عمران خان کی مقبولیت پر سوالیہ نشانات

مزمل سہروردی  جمعرات 7 اپريل 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو اس وقت تا دم تحریر ملک کے وزیر اعظم بھی ہیں روزانہ عوام کو احتجاج کی کال دے رہے ہیں۔ انھوں نے تین دن مسلسل عوام کو احتجاج کی کال دی۔ لیکن اس کال کے نتیجے میں ان کے حامی اس تعداد میں باہر نہیں آئے جس کی انھیں توقع تھی۔

اسلام آباد میں ریڈ زون میں احتجاج کی کال جس میں عمران خان نے خود شرکت کی اس میں لوگوں کی تعداد دو تین ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ حالانکہ ابھی حکومت بھی ان کی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت اپنی مقبولیت کی معراج پر ہیں، لیکن پھر بھی لوگ دو تین ہزار سے زائد نہیں آئے۔

اسی طرح لاہور میں ایک ہوٹل کے باہر مظاہرے کی کال دی گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس ہوٹل میں مسلم لیگ (ن) نے ارکان اسمبلی کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ اس ہوٹل میں وہ ممبران بھی ٹھہرے ہوئے تھے جو تحریک انصاف چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ آگئے ہیں۔ عمران خان کی ہدایات تھیں کہ اس ہوٹل کے باہر ایک شدید احتجاج کیا جائے۔ دوست بتاتے ہیں کہ ہدایات تھیں کہ احتجاج اتنا شدید ہونا چاہیے کہ ہوٹل کے اندر گھس جائیں اور ایک آدھے لوٹے کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔

لیکن یہ تب ہی ممکن تھا جب ہزاروں لوگ آجاتے اور انتظامیہ کے لیے انھیں روکنا ممکن نہ رہے۔ ویسے تو ابھی پنجاب میں تحریک انصاف کی ہی انتظامیہ ہے۔ اس لیے اکٹھے ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ گرفتاری کا کوئی خوف نہیں تھا۔اتنی شدت سے دی گئی کال میں پچاس لوگ بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ یہ عمران خان اور ان کی احتجاجی سیاست کے ڈیزائن کے لیے بہت بڑی شکست تھی۔ اگر اقتدار میں رہتے ہوئے لوگ نہیں آرہے تو بعد میں جب پولیس گرفتاریاں کر رہی ہوگی تب کون آئے گا۔

جب تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے قومی اسمبلی میں ان کا ساتھ چھوڑا تو تب بھی عمران خان نے ہدایات دی تھیں کہ ان ارکان اسمبلی کے گھروں کے سامنے بڑے بڑے مظاہرے کیے جائیں۔ عمران خان نے خود اپنی تقاریر میں کہا کہ ان ارکان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔

ان کے بچوں سے شادیاں نہ کی جائیں۔ ان کے گھروں کے باہر احتجاج کیا جائے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی جو اس وقت تک معاون خصوصی تھے لیکن اب حکومت ختم ہو گئی ہے اس لیے معاون خصوصی نہیں رہے نے فیصل آباد میں احتجاج کی کال دی۔ انھوں نے ایسے ایک احتجاج کی خود قیادت کرنے کا اعلان بھی کیا۔ لیکن اس احتجاج میں بھی لوگوں کی کوئی بڑی تعداد نہیں آئی۔

فرخ حبیب نے بھی اسی طرح کی کال دی تو ان کے احتجاج میں بھی لوگوں کی کوئی بڑی تعداد نہیں آئی۔ اس مایوس کن احتجاج سے تحریک انصاف کے منحرف ارکان کو عوامی احتجاج کے دباؤ میں واپس لانے کی حکمت عملی ناکام ہو گئی۔

اگر یہ بات مان لی جائے کہ اس وقت  عمران خان اپنی مقبولیت کی معراج پر ہیں تو لوگ ان کی بار بار احتجاج کی کال پر باہر کیوں نہیں آ رہے۔ لاکھوں ہزاروں لوگ سپریم کورٹ کے باہر عمران خان کی حمایت میں جمع کیوں نہیں ہو رہے۔ لوگ اپنے محبوب لیڈر سے اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر کیوں نظر نہیں آرہے۔ کیوں نہیں پاکستان کے تمام شہروں میں لوگ اس عالمی سازش کے خلاف سڑکوں پر آئے۔ کیوں احتجاج کی بار بار کال کے باوجود سڑکیں سنسان ہیں۔ عمران خان کے اندر جتنا غصہ نظر آرہا ہے۔ عوام میں وہ غصہ کیوں نہیں نظر آرہا۔

اگر ایک لمحہ کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ عمران خان اس وقت 2018والی مقبولیت پر دوبارہ پہنچ گئے ہیں۔ تو پھر کیا یہ دلیل کافی نہیں کہ 2018کی مقبولیت بھی اتنی نہیں تھی کہ الیکشن جیتا جا سکتا۔ اس کے ساتھ مقتدر حلقوں کی مدد بھی درکار تھی۔ دوسری جماعتوں سے جیتنے والے گھوڑوں کی بھی ضرورت تھی۔ اس سب کے باوجود  بھی آر ٹی ایس کو بند کرنا پڑا۔ نتائج روکنے پڑے تب جا کر بھی سادہ اکثریت نہیں مل سکی تھی۔

اتنی زیادہ مدد کی‘ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے ایک بھاری قیمت بھی چکائی ہے۔ بعدازاں اس حکومت کو قائم رکھنے کے لیے بھی اسٹبلشمنٹ کی مسلسل مدد درکار رہی۔ جونہی اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہوئی یہ حکومت اپنے ہی وزن سے گر پڑی۔ اس کو گرانے کے لیے کوئی خاص تحریک چلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ لوگ خود ہی عمران خان کو چھوڑ گئے۔

اس لیے اگر اگلے انتخابات میں عمران خان کو یہ سب مدد دوبارہ حاصل نہیں ہوگی۔ دوسری جماعتوں سے تو دور کی بات ان کی اپنی جماعت سے جو جیتنے والے گھوڑے ناراض ہو گئے ہیں وہ بھی واپس نہیں آرہے۔ ملک میں یہ ماحول نہیں ہو گا کہ اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے۔ آر ٹی ایس کے بیٹھنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ پھر وہ کیسے جیتیں گے۔ کیا ایسا نہیں کہ عمران خان 2013والی پوزیشن پر واپس آجائیں گے۔

اس لیے اس بات پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں کہ کیا عمران خان حقیقی مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتے بھی ہیں کہ نہیں۔ کیونکہ اب تک انھوں نے جو مزاحمت کی بھی ہے اس میں بھی انھیں آشیر باد حاصل تھی۔ تعاون ہی نہیںبلکہ مدد بھی حاصل تھی۔ تب بھی ان کی مزاحمت کوئی خاص کامیاب نہیں رہی تھی۔ اس لیے اس بار وہ کتنی مزاحمت کر سکتے ہیں اور کتنی نہیں‘اس پر سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔

چند روز کی عمران خان کی سیاست نے ایسے اشارے دیے ہیں کہ ان کی جماعت کسی بھی قسم کی احتجاجی سیاست کے لیے تیار نہیں۔ لوگ باہر آنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے ساتھی ان کے لیے لوگوں کو باہر لانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ خود بھی ابھی ایسے لیڈر نہیں ہیں کہ لوگ ان کی کال پر خود ہی باہر آجائیں۔وہ ابھی طیب اردگان نہیں بنے ہیں کہ لوگ ان کی ایک کال پر خود ہی باہر آجائیں اور مخالفین کو تباہ کر دیں۔

ان کی کال میں ابھی وہ شدت نہیں جس کی انھیں توقع ہے۔ وہ ابھی بھی ایک سیاسی لیڈر ہیں‘ وہ کوئی انقلابی لیڈر نہیں ہیں‘ جس کے ساتھ لوگ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ مقبولیت پانی کا بلبلہ ہے۔ اس میں شور زیادہ ہے اور حقیقت کم ہے۔ عمران خان کو اپنی اگلی سیاسی حکمت عملی یہ بات سمجھ کر بنانی چاہیے۔ ورنہ زیادہ نقصان ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔