بھٹوکے نظریات اور موجودہ پیپلزپارٹی !

علی احمد ڈھلوں  بدھ 6 اپريل 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ایک بار پھر سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی برسی خاموشی سے گزر گئی۔ پیپلزپارٹی نے کوئی تقریب کا اہتمام نہیں کیا ، پچھلی دو مرتبہ کورونا کو بہانہ بنایا گیا اور اب کی بار رمضان اور سیاسی بحران کا بہانہ بنا کر کسی نے بھٹو کو یاد تک نہ کیا۔

خیر سب جانتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو 4اپریل1979 کو ایک متنازعہ قتل کیس میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، جس کی بنا پر یہ دن پاکستان کی جمہوری اور عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرارپایا۔

بھٹو صاحب، اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، کا منشور لے کر سیاست کے میدان میں آئے، انھوں نے سیاست کو محلات اور ڈرائنگ روم سے نکال کر غریبوں کے دروازوں پر لا کر کھڑا کیا، اس لیے وہ عالمی و اندرونی سازشوں کا شکار ہو کر پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔

بھٹو کی سیاست کا ایک طائرانہ جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ واقعی ایک عوامی لیڈر تھے۔ اُن کی سیاست کا آغاز تو اسکندر مرزا کے دور میں شروع ہو چکا تھا مگر ایوب خان کے مارشل لاء دور میں بھٹو کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے کے بعد آخرکار 1963 میں وزیر خارجہ بنے ،بھٹو کو عالمی سیاست، قانون، ادب اور انگلش زبان پر ملکہ حاصل تھا۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو سب سے زیادہ پڑھے لکھے سربراہِ حکومت اور سربراہِ ریاست تھے۔ تعلیم کے ساتھ قدرت نے بھٹو کو فنِ تقریر کا تحفہ عطا کر رکھا تھا، جس نے بھٹو کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے۔ 1965 کی جنگ کے بعد، 1966 میں ایوب خان نے اعلانِ تاشقند پر ہندوستانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ دستخط کیے۔ اس معاہدے کے بعد بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔

کیونکہ بھٹو چاہتے تھے کہ 1965 کی جنگ کے نتیجے میں کشمیر کا مسلئہ حل کیا جائے، مگر ایوب خان اس بات کے حامی نہ تھے۔ اور یوں اعلانِ تاشقند کے بعد بھٹوکا پہلا سیاسی دور ختم ہوا۔ اعلانِ تاشقند کے ٹھیک ایک سال بعد 1967 میں بھٹو نے پی پی پی کی لاہور میں بنیاد رکھی۔

اور یوں پی پی پی کے بطن سے ایک نئے بھٹو نے جنم لیا۔ ایک ایسا بھٹو جو آواز تھا غریب ہاری کی، کسان کی، محنت کش عوام کی، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور کی، اور ہراس شخص کی، جو زبان ہوتے ہوئے بھی بولنے سے قاصر تھا۔ پی پی پی کے قیام کے بعد بھٹو نے پاکستان کی سیاست کو اشرافیہ کے محلات سے نکال کر غریب کی جھونپڑیوں، سڑکوں اور چوراہوں میں لا کھڑا کیا۔ چند سال کے اندر اندر محض اپنی سیاسی بصیرت اور قابلیت کے بل بوتے پر عوامی حمایت حاصل کی اور 1970 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔

دسمبر 1971 میں جب حالات فوج کے بس سے باہر ہوگئے تو یحییٰ خان نے استعفیٰ دیتے ہوئے اقتدار بھٹو کے حوالے کردیا۔ یحییٰ خان نے جب اقتدار چھوڑا تو بھٹو نے پاکستان کے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کا عہد ہ سنبھالا۔ اس طرح بھٹو کے سیاسی سفر کا تیسرا اور اہم ترین دور شروع ہوا۔ ان کے ناقدین آج تک بھٹو کو بغیر وردی آمر سمجھتے ہیں۔ لیکن شاید لوگ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت کے دستور کا تقاضا ہی یہی تھا۔

بہرحال! جب بھٹو نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ 1971 کی جنگ کے بعد چالیس ہزار سے زائد پاکستانی فوجی ہندوستان کی جیلوں میں قید تھے اور پچاس ہزار مربع میل سے زائد پاکستانی رقبہ ہندوستان کے قبضہ میں تھا۔

بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1972 میں ہندوستان کا دورہ کیا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مشہورِ زمانہ شملہ کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ کے بعد بھٹو کی شہرت پاکستان میں بلندیوں کو چھو رہی تھی اور وہ عوامی اجتماعات سے بھرپور خطابات کررہے تھے۔ اس واقعے کے ایک سال بعد 1973 میں پاکستان کو پہلا وفاقی پارلیمانی دستور دیا، جو بھٹو کا ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ تھا۔

دستور کے علاوہ پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور کھل کر اس کا دفاع بھی کیا۔پھر اس کے بعد 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگاتے ہوئے بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔

بھٹو کو کابینہ سمیت نظر بند کردیا، اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ اور تین ماہ میں عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یوں بھٹو کی سیاسی زندگی کے تیسرے دور کا خاتمہ ہوا اور آغاز ہوا ایک عہد ساز شخصیت کے زوال کا۔اور پھر یوں ہوا کہ ایک احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ کھلنے کی دیر تھی، بھٹو کو پہلے لاہور ہائیکورٹ میں پھانسی ہوئی، پھر سپریم کورٹ نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا۔ اور پھر 4اپریل کو پھانسی پر چڑھ گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک نظریہ کا نام تھا، جسے پھانسی نہ مار سکی۔ اس کے برعکس موجودہ پیپلزپارٹی عوامی پارٹی نہیں بلکہ جوڑ توڑ کی پارٹی بن چکی ہے، اور سمٹ کر ایک صوبے یعنی صوبہ سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔

بھٹو پروگرام پر بات کرتا تھا، جب کہ موجودہ پی پی پی کی قیادت کے پاس کیا پروگرام ہیں؟ لہٰذا پیپلز پارٹی مرکز یا پنجاب میں اُس وقت تک نہیں آسکتی جب تک یہ عوام کے دلوں پر راج نہیں کرتی، یہ عوام کے قریب نہیں جاتی۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی عوام کے زیادہ قریب تھی،بھٹو نے جلاوطن ہونے کی نسبت موت کو گلے سے لگایا۔ یہ سوچا جائے کہ جو پیپلزپارٹی پنجاب یا پاکستان کے عوام میں مقبول تھی، اُس کی آخر وجہ کیا تھی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔