مسبب الاسباب

شکیل فاروقی  جمعـء 8 اپريل 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

یوں تو سال کے ہر مہینہ کی کوئی نہ کوئی خاصیت اور اہمیت ہوتی ہے لیکن رمضان المبارک کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اِس مبارک مہینہ کی تیاری نبی اکرمﷺ شعبان ہی سے شروع کردیا کرتے تھے۔

اتباع سنت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ہم بھی اِس ماہِ مبارک کی آمد سے قبل اِس کے استقبال کی تیاریاں مکمل کرلیں لیکن افسوس ہم ایسا کرنے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ اپنے نفس کی گرفت میں آکر کچھ اور ہی کرتے ہیں جس کی سب سے بری اور مکروہ صورت قبل از وقت ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے اِس حقیقت کو فراموش کیا ہوا ہے کہ یہ دنیا محض ایک سرائے فانی ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہمیں ملک عدم روانہ ہوکر اپنے خالق کے روبرو پیش ہوکر اپنی زندگی بھر کی حرکتوں کا جواب دینا ہوگا۔ہماری غالب اکثریت اِس نشہ میں مست رہتی ہے کہ:

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

نظیر ؔاکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے:

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ساحرؔ لدھیانوی نے بھی اِسی حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:

دھن دولت کے پیچھے کیوں ہے یہ دنیا دیوانی

یہاں کی دولت یہیں رہے گی ساتھ نہیں یہ جانی

بلاشبہ یہ ماہ مبارک لُوٹ کا مہینہ ہے لیکن دنیا داری کے شکار اِس لُوٹ کے صحیح معنی سمجھنے سے قاصر ہیں اور صرف اِس لفظ کی غلط تشریح کرکے گراں فروشی کا بازار گرم کر دیتے ہیں لیکن لفظ لُوٹ کے بالکل صحیح معنی سے آشنا اللہ والے خوب خوب ثواب اور اجر لُوٹنے کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول دیتے ہیں اور زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کے ذریعہ اپنے مالکِ حقیقی کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی عاقبت سنوارنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

رب راضی تو سب راضی سے آشنا مخیر  لوگ اِس ماہ مبارک کے دوران مخصوص مقامات پر روزہ داروں کی سہولت کے لیے گلی کوچوں، سڑکوں اورچوراہوں پر اشیاء خورونوش کے اسٹال لگا کر روزہ کشائی کا اہتمام کرتے ہیں۔

الحمد للہ وطن عزیز عالمِ اسلام میں اِس کارِ خیر میں پیش پیش ہے۔ سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہی وہ ماہِ مقدس ہے کہ جس کے دوران دنیا میں دو ایسے واقعات پیش آئے جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اوّل نزولِ قرآن مجید اور دوئم وطن عزیز پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا۔یہ ہم سب پر خدائے بزرگ و برتر کا ایسا احسانِ عظیم ہے کہ جس کے لیے ہم اپنے خالق کے روبرو سجدہ شکر ادا کریں وہ کم ہی ہوگا لیکن افسوس صد افسوس ہم دنیاداری کے چکر میں پڑ کر خدا پرستی سے ہٹ کر زر پرستی پر اُتر آئے ہیں اور عالم یہ ہے کہ بقولِ اقبالؔ:

مسجد تو بنالی شب بھر میںایماں کی حرارت والوں نے

مَن اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا

مقامِ افسوس یہ ہے کہ ہم نے اُس مقصد کو ابھی تک فراموش کر رکھا ہے جس کی خاطر بے دریغ قربانیاں دینے کے بعد ہم نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں خوابِ اقبال کو شرمندہ تعبیر کیا تھا۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے رہنماؤں کی کوتاہیوں کے نتیجہ میں آج اِس ماہِ مبارک کے آغاز کے ساتھ ہی وطن عزیز اپنی منزلِ مراد کی طرف گامزن ہونے کے بجائے ایک بند گلی میں کھڑا ہوا نظر آتا ہے اور ایک غیر یقینی کی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔ اس کیفیت کے نتائج ملک میں معاشی ابتری کی صورتحال کے مزید مخدوش ہونے کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں اور جہاں ایک جانب ملک کے حصص بازار میں مسلسل گراوٹ ہو رہی ہے وہیں پاکستانی کرنسی کی بے قدری بھی خطرناک شرح کے ساتھ جاری ہے۔

کاروبار جو پہلے ہی کساد بازاری کا شکار تھا اب مزید مشکلات سے دو چار ہوگا جس کے منفی اثرات اپنے آخری سرے تک پہنچیں گے۔ مہنگائی جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کررہی ہے اُس میں مزید اضافہ ہوگا اور تیل تلوں میں سے ہی نکالا جائے گا کی کہاوت کے مصداق اصل اور آخری نشانہ صرف اور صرف صارفین بنیں گے۔

یہ صورتحال ایک خطرناک دائرہ کی شکل اختیار کرلے گی جس کے منفی اثرات معاشی اور معاشرتی زبوں حالی کی صورت میں نکلیں گے۔ غربت اور بیروزگاری کے مسائل سے دو چار معاشرہ کی حالت بد سے بدتر ہوگی جس کے نتیجہ میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے جب کہ لوٹ مار اور ڈاکا زنی جیسے جرائم کی شرح میں پہلے ہی روز بروز تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔

مفلسی بڑی بری بلا ہے یہ انسان کو شیطان بنا دیتی ہے اور اِس کے غلبہ کی وجہ سے معاشرے میں جائز اور ناجائز کی تمیز مٹ جاتی ہے غربت مٹانے کے وعدے اور دعوے تو ہر برسرِ اقتدار آنے والی حکومت نے کیے لیکن سب کچھ زبانی جمع خرچ کے سوائے کچھ نہ تھا۔ غربت تو نہ مٹنا تھی اور نہ مِٹی ہے البتہ بے چارہ غریب ہی مٹ رہا ہے لیکن سب سے زیادہ مصیبت کا شکار متوسط طبقہ ہے جو نہ اِدھر کا ہے اور نہ اُدھر کا اور جسے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ نچلے درجہ اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بیچارے ملازمین کی حالت تو سب سے زیادہ قابلِ رحم ہے۔ حالت یہ ہے کہ:

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے

اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے اِس میں غریب اور نادار افراد کی اعانت کا معقول بندوبست کیا گیا ہے۔ صاحبِ ثروت لوگوں پر مستحقین کو زکوۃ، خیرات اور صدقات کا نظام اِسی مقصد سے وضع کیا گیا ہے جو ہر انسان کو زندہ رہنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ یوں تو پورے ملک میں اہلِ دل صاحب ثروت لوگ اِس کارِ خیر میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ ڈالتے ہیں لیکن کراچی شہر کو اِس معاملے میں دوسروں پر سبقت حاصل ہے جس کے باعث ملک کے گوشہ گوشہ تک مستحقین کی داد رسی ممکن ہورہی ہے

رمضان المبارک کے مہینہ میں یہ کام اپنے نکتہ عروج پر ہوتا ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح رب کریم اپنے خاص بندوں کے ذریعہ غریب غرباء کی مدد کرتا ہے بے شک وہی مسببُ الاسباب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔