ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 7 اپريل 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں 60ء کی دہائی سیاسی کشمکش ، مظلوم طبقات کی زبوں حالی اور جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی دہائی تھی۔ جنرل ایوب خان نے 1958میں اقتدار پر قبضہ کیا۔ ان کے پیش رو اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کیا تھا۔

ایوب خان کی حکومت نے ترقی پسند قوتوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سید حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعہ میں شہید کیا گیا ، سیاسی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دیا گیا۔ طلبہ یونین اور مزدور تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ بائیں بازو کی طلبہ کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) کے کارکنوں نے ایوب خان کے جابرانہ قوانین کو چیلنج کیا ۔ این ایس ایف کے رہنماؤں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔

1963 میں یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف جدوجہد کرنے والے بارہ رہنماؤں کو کراچی بدر کیا گیا۔ ان رہنماؤں میں علی مختار رضوی، فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، حسین نقی، نفیس صدیقی اور  آغا جعفر وغیرہ نمایاں تھے۔

ان رہنماؤں کو مختلف شہروں کی خاک چھاننی پڑی مگر یہ رہنما جن شہروں میں گئے وہاں کے نوجوانوں کو متاثر کرتے رہے۔ ملتان کے دو نوجوان کرامت علی اور شرافت علی خان ان رہنماؤں کے نظریہ سے متاثر ہوئے اور مظلوم طبقات کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا شعار بنالیا۔

کرامت علی اور شرافت علی تعلیم اور روزگار کے حصول کے لیے کراچی آگئے۔ کرامت علی این ایس ایف میں متحرک ہوا۔ ایوب خان کے خلاف 1968 میں تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ قیدوبند کی زندگی کو اپنایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی کی مزدور تحریک کو منظم کرنے والے نوجوانوں نے گروپ کا حصہ بن گئے۔

شرافت علی ستمبر 1965 میں اس وقت کراچی آئے، جب بھارت سے جنگ جاری تھی۔ شرافت علی کا کراچی آنے کا مقصد تعلیم کا حصول تھا مگر کراچی میں رہنے کے لیے ایک بڑا چیلنج اخراجات کو پورا کرنا تھا۔ کراچی میں ایسے طلبہ کے لیے ایک کشش یہ تھی کہ بعض کالجوں میں شام کی شفٹ بھی ہوتی تھی۔

ان کالجوں میں آرٹس اور کامرس کی تعلیم دی جاتی تھی اور قانون کی تعلیم دینے والے کالجوں میں سہ پہر سے کلاسیں شروع ہوتی تھیں۔ شرافت علی نے کام تلاش کرنا شروع کیا۔

ابتدائی دنوں میں تو مایوسی ہوئی مگر پھر کسی کرم فرما نے فشنگ انڈسٹری میں کام تلاش کرنے کا مشورہ دیا۔ شرافت علی کو فشنگ انڈسٹری کے ایک کارخانہ میں بینکنگ کی ملازمت مل گئی، جو لوگ فشنگ انڈسٹری سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ فش ہاربر پر مچھلیوں اور جھینگوں کی بدبو سانس لینے نہیں دیتی ۔شرافت علی ملتان کی کھلی فضاء میں زندگی گزار نے کے عادی تھے۔ ان کے لیے مچھلیاں پیک کرنے کے کارخانہ میں کام کرنا کسی بڑے عذاب سے کم نہ تھا۔

شرافت علی نے مسلسل دو سال اس کارخانہ میں کام کیا ۔ اس دوران ناظم آباد میں قائم سٹی کالج سے بی اے کی سند حاصل کی اور ایس ایم لاء کالج کے طالب علم ہوگئے۔ شرافت علی کو اس کمپنی کی ملازمت سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ انھیں احساس ہوا کہ اس کمپنی کے مزدوروں کو بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔

شرافت علی نے کمپنی میں مزدور تنظیم بنانے کے لیے کامیاب حکمت عملی اختیار کی اور ایمپلائز یونین قائم کی۔ اس مزدور یونین نے کارکنوں کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کی بناء پر ملز انتظامیہ نے مزدور یونین کے بعض مطالبات تسلیم کیے جن میں اجرتوں میں اضافہ اور دیگر مراعات دینے پر مجبور ہوئی۔ شرافت علی نے اس کمپنی کے کامیاب تجربہ سے مزدور کارکنوں کو شعور دیا۔

شرافت علی اپنے بھائی کے ساتھ کراچی آئے تھے۔ ان کے والدین اور باقی خاندان والے ملتان میں رہتے تھے۔ شرافت علی نے مزدور بستی پاک کالونی میں ایک سستا مکان تلاش کیا، یوں پورا خاندان ملتان سے کراچی کی پاک کالونی کے مکان میں منتقل ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر شرافت علی کی ذمے داری بڑھ گئی۔ وہ اپنے خاندانوں کی بہبود کی کوششوں کا حصہ بن گئے۔

شرافت علی کا سعودی عرب کی تیل کی تلاش کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی میں ایک اچھی آسامی پر تقرر ہوا۔ یہ ملازمت حالات کار کے اعتبار سے بہتر ملازمت تھی، اب آمدنی بڑھ گئی۔ شرافت علی وہاں تین سال تک ملازمت کرنے کے بعد پاکستان آگئے، انھوں نے کچھ عرصہ پولٹری انڈسٹری میں کام کیا۔

اس دوران ان کے بھائی کرامت علی مزدوروں کی تربیت اور مزدوروں سے متعلق امور پر تحقیق کا ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر اکنامکس ریسرچ (PILER) کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ شرافت علی نے اپنے بھائی کرامت علی کا ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ 80ء کی دہائی کے وسط تک پائلر طارق روڈ کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں قائم تھا مگر شرافت علی، کرامت علی اور دیگر دوستوں کی کوششوں سے پائلر کا دائرہ کار بڑھ گیا۔

پائلر کا بنیادی کام مزدوروں میں ٹریڈ یونین کا شعور پیدا کرنا، مزدوروں سے متعلق قوانین کے بارے میں آگہی پیدا کرنے اور تحقیق سے متعلق تھا۔ پائلر کے کارکنوں کی کوششوں سے اس ادارہ کی سرگرمیاں پورے ملک میں پھیل گئیں۔

پائلر نے مختلف صنعتوں میں مزدوروں کے حالات کار خاص طور پر خواتین مزدوروں کے حالات کار کے بارے میں اہم تحقیقی پروجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ پھر پائلر کا کام صرف مزدوروں میں ٹریڈ یونین کا شعور پھیلانا ہی نہیں تھا بلکہ نوجوانوں میں بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں آگہی دینا اور ترقی پسند نظریہ کو پھیلانا تھا۔ شرافت علی کو مطالعہ کا انتہائی شوق تھا، وہ سوویت یونین کی قائم کردہ لائبریری سے کتابیں لاتے اور وہیں بیٹھ کر پڑھتے۔ انھیں بہت سے اشعار یاد تھے جو وہ فی البدیہ پڑھا کرتے تھے۔

شرافت علی کے بارے میں ان کے دوستوں کی یہ رائے ہے کہ اگر کہیں جنگ ہورہی ہے اور شرافت علی کو موقع دیا جائے تو وہ فوری طور پر فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کرلیں گے۔

شرافت علی بھارت اور پاکستان کے ان لوگوں میں شامل تھے جو شعوری طور پر محسوس کرتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر آنے سے ہمارا جمہوری نظام مستحکم ہوگا اور غربت کی شرح میں کمی آئے گی۔ اس مقصد کے لیے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رابطوں میں حائل مشکلات کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ شرافت علی پاک انڈیا پیس فورم کے بانی اراکین میں ایک تھے۔

پاک انڈیا پیس فورم نے دونوں ممالک کے مختلف شہروں میں امن اور کشمیر کے موضوعات پر پروگرام منعقد کیے۔ امن کانفرنس منعقد کی گئیں مگر شرافت علی صنفی مساوات پر یقین رکھتے ہیں۔ شرافت علی نے اپنے خاندان کی تربیت اس طرح کی کہ بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر حقوق ملے۔

ان کی بیٹی عابدہ ایک ٹریڈ یونین کارکن ہی نہیں سول سوسائٹی کی فعال رکن بھی ہے۔ شرافت علی کو ان کے تعزیتی جلسہ میں سب سے زیادہ موثر خراج عقیدت ان کی پوتی سکینہ حیدر نے کیا تھا۔ شرافت علی جو سوچتے تھے زندگی میں ان پر عمل کرتے تھے۔ وہ طویل بیماری کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے مگر وہ مرتے وقت مطمئن ہونگے کہ ان کا مشن ان کے بیٹے، بیٹی، پوتے پوتیاں اور نواسیاں آگے بڑھا رہی ہیں۔

ایسے لوگ ہمارے معاشرہ میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ شرافت علی کے تعزیتی جلسہ میں ان کے پوتے شہریار حیدر نے اپنے دادا کو خراجِ تحسین گٹار پر یہ نغمہ پیش کر کے کیا تھا، یوں انھوں نے اپنے خاندان کی ہی نہیں بلکہ تمام ترقی پسندوں کے جذبات کی نمایندگی کی تھی۔

ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔