وزیر ستان آپریشن، حکومت کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا

شاہد حمید  بدھ 26 فروری 2014
حکومت اور طالبان دونوں کو ایک مرتبہ پھر اپنی پالیسیوں اور تمام تر صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے معاملات پر گرفت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔  فوٹو: فائل

حکومت اور طالبان دونوں کو ایک مرتبہ پھر اپنی پالیسیوں اور تمام تر صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے معاملات پر گرفت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فوٹو: فائل

پشاور: حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے اور اس دوران سیکورٹی فورسز کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں جو وزیرستان اور خیبرایجنسی کے علاوہ ہنگو میں بھی کی گئیں جبکہ دوسری جانب کوہاٹ بم دھماکہ اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ دوسری طرف سے بھی کاروائیوں کا سلسلہ تھما نہیں۔

اس صورت حال میں یہ بات بڑی واضح نظر آرہی ہے کہ مرکزی حکومت اور سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کر لیا ہے، چونکہ اس وقت ایک تو موسم کی شدت اس بڑی کاروائی میں آڑے آرہی ہے اور دوسرا ممکنہ طور پر جس پیمانے پر سکیورٹی فورسز کاروائی کرنے کی خواہاں ہیں اس کے مطابق تیاریاں بھی نہیں، یہی وجہ ہے اس وقت تک عسکریت پسندوں کے خلاف صرف فضائی حملے جاری ہیں اور زمینی کاروائی اب تک شروع نہیں کی گئی ۔ اگر آپریشن کا فیصلہ ہوچکا ہے تو پھر مارچ اور اپریل میں زمینی کاروائیاں بھی شروع ہو جائیں گی اور اس کا آغاز وزیرستان ہی سے ہوگا جس میں شمالی اور جنوبی وزیرستان دونوں کا نمبر آئے گا کیونکہ جب سے موجودہ عسکریت پسندی کا آغاز ہوا ہے تب سے وزیرستان ہی ان کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے اور اب بھی سارے معاملات وہیں سے کنٹرول کیے جا رہے ہیں ا س لیے سکیورٹی فورسز کا پہلا ہدف وزیرستان ہی ہوگا جس میں گڈ اور بیڈ سے قطع نظر کاروائی کرنا پڑے گی۔

ایم کیو ایم کی جانب سے سکیورٹی فورسز کے حق میں اور طالبان کے خلاف کراچی میں ریلی اور جلسہ کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی کڑی لگ رہا ہے جس کے تحت اب طالبان کے خلاف آپریشن کے لیے ہوا بن رہی ہے اور یہ سب کچھ لگ بھگ اسی انداز میں ہونے جا رہا ہے جس طرح سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن سے قبل راہ ہموار ہوئی تھی کیونکہ وہاں پر بھی جب اس وقت کی صوبائی حکومت اور سوات کے طالبان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تو اس کے بعد طالبان نے اپنے پاؤں پھیلانا شروع کردیئے تھے اور وہ سوات کے بعد بونیر،دیر اور دیگر علاقوں کی طرف پھیلنا شروع ہوگئے تھے جس کے بعد کے حالات میں یہ ضروری ہوگیا تھا کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے اور اب جبکہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی سلسلہ شروع ہوا تو اس میں سب سے بڑی سپورٹ یہ رہی کہ امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کا سلسلہ روک دیا گیا جو اگر جاری رہتا تو یقینی بات تھی کہ مذاکرات کی ناکامی کا سارا ملبہ ان ڈرون حملوں پر ہی گرایا جاتا، تاہم ڈرون نہ ہونے سے مذاکرات کے لیے جو موافق ماحول بنا اسے خود طالبان نے مختلف کاروائیوں کے ذریعے ختم کر دیا، یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو شروع دن ہی سے مذاکرات کی مخالف تھیں وزیراعظم کی جانب سے امن کو ایک موقع دینے کے اعلان کے باعث خاموش ہوگئی تھیں وہ بھی اب برملا اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ آپریشن ہونا چاہئے۔

لیکن حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تاحال معطل ہے، ختم نہیں ہوا اور دونوں جانب سے مذاکراتی کمیٹیاں اس بات کی منتظر ہیں کہ انھیں گرین سگنل دیا جائے تاکہ وہ اپنا کام آگے بڑھا سکیں، یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ طالبان کی جانب سے جو دو بڑی کاروائیاں کی گئیں ان کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز میں غصہ بھی پایا جاتا ہے اور اس غصہ کا اظہار وزیراعظم کی اجاز ت سے عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کے ذریعے کیا بھی گیا، تاہم حکومت اور طالبان دونوں کو ایک مرتبہ پھر اپنی پالیسیوں اور تمام تر صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے معاملات پر گرفت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور انا کا مسلہ بنائے بغیر اگر دونوں جانب سے مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھایا جا سکتا ہے تو یہ کوشش کر لینی چاہئے۔

کیونکہ جیسا کہ انہی سطور میں اس سے قبل بھی کہا گیا تھا کہ مذاکرات کی میز پر جتنی رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد مرکزی حکومت اور طالبان پہنچے ہیں اگر وہ یہاں سے واپس ہوتے ہیں تو اس کے بعد ان کا دوبارہ اس منزل پر پہنچنا مشکل ہو جائے گا اور اگر ایک مرتبہ حکومت کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے طالبان کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا تو پھر اسے منطقی انجام تک بھی پہنچانا پڑے گا کیونکہ اس صورت حال میں کسی بھی طور پر کاروائی کا ادھورا چھوڑنا مناسب نہیں ہوگا اور یہ کاروائی یقینی طور پر صرف وزیرستان تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کی لپیٹ میں دیگر قبائلی ایجنسیاں بھی آئیں گی اور خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقے بھی اس سے بچ نہیں پائیں گے اور یہ سلسلہ بہت دور تک جائے گا کیونکہ سوات اور وزیرستان کی صورت حال میں کافی فرق ہے اس لیے حکومت اورطالبان کو معاملات پر نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ آنے والے کل کے سامنے انھیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

قبائلی علاقہ جات اور خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں کا مقدر ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ فاٹا میں ممکنہ طور پر نظر آنے والے آپریشن کے تناظر میں خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورت حال کو برقراررکھنے کے حوالے سے فیصلہ سازی کے لیے خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی تجویز سامنے آئی ہے جو صوبہ کے سینئر وزیر سراج الحق نے اسمبلی کے فلور پر دی ہے جس کے حوالے سے انہوں نے تجویز کیا ہے کہ اس کمیٹی میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے علاوہ تمام پارلیمانی پارٹیو ں کے پارلیمانی لیڈرز شامل ہونے چاہئیں تاکہ سب کو صوبہ کے آئی جی پی اور ہوم سیکرٹری امن وامان کی صورت حال کے بارے میں بریف کرسکیں اور اس بریفنگ کی روشنی میں جو تجاویز سامنے آئیں ان کے حوالے سے اقدامات کئے جا سکیں۔

تاہم یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ مذکورہ کمیٹی اگر بن جاتی ہے اور یہ کمیٹی کوئی فیصلہ کرتی بھی ہے تو اس کا دائرہ صرف صوبہ تک ہی محدود ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات بہرکیف صوبہ کے نہیں مرکز کے زیر انتظام ہیں اس لیے اگر مرکزی حکومت نے آپریشن کا فیصلہ کیا تو مرکز ہی اس بارے میں صوبہ کو اعتماد میں بھی لے سکتا ہے اور مشاورت سے آپریشن کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں اور مرکز وصوبہ کی صورت حال یہ ہے کہ بظاہر تو دونوں جانب کی توپیں ایک دوسرے کے خلاف خاموش ہو چکی ہیں، تاہم اندر ہی اندر کہیں کوئی کچھڑی بھی پک رہی ہے یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں (ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر سردار مہتاب احمد خان حقیقی اپوزیشن لیڈر کا روپ دھار کر میدان میں بھی نکل آئے ہیں اور موجودہ صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں بھی وقتا فوقتا سنائی دیتی رہتی ہیں لیکن ایسے حالات میں جبکہ ایک جانب عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی ہونے جا رہی ہو اور ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات بھی کرانے ہوں اور تین ماہ بعد بجٹ بھی پیش کرنا ہو تو ان حالات میں ایسی کوئی مہم جوئی مشکل ہی نظر آتی ہے۔

حکومت کے خلاف جو کچھڑی پک رہی ہے اس کی ’’مہک‘‘حکومت کے نتھنوں تک بھی پہنچ چکی ہے اس لیے وزیراعلیٰ پرویز خٹک انہی قدموں کے نشانات پر چلنا شروع ہوگئے ہیں جو ان کے پیش رو دو وزرائے اعلیٰ اکرم خان درانی اور امیر حیدر ہوتی نے چھوڑے ہیں، جس طرح آج پرویز خٹک کو پچاس سے زائد ارکان پر مشتمل اپوزیشن کا سامنا ہے اسی طرح اکرم خان درانی کو بھی ایسی ہی اپوزیشن کا سامنا تھا  تاہم وہ پانچ سال تک پوری اپوزیشن کو جیب میں لیے پھرتے رہے اور پھر امیر حیدر ہوتی نے اکرم خان درانی اور پیرصابر شاہ جیسی شخصیات سمیت پوری اپوزیشن کو سینے سے لگاکر رکھا اور آج پرویز خٹک جن کے لب ولہجہ میں ابتدائی دنوں میں تو اپوزیشن کے لیے کڑواہٹ تھی وہ اب مٹھاس میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہے اور انہوں نے اپوزیشن میں اپنے لیے ’’گڈ‘‘ تلاش کرنے شروع کردیئے ہیں اور اس تلاش کے دوران کئی ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرنا بھی شروع ہوگئے ہیں اس لیے اگر اپوزیشن جماعتیں مرکز کے دست شفقت کے زیر سایہ کوئی مہم جوئی کرتی بھی ہیں تو اس کے لیے انھیں تحریک انصاف کی صف میں کھڑے ہوؤں کو منتشر کرنا ہوگا بصورت دیگر پرانی تنخواہ پر سب کو کام جاری رکھنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔