مسلسل بے حسی

محمد سعید آرائیں  جمعرات 7 اپريل 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

رمضان المبارک سے قبل جمعہ کے خطبے میں ایک بڑی مسجد کے پیش امام کہہ رہے تھے کہ سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ غیر مسلم ملک میں رمضان المبارک میں مسلمانوں کے زیادہ استعمال میں آنے والی اشیا نہ صرف فروخت کے لیے کھلے عام رکھ دی گئی ہیں بلکہ نرخوں میں بھی نمایاں کمی کردی گئی ہے جب کہ ہمارے مسلم ملک میں ماضی سے اس کے برعکس ہوتا آ رہا ہے کہ رمضان المبارک سے قبل بعض مخصوص اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی کرکے مال چھپا دیا جاتا ہے اور مصنوعی قلت پیدا کرکے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ سالوں سے جاری ہے جس پر کوئی حکومت قابو پاسکی ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے اس سلسلے میں کبھی سدباب کی کوشش کی ہے۔

اب تک ہر حکومت اس سلسلے میں ناکام رہی ہے اور رمضان المبارک سے قبل ہی نہ صرف نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں جو پہلے رمضان کے بعد معمول پر آجاتے تھے بلکہ اب تو رمضان میں بڑھائے گئے نرخ عید الفطر کے بعد بھی برقرار رکھے جاتے ہیں۔

ہمارے ملک ہی کا ایک قصہ ہے کہ ایک شخص اپنی فیملی سے کہتا تھا کہ عیدالفطر کے آنے کا انتظار کرلو اس کے بعد نرخ کم ہوئے تو خریداری کرلیں گے۔ یہ بات بھی ہمارے لوگوں نے ختم کرا دی اور جو نرخ رمضان اور عید پر بڑھائے جاتے ہیں وہ عید کے بعد بھی برقرار رہتے ہیں جو کم ہونے کی بجائے آیندہ کے رمضان سے قبل مزید بڑھا دیے جاتے ہیں۔

پیش امام صاحب کے بقول گرانی بڑھانے والے تاجروں کی رمضان شروع ہوتے ہی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ مساجد میں رش معمول سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے اور تاجر لوگ تراویح پورے رمضان پڑھنے کی بجائے پانچ سات یا دس روزہ پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ رمضان کا پہلا ہفتہ یا عشرہ مارکیٹیں رش سے محروم رہتی ہیں، دکانیں جلد بند کردی جاتی ہیں۔

وقت سے قبل مسجد آیا جاتا ہے تاکہ اگلی صفوں میں جگہ مل سکے اور وہ رمضان کے روزوں کے خصوصی ثواب سے محروم نہ رہ جائیں کیونکہ رمضان المبارک میں پڑھے جانے والے نفلوں کا ثواب بھی فرض نماز کے برابر ملتا ہے۔ رمضان کے پہلے ہفتے یا عشرے کے بعد مساجد میں تراویح اور نماز پڑھنے والوں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے اور رمضان المبارک کے آخر میں شب قدر اور ختم قرآن کے بعد مساجد میں نمازیوں کی تعداد مسلسل کم ہونے لگتی ہے۔

رمضان کے ابتدائی دنوں میں گاہک کم ہوتے ہیں تو پہلے عشرے کے بعد دو سو روپے کی چیز کی قیمت ایک ہزار بتا کر گاہکوں کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے اور نرخ بڑھانے میں وہ تاجر پیش پیش ہوتے ہیں جو رمضان کی ابتدا میں بڑے پکے نمازی اور روزہ دار کہلاتے ہیں اور مارکیٹوں میں رش بڑھتے ہی وہ لوگوں کو لوٹنے والے تاجروں کا روپ دھار لیتے ہیں اور دنیاوی کمائی ہی کو سب کچھ بنا لیتے ہیں۔

ملک بھر میں ضلع انتظامیہ حرکت میں آتی ہے۔ اشیائے ضرورت کے وہ سرکاری نرخ اشیا اول و دوم کے الگ الگ غیر حقیقی مقرر کیے جاتے ہیں جن پر گراں فروش عمل نہیں کرتے، سرکاری ہدایت پر نرخوں پر عمل ہوتا ہے نہ اشیائے ضرورت کے نرخوں کی فہرست نمایاں طور پر آویزاں کی جاتی ہے اور من مانے نرخوں پر پھل اور آلو بیسن و گھی سے بنی اشیا فروخت ہوتی رہتی ہیں۔ضلعی انتظامیہ رمضان کے شروع میں نرخ بڑھنے کے میڈیا کے واویلے پر جاگتی ہے تو چھاپے شروع ہوتے ہیں جس کے خوف سے سرکاری فہرستیں نمایاں کی جاتی ہیں۔

انتظامیہ جرمانے کرکے واپس جاتی ہے تو سرکاری نرخ بھی غائب ہو جاتے ہیں اور دام مزید بڑھ جاتے ہیں کیونکہ گراں فروشوں نے جرمانوں کی رقم بھی گاہکوں سے وصول کرنی ہوتی ہے۔

انتظامیہ کے جرمانوں سے سرکاری خزانہ ضرور بڑھ جاتا ہے مگر گراں فروشوں کے عذاب سے گاہک لٹتے رہتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد سرکاری افسران سرکاری رقم بطور جرمانہ بڑھ کر اور اپنی جیبیں بھر کر عید کی خریداری میں مصروف ہو جاتے ہیں اور عوام مسلسل گرانی کا شکار رہتے ہیں۔

گراں فروشی کا یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے اور رمضان المبارک میں گراں فروشی، جرمانوں، دکھاؤے کے بیانات اور سرکاری کارروائیاں تسلسل سے جاری ہیں جس سے عوام کو ریلیف کم ہی ملتا ہے اور گراں فروشی اور رمضان المبارک میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں شہریوں کے لٹنے کے سلسلے کو کوئی بھی حکومت نہیں روک سکی کیونکہ سرکاری افسروں کی اکثریت خود گراں فروش اور ذخیرہ اندوز سب اس کام میں ملوث ہیں اور سب اپنوں ہی کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔