تین اپریل، تاریخ کا ایک اور سیاہ دن

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 6 اپريل 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ،وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو اپنے ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے غیر آئینی قرار دے کر صدر کو قومی اسمبلی توڑنے کی تجویز دے کر خود کو فوجی آمروں کی صف میں شامل کرلیا۔

50ء کی دہائی میں نوکر شاہی کے کل پرزے گورنر جنرل غلام محمد نے منتخب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے اور آئین ساز اسمبلی کو توڑ کر ایک سیاہ روایت ڈالی تھی۔ صدر اسکندر مرزا نے اکتوبر 1958میں اسمبلی توڑ کر اس روایت کو مزید آگے بڑھایا تھا۔

جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو ہٹا کر خود اقتدار پر قبضہ کرلیا اور اقتدار سے جاتے ہوئے نئے ڈکٹیٹر یحییٰ خان قزلباش کے سپرد کردیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977میں منتخب اسمبلی اور منتخب وزیراعظم بھٹو کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ نوکر شاہی کے ایک اور پرزے غلام اسحاق خان نے دو دفعہ اسمبلی توڑ کر اور پھر ایک جاگیردار سیاستدان فاروق لغاری نے ایک دفعہ اسمبلی توڑ کر اپنے اقتدار کو توسیع دینے کی کوشش کی تھی۔

سابق صدر پرویز مشرف نے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کیا اور اقتدار کے آخری دور میں اپنے خلاف سپریم کورٹ کے  ممکنہ فیصلہ کو روکنے کے لیے ایمرجنسی پلس نافذ کر کے اپنے اقتدار کو توسیع دینے کی کوشش کی تھی۔

ایسا کارنامہ انجام دینے والوں دو کا تعلق نوکرشاہی یعنی بیوروکریسی سے تھا ، ایک جاگیردار سیاست دان اور باقی فوجی جنرل تھے۔ مگر اس ملک کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ عمران خان منتخب نمایندہ ہیں اور انھوں نے ان غیر منتخب افراد کی پیروی کر کے منتخب افراد کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ حزب اختلاف نے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور سینئر وکلاء ڈپٹی اسپیکر کی اس رولنگ کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو ایک جلسہ میں یہ انکشاف کیا کہ امریکا کی ایماء پر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے اور ایک مبینہ خط لہرایا۔ پھر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں یہ خط پیش کیا گیا۔ اس کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن نے شرکت نہیں کی۔ کہا یہ جارہا ہے کہ پاکستانی سفارت کار نے واشنگٹن میں اپنی مدت مکمل ہونے پر ایک کیفے میں الوداعی لنچ دیا تھا جس میں امریکی وزارت خارجہ کے افسر بھی شریک ہوئے۔

اس ملاقات میں پاکستانی سفارت خانہ کے فوجی اتاشی بھی موجود تھے ، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے اس خط کے مندرجات کی مذمت کی اور کمیٹی کے اعلامیہ میں اس خط کے مندرجات کو حکومت کے خلاف سازش کے طور پر پیش کیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے الزام لگایا کہ امریکا ان کے روس کے دورہ پر ناراض ہے اور امریکا اس سازش کے پیچھے ہے مگر چیف آف اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیکیورٹی کانفرنس میں عمران خان کے مؤقف کے برخلاف بیانیہ ترتیب دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا اور یورپ سے تعلقات ضروری ہیں اور روس کا ایک چھوٹی قوم پر حملہ ایک المیہ ہے۔

گزشتہ ہفتہ کو وزارت قانون نے عدالت عظمیٰ میں ایک ریفرنس دائر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش ہے اور ان جماعتوں کے رہنماؤں نے یہ تحریک پیش کی کہ وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں، ان جماعتوں کو کالعدم قرار دیا جائے مگر سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اس عرضداشت کو اس بناء پر ناقابل سماعت قرار دیا کہ مفروضہ کی بنیاد پر کسی سازش پر ریفرنس داخل نہیں کیا جاسکتا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسٹبلشمنٹ سے مداخلت کی اپیل کی۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اسٹبلشمنٹ نے ان سے رابطہ کیا تھا اور اس بحران کو حل کے لیے چار تجاویز پیش کی تھیں مگر میں نے ان تجاویز میں سے انتخابات کرانے پر اتفاق کیا تھا مگر اسٹبلشمنٹ نے اس بات کی تردید کی تو وزیر اعظم عمران خان نے اپنا مؤقف تبدیل کیا اور ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی تردید کی کہ انھوں نے یہ بات نہیں کی مگر ان کی جماعت کے کسی رہنما سے ایسا ہوگیا ہوگا۔قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرتے ہوئے آئین اور انصاف کو پامال کیا۔

انھیں حزب اختلاف کے اراکین کو فواد چوہدری کے نکتہ کا جواب دینے کا موقع دینا چاہیے تھا ۔ تحریک انصاف کے بانی رکن بیرسٹر حامد خان کہتے ہیںکہ اسپیکر کی یہ رولنگ خلاف آئین ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن جو عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، انھوں نے بھی اس رائے کا اظہار کیا کہ اسپیکر کی یہ رولنگ آئین کے مطابق نہیں ہے۔ جب تک کوئی عدالت ملزمان کو سزا نہ دے اس وقت تک کسی بھی قسم کی سازش کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔

ایک ماہر قانون نے اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایک سابق سفارت کار کے کیبل کو جو خفیہ تحریر میں ہوتا ہے اپنی مرضی سے دوبارہ تحریر کرایا اور اس میں ملاوٹ کی۔ حکومت خود ہی پراسیکوٹر بن گئی اور حکومت نے خود ہی عدالت کا عہدہ سنبھال لیا اور یہ فیصلہ صادر کردیا کہ یہ حکومت کے خلاف سازش ہوئی ہے اور سازش کرنے والے قومی اسمبلی کے 198 اراکین غدار ہیں، اگر حکومت کے اس مؤقف کو مان لیا جائے تو مستقبل میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی تحریک پیش نہیں ہوسکے گی کیونکہ ہر حکومت اپنے خلاف عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش ہی قرار دیتی ہے۔

اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ ہربرسراقتدار حکومت نے اپنے مخالفین کو غدار قرار دیا اور ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے مگر پھر یہ رہنما باعزت رہا ہوئے۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے حکومت کے مخالف کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر، عظیم شاعر فیض احمد فیض اور فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان نے اپنے مخالف جنرل اکبر خان سمیت کئی فوجی افسروں کو سازش کے الزام میں مقدمہ قائم کیا تھا۔

یہ مقدمہ تاریخ میں راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا، مگر یہ رہنما باعزت بری ہوگئے۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور میں سارے منحرفین کے خلاف سازش کے تحت کئی مقدمات قائم کیے۔

ایک مقدمہ بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں غوث بخش بزنجو، اکبر بگٹی، عطاء اﷲ مینگل اور خیر بخش مری کے خلاف قائم کیا تھا، مگر بعد میں یہ رہنما بھی باعزت بری ہوئے۔ اسی طرح ایوب خان کی حکومت نے عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں کے خلاف اگرتلہ سازش کیس قائم کیا تھا ۔ ایوب خان نے خود ہی اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے یہ مقدمہ واپس  لیا اور شیخ مجیب الرحمن اس گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے جس میں ایوب خان بھی موجود تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاء اﷲ مینگل اور دیگر بہت سارے رہنماؤں کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا۔

اس مقدمہ میں پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپور کو بھی ملوث کیا گیا تھا مگر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آتے ہی یہ مقدمہ واپس لے لیا تھا، یوں تاریخ کے ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان نے بھی محض اقتدار میں رہنے کے لیے یہ راستہ چنا۔  عمران خان نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امریکا کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور خود کو محب وطن اور مخالفین کو غدار قرار دینے کا جو بیانیہ اختیار کیا ہے اس کے مستقبل میں انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوںگے۔

پاکستان میں تاجروں اور صنعت کاروں کی سب سے بڑی تنظیم فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے عمران خان کے بیانیہ پر اپنا سر پکڑ لیا ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی برآمدات 75 فیصد امریکا اور یورپی یونین کو جاتی ہیں، اگر عمران خان نے اپنا یہ بیانیہ جاری رکھا تو پاکستان تاریک دور میں چلا جائے گا۔  پنجاب کے سابق گورنر چوہدری سرور نے بھی یہی کہا ہے کہ حکومت کے اس بیانیہ سے اگر یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس ٹی پلس کا اسٹیٹس واپس لینے کا فیصلہ کیا تو پاکستان ایک اور تاریک دور میں چلا جائے گا۔

یہ کیسی عجیب سی بات ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے مختلف شہروں میں مظاہروں کے دوران جو بینر لہرائے ان پر تحریک انصاف یا مارشل لاء کے نعرے درج تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے پاس یا تو اپنی حکومت کرنے کا باب ہے یا اس ملک کو مارشل لاء کے اندھیروں میں دھکیلنے کا۔ اس بارے میں حتمی فیصلہ تو سپریم کورٹ کرے گی مگر پاکستان کے آئین کی تاریخ کی کتاب میں عمران خان کا یہ فیصلہ ایک سیاہ باب کے طور پر شامل ہوگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔