- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3سال کا نیا پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
- پاکستان کی سیکنڈری ایمرجنگ مارکیٹ حیثیت 6ماہ کے لیے برقرار
کولمبیا میں دریائی گھوڑوں کو ’’حملہ آور جانور‘‘ قرار دے دیا گیا
بگوٹا: کولمبین حکومت نے دریائی گھوڑوں (ہپوپاٹومس) کو حملہ آور جانور قرار دے دیا کیونکہ ان سے مقامی مچھیروں، انسانی آبادیوں اور جانوروں کو خطرات لاحق ہیں۔
واضح رہے کہ دریائی گھوڑوں کا اصل وطن افریقہ ہے، تاہم گزشتہ چند صدیوں کے دوران انہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں واقع چڑیا گھروں میں پہنچایا جاچکا ہے۔
البتہ کولمبیا کا بدنامِ زمانہ منشیات فروش پابلو ایسکوبار آج سے تقریباً چالیس سال پہلے، صرف چار دریائی گھوڑوں کو اپنے چڑیا گھر میں رکھنے کےلیے یہاں لایا تھا جو اس نے دریائے میگڈالینا کے کنارے پر کھلی فضا میں بنایا تھا۔
یہاں آزادی سے گھومتے پھرتے دریائی گھوڑوں نے اپنی نسل بہت تیزی سے بڑھائی اور صرف چند سال میں ان کی تعداد سیکڑوں میں پہنچ گئی۔
اپنے بھاری بھرکم جسم اور خوش خوراکی کے باعث، دریائی گھوڑوں نے مقامی جانوروں کےلیے پریشانیاں کھڑی کرنا شروع کردیں جبکہ دریا کے کناروں پر رہنے والوں کو بھی ان سے خطرات لاحق رہنے لگے کیونکہ ایک طرف مچھیروں کےلیے مچھلیاں پکڑنا مشکل ہوگیا تو دوسری جانب دریا سے متصل مقامات پر کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں کو بھی نقصان ہونے لگا۔
انہی عوامی شکایتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کولمبین حکومت نے پہلے پہل تو نر دریائی گھوڑوں کو مار کر ان کی نسل آگے بڑھنے سے روکنا چاہا لیکن پھر بھی ان کی تعداد میں نمایاں کمی نہیں ہوسکی۔
اب نئے اقدامات کے تحت کولمبین حکومت نے دریائی گھوڑوں کو باضابطہ طور پر ’’حملہ آور نوع‘‘ (invasive species) میں شامل کرتے ہوئے ان کی تعداد کم کرنے اور انہیں کچھ مخصوص علاقوں تک محدود کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
البتہ، یہ کام عالمی اداروں کے تعاون سے کیا جائے گا تاکہ دریائی گھوڑوں کا بے دریغ قتلِ عام بھی نہ ہو اور ان کی آبادی بھی قابو میں رہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔