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش کی جائے اور اسپیکر اس کو منظور کرتے ہوئے اس پر کاؤنٹنگ کروانے کا فیصلہ کرلے تو پھر اس کو ایسی رولنگ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وزیراعظم مستعفی نہ ہو تو اس پر وزیراعظم کو کاؤنٹنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب ڈپٹی اسپیکر کیسے اس کو مسترد کرسکتا ہے؟ اگر یہ بیرونی سازش بھی ہے تو اس کو ثابت کون کرے گا؟ محض الزام تراشی کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگ جائیں تو کیا ہی بات ہے؟

اگر وزیراعظم کی بات کو درست تسلیم کرلیں تو پھر اس حساب سے صرف پی ٹی آئی اور ق لیگ محب وطن ہے، باقی ساری اپوزیشن اور اُن کے حمایتی عوام بھی غدار ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس گھناؤنے الزام پر وزیراعظم کیا جواب دیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ فواد چوہدری سچ بول رہے ہیں؟ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ وزیراعظم سچ بول رہے تھے کہ اُن کی حکومت کو ختم کرنے کےلیے بیرونی سازش کی گئی ہے تو پھر انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرکے خود ہی بیرونی سازش کی معاونت کردی ہے۔

اب آپ لمحہ موجود کی سنگینی کو دیکھیے کہ پاکستان ایک ایٹمی ریاست اور چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور اس کی کوئی کابینہ نہیں ہے۔ اس کے صدر اور وزیراعظم کوئی بھی آزاد فیصلہ نہیں کرسکتے، بلکہ تاوقتیکہ وہ اپنے فیصلے سپریم کورٹ کے ذریعے دینے کے پابند ہیں۔ بقول شخصے وزیراعظم صرف پیزا، شوارما اپنی مرضی سے آرڈر کرسکتے ہیں، باقی سب کچھ مشروط ہے۔

یہاں ہم فرض کرلیتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس فیصلے کو درست مان لیتی ہے، تو اس کے بعد نگران سیٹ اپ کےلیے حکومت کو اپوزیشن کی مرضی بھی چاہیے اور وہاں شہباز شریف ہیں، جن کے ساتھ عمران خان نے خوامخواہ کی دشمنی پالی ہوئی ہے۔ لہٰذا بادی النظر میں اتفاق رائے ناممکن ہے اور ایسی صورت میں سارا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔ اس حوالے سے کیا پلاننگ ہے؟ زیرو۔ یہاں تک کوئی بھی باشعور شخص سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان نے کس قدر گہرا آئینی بحران پیدا کردیا ہے۔

کچھ سینئر تجزیہ کاروں کے مطابق سپریم کورٹ میں کیس کو بس ختم کرنا چاہیے، کیونکہ یہ جتنا طویل ہوگا، اتنا ہی الجھتا جائے گا۔ کچھ کے مطابق ایسی حرکتوں پر مکمل بند باندھنے کی ضرورت ہے تاکہ دوبارہ کوئی آئین کی خلاف ورزی نہ کرسکے۔ اب گیند سپریم کورٹ کے پاس ہے اور اگر وہ بھی کچھ نہیں کرتی تو پھر عدم اعتماد کا سارا عمل ناقص ہوجائے گا اور مستقبل میں جیسے ہی کسی حکومت کو یہ احساس ہوگا کہ وہ نمبرز گیم میں ہار سکتی ہے وہ اپنے اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر سے محض ایک رولنگ کروا کر عدم اعتماد کو ختم کروا سکتی ہے۔ موجودہ بحران میں اپنا دامن صاف کرنے کا موقع ہے، ان کو مزید گہرا نہیں ہونا چاہیے، لوگوں کا سسٹم پر اعتماد رہنا چاہیے۔ یہ سسٹم بہتر ہونا چاہیے چہ جائیکہ اس کو مزید خراب کیا جائے۔

کابینہ ڈویژن نے حکومت کے خاتمے پر وزیراعظم کی وزارت عظمیٰ کو فی الفور ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے انہیں عہدے سے سبکدوش کیا تو دوسری جانب صدر مملکت نے عمران خان کو نگران وزیراعظم کی تقرری تک کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔ صدر سپریم کورٹ کے ابتدائی فیصلے کے نتیجے میں ایسا نہیں کرسکتے تھے، اس کےلیے سپریم کورٹ کا آن بورڈ ہونا ضروری تھا۔ لہٰذا انہوں نے اس طرح سے بظاہر توہین عدالت کی ہے۔

یہی میرا موقف ہے کہ سسٹم کو بہتر کیجیے، ایسے کاموں سے سسٹم کو کمزور نہ کیجیے۔ یہ قانون، آئین کا ایک ہی مقصد ہے کہ سب اپنی حدود و قیود میں رہ سکیں۔ طاقتور بھی اپنی حد رہے اور کمزور کے حقوق کا تحفظ بھی ہوتا رہے۔ اگر ہم آئین و قانون کو نہیں مانیں گے تو پھر ریاست کیسے چلے گی؟ بقول استاد رضی دادا صاحب ’’جو جرم یہ لمحہ موجود میں کر رہے ہوتے ہیں، بعین ہی اس کا الزام یہ دوسروں پر لگاتے ہیں‘‘۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر نجانے مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ حکومت کا امریکی سازش کا بیان حقیقت میں کچھ اور ہے۔ گیم وہ نہیں ہے جو ہمیں نظر آرہی ہے۔ یہ وہ بساط ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہی۔ جو کچھ ہورہا ہے، اس سے ملک کا نقصان ہے۔ اللہ ہمارے سیاستدانوں کو عقل دے کہ وہ اپنی ذات سے بالاتر ہو کر ملک کا سوچ سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔