عورت کم زور ہے۔۔۔۔!

نگہت فرمان  اتوار 10 اپريل 2022
یہ حقیقت ہے یا محض ایک مفروضہ؟ . فوٹو : فائل

یہ حقیقت ہے یا محض ایک مفروضہ؟ . فوٹو : فائل

عورت کم زور، کم ہمت، پست حوصلہ، کم عقل ہے!
ہم سب یہی سنتے چلے آرہے ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی ہے یا ایک مفروضہ۔
آئیے! اس پر کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی سے مکالمہ کرتے ہیں۔

ایک بے بنیاد تصور کو ایک بروقت قدم ہی زمیں بوس کرسکتا ہے۔ جی! بالکل ایسا ہی ہے۔ جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو ایک چھوٹا سا جگنو ہی پچھاڑ ڈالتا ہے۔

جیسے شدید دھند کو سورج کی ایک کرن ہی پرے دھکیل ڈالتی ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں:

ایک جگنو ہی سہی ساتھ سفر میں رکھنا

تِیرگی کو کبھی بے باک نہ ہونے دینا

اور یہ بھی:

چند لمحوں میں سبھی عکس نکھر آئیں گے

دُھند کا راج ہے بس دھوپ نکل آنے تک

عورت! جی، صنف نازک کہا جاتا ہے جسے، جب ظلم کے مقابل پورے عزم کے ساتھ آن کھڑی ہو تو کیا پھر بھی اسے صنف نازک کیا جائے گا۔۔۔۔ ؟

یہی ہے آج کا چبھتا ہوا سوال اور ہمیں اس کا جواب تلاشنا ہے۔

جی! عورت صنف ناک ہوتی ہے، جی! اسے آبگینے سے تشبیہ دی گئی ہے، بالکل درست ہے یہ، لیکن جب حق کے مقابل باطل کے سامنے آجائے تو پھر چشم فلک دیکھتی ہے کہ یہی صنف نازک مجسم عزم و حوصلہ بن کر اس کے مقابل آتی اور اسے زمیں بوس کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اب آپ کو مثال درکار ہوگی اور ہونی بھی چاہیے، تو چلیے!

کیا ہم اسلام کی پہلی شہید خاتون حضرت سمیّہؓ کو بُھول سکتے ہیں۔۔۔۔؟

کیا دربار یزید اور بازار شام میں خطیبۂ مظلوم جناب زینبؓ کے خطبات کی گونج کو فراموش کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ ؟

کیا فلسطین میں جو جَری خواتین صہیونی دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہیں انہیں تاریخ فراموش کردے گی۔۔۔۔۔ ؟

ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں اور اگر درکار ہیں تو پھر عالمی ذرایع ابلاغ میں شایع اور نشر کی جانے والی رپورٹس کو باریک بینی سے دیکھیے، سنیے اور پڑھیے۔

مسکان خان! جی وہی مسکان خان جو ابھی کل ہی تو بات ہے یہ، جب وہ ہندوتوا کے پرچارک مسلح غنڈوں کے سامنے آکر للکار رہی تھی، جی وہی مسکان خان صرف انیس برس کی مسکان خان! جو سال دوم کی طالبہ ہے، ڈاکٹر اقبال یاد آئے:

بے خطر کُود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

عورت اور مرد کو خالق حقیقی نے انسانی سماج کی بنیادی اکائی بنایا ہے۔ دونوں ہی انسانی وجود کے دو مختلف قالب ہیں جس میں ہر ایک کے بنا دوسرے کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی کی ایک حقیقت ہے۔

پھر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ عورت اور مرد کی انسانی حیثیت کو یک ساں تسلیم کیا جائے۔ دونوں کے حقوق اور فرائض تسلیم کیے جائیں۔ اور اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کریں اور ایک دوسرے کو ثانوی سمجھنا ترک کردیں۔ اس لیے کہ انسانی سماج میں دونوں ہی کو بنیادی و مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

اور اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جائے کہ نظام زندگی کے مختلف دائروں میں ان کی اپنی ایک خاص اہمیت اور تقسیم کار ہے۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم اور اس کا اعتراف کیا جائے گا تو وہ سماج اپنی ترقی کے عروج کو اپنے سامنے دیکھے اور اس کے فوائد سے مستفید ہوگا اور اگر اس کے برعکس ہوا تو اس سماج کو زوال پذیر ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی۔ وہ نظام تمدن شر اور فساد سے بھرتا چلا جائے گا۔

عورت اور مرد کی جسمانی ساخت، صلاحیتیں اور مزاج فطری طور پر مختلف ضرور ہیں لیکن اس بنیاد پر عورت اور مرد کی انسانی حیثیت میں امتیاز کرنا سوائے اناپرستی کے کچھ نہیں۔ اسلام کی الہامی تعلیمات سے انحراف اس کی وجہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بعض مذہبی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے بااختیار مردوں کے ایک گروہ نے خود کو معاشرے میں مرکزی حیثیت دے دی اور عورت کو ثانوی قرار دے اس کی خدمات اور صلاحیتوں سے انکار کردیا یا پھر اسے انتہائی محدود کردیا ہے۔ اور یہی بات عورت کے استحصال کا سبب پے۔

انسانی تہذیب کے ارتقاء میں عورتوں نے جو کردار ادا کیا ہے اسے نظر انداز کر دیا گیا اور یوں انسانی تاریخ کی ترقی مردوں نے اپنے نام ہی کرلی۔ جب ہم عورت کی روزمرہ کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں ہمیں فرصت کے لمحات کم ہی نظر آتے ہیں۔ تہذیب کی ترقی میں عورتوں کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ انہوں نے معاشرے میں خُوب صورتی اور نفاست کا احساس پیدا کیا ہے۔

عورتوں نے تجارت کے فروغ میں بھی حصہ لیا۔ جب ان کے شوہر کاروبار کے سلسلے میں دور دراز ملکوں میں چلے جاتے تھے تو عورتیں نہ صرف گھر کا انتظام اور دیکھ بھال اور بچوں کی تعلیم و تربیت کو دیکھتی تھیں بل کہ اپنے شوہر سے خط و کتابت کے ذریعے رابطے میں رہتی تھیں اور اس کی ضرورت کے مطابق اسے تجارتی مال بھی سپلائی کرتی تھیں۔ ہمیں ام المومنین جناب حضرت خدیجہؓ کی زندگی سے روشنی حاصل کرنا چاہیے جو مکہ کی ممتاز تجار خواتین میں سرفہرست تھیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

اسلام نے عورتوں کو اپنی شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہر طرح کے امور سرانجام دینے کی اجازت دی ہے۔ اسلامی تاریخ ایسی نام ور خواتین کے تذکرے سے روشن ہے جنہوں نے ہر شعبۂ زندگی میں اپنی حدود کی پاس داری کرتے ہوئے کارہائے نمایاں انجام دے ہیں۔ اسلام نے جہاں عورتوں کو کچھ امور میں پابند کیا ہے وہیں اسے آزادی جیسی نعمت سے بھی سرفراز کیا ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت اپنے شوہر کے انتخاب میں آزاد ہے اور کوئی بھی شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں عورت پر کوئی بات جبراً مسلط نہیں کر سکتا۔ خاندان کی تشکیل درحقیقت عورت ہی کرتی اور وہی اسے چلاتی ہے۔ کنبے کی تشکیل کا بنیادی عنصر عورت ہے۔ اگر مرد دنیا سے رخصت ہو چکا ہے تو گھر کی عورت اپنی سلیقہ شعاری اس کنبے کو منتشر ہونے سے بچائے رکھتی ہے اور اس کی کئی مثالیں ہمیں اپنے اردگرد نظر بھی آتی ہیں۔

اسلام نے عورت کو تعلیم حاصل کرنے، تعلیم دینے، گھر سے باہر کام کرنے اور سیاست کے میدان میں بھی سرگرم عمل ہونے اور معرکہ کارزار حق و باطل میں اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

ہم مسلم عورت کے کردار پر مکالمہ کر رہے ہیں اور یہ کوئی مختصر موضوع نہیں ہے بل اس پر تو کتب کے انبار لگائے جاسکتے ہیں۔ ابتدا میں ہم نے مسکان خان کی بات کی تھی تو دنیا نے دیکھا کہ وہ کس جرأت مندی سے میدان میں آئی اور تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

’’میں نے اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کیا کیوں کہ میں بہت ڈر گئی تھی۔ اور جب میں ڈرتی ہوں تو اﷲ کا نام لیتی ہوں۔‘‘

انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کی مسکان خان جو مقامی کالج میں بی کام سال دوم کی طالبہ ہے۔ وہ حجاب پہنے ایک اسکوٹر پر سوار ہوکر اپنے کالج میں داخل ہی ہوئی تھی کہ ایک ہجوم نے اسے باحجاب دیکھتے ہوئے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کیے اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا حجاب اتارے۔ لیکن وہ مسکان تھی جب اس نے جرأت کی تاریخ رقم کی اور ہجوم کے سامنے اﷲ اکبر کی صدا بلند کرتے ہوئے ان کے مطالبے کو اپنے جوتے تلے کچل کر رکھ دیا۔ جب اس سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے سوال کیا کہ آپ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا ؟ تب اس نے اعتماد سے انہیں بتایا:

’’مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، میں ہمیشہ کی طرح کالج جا رہی تھی۔ باہر سے آنے والے کچھ لوگ گروپ کی شکل میں کھڑے ہوگئے اور مجھ سے کہا: تم برقع پہن کر کالج کے اندر نہیں جاسکتی، اگر تم کالج میں داخل ہونا چاہتی ہو تو برقع اور حجاب اُتار کر اندر جانا ہوگا۔ اگر تم برقعے ہی میں رہنا چاہتی ہیں تو واپس اپنے گھر چلی جاؤ۔

پہلے تو میں نے سوچا کہ خاموشی سے چلی جاؤں گی۔ لیکن وہاں ’’برقع اتارو‘‘ اور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے وہ تمام لڑکے میرے پیچھے ایسے آ رہے تھے جیسے وہ سب مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ یہ تیس سے چالیس افراد تھے۔ میں اکیلی تھی، ان میں انسانیت نہیں ہے۔ اچانک وہ میرے پاس آئے اور چلانا شروع کر دیا۔ کچھ نے نارنجی رنگ کے سکارف پکڑے ہوئے تھے اور مسلسل برقع اتارو اور جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔

جب سے میں کالج آئی ہوں تو تب سے میں نے حجاب پہننا شروع کیا تھا۔ کالج میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سب کچھ پہلے جیسا تھا۔ میں حجاب پہن کر کلاس میں جا رہی تھی۔ میں کلاس میں برقع نہیں پہنتی صرف حجاب پہنتی ہوں۔ میں اپنے بال چھپا کر کلاس اٹینڈ کرتی ہوں۔

لیکن اس دن وہ لوگ مجھے کیمپس میں داخل نہیں ہونے دے رہے تھے۔ ان کی بڑی تعداد باہر سے آئی ہوئی تھی۔ کالج کے چند طالب علم ہی وہ وہاں موجود تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ برقع اُتارو، ورنہ کالج نہیں جا سکتیں۔ وہ سب مجھے ڈرا رہے تھے۔ میرے سامنے چار باحجاب لڑکیاں آئیں اور لڑکے ان پر آوازیں کستے چلے گئے، وہ رو کر اندر چلی گئیں، پھر میرے ساتھ بھی وہی ہوا۔ میں نہیں روئی، میں نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔

میں نے اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کیا، کیوں کہ میں ڈر گئی تھی۔ جب ڈر لگتا ہے تو اﷲ کا نام لیتی ہوں۔ جب میں اﷲ کا نام لیتی ہوں تو ہمت پیدا ہوتی ہے۔

کیا اب بھی آپ عورت کو کم زور سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔