عمران خان تنہا اور دوستوں سے محروم ؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 8 اپريل 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اپنے اقتدار کی خاطر عمران خان نے ملک، آئین اور معیشت کے ساتھ جو سلوک کیا ہے ، اس کے منفی اثرات ہر طرف ظاہر ہو رہے ہیں۔ مرکزی اور پنجاب کی حکومتوں کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا ہے، خان حکومت کے ان اقدامات سے ملک بھی خسارے اور عالمی تنہائی میں چلا گیا ہے۔امریکی ڈالر188روپے کا ہو چکا ہے۔

مہنگائی نے عوام کے لیے سحر اور افطار بھی دشوار بنا دیا ہے۔ خان صاحب کی لاپرواہیاں اور عوام کے دکھوں سے لاتعلقی مگر اپنے عروج پر ہے ۔ چند روز قبل یہ بُری خبر آئی ہے کہ پاک، افغان تجارتی حجم ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ گیا ہے ۔ روزنامہ ’’ ایکسپریس‘‘ نے یہ خبر شایع کرتے ہُوئے قارئین کو بتایا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں پانچ ارب ڈالر تجارت کا پوٹینشل ہے لیکن افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد یہ حجم گھٹ کر ایک ارب ڈار سے بھی نیچے گر گیا ہے ۔

ساتھ ہی یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ عدم توجہی کے باعث یہ جو تجارتی خلا پیدا ہُوا ہے ، ایران اور بھارت اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے 40سال سے زیادہ عرصے سے پاکستان ، افغانستان اور افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے چلا آ رہا ہے ۔ نام نہاد افغان جہاد کے دوران بھی خسارہ ہی پاکستان اور عوام کے حصے میں آیا۔ افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی پاکستان کے لیے مشکلات اور مسائل بڑھ گئے ہیں ۔مقتدر افغان طالبان پاک ، افغان سرحد پر پاکستان کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ افغانستان سے کئی بار ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان پر حملہ آور ہو کر ہمارے جوانوں اور افسروں کو شہید کر چکے ہیں ۔ عمران حکومت مگر کچھ نہ کر سکی۔

عمران خان حکومت کمزور اور بے عمل ہونے کے کارن افغان طالبان نہ تو پاکستان کی سُن رہے ہیں اور نہ ہی ٹی ٹی پی کو لگام ڈالنے کے لیے تیار ہیں ۔ پچھلے دنوںچمن کی سرحد پر افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف پھر خونریزی کی ہے ۔ ردِ عمل میں پاکستان نے کئی روز چمن سرحد بند کیے رکھی۔

افغان طالبان کے افغانستان اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات بھی مستحسن نہیں رہے ۔ افغان طالبان نہ تو ڈیو رنڈ لائن کو تسلیم کررہے ہیں اور نہ ہی ہماری سیکیورٹی فورسز کو پاک، افغان بارڈر پر باڑ لگانے کی اجازت دے رہے ہیں۔

افغان طالبان کی ’’فتح‘‘ کے بعد عمران خان حکومت نے، پاک افغان تعلقات کے حوالے سے، بہتری ، دوستی اور امن کے جتنے بھی خواب خود دیکھے اور عوام کو دکھائے تھے، سب غارت ہو چکے ہیں ۔افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سفارتی، سیاسی اور تجارتی تنہائی روز افزوں ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران بھی ہمیں مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہے ۔

امریکا اور مغرب کے خلاف جناب عمران خان جس طرح بیانات کے گولے داغ رہے ہیں ، اس نے عمران خان کو تو شاید کم نقصان پہنچایا ہے لیکن پاکستان اور امریکا کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ جس مبینہ خط کا ڈھنڈورا پیٹ کر خان صاحب نے کچھ ذاتی سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہے تھے، اس اقدام کے اُلٹے نتائج برآمد ہُوئے ہیں ۔خطرناک حالات میں عمران خان کا دَورئہ رُوس بھی پاکستان کے خلاف ہی اقدام ثابت ہُوا ہے ۔

خان صا حب نے امریکی ناراضی کو اپنے حق میں ایکسپلائیٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا نقصان بھی پاکستان ہی کو ہُوا ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا نے ایک بہانہ بنا کر امریکا میں بروئے کار ایک پاکستانی بینک کو55ملین ڈالرز کا بھاری جرمانہ کر دیا ۔ بقول عمران خان، پاکستان کے پاس پہلے ہی پیسے نہیں ہیں ، ایسے میں امریکا نے اربوں روپے کا پاکستان کو جرمانہ کر دیا ہے ۔ امریکا نے دراصل پاکستان کی کمزوری اور تنہائی کا فائدہ اُٹھا یا ہے۔ لندن میں بھی پاکستان نے اربوں کا ہرجانہ بھرا ہے ۔ وائے افسوس!

چین کے ساتھ ہمالہ سے بلند، سمندروں سے گہرے اور شہد سے زیادہ شیریںتعلقات رکھنے کا دعویٰ بھی مبینہ طور پر کمزور اور نحیف ہو چکا ہے۔ فریقین کی محبتیں اور چاہتیں ماند پڑ چکی ہیں۔ اس کا نقصان وطنِ عزیزکو زیادہ اُٹھانا پڑ رہا ہے۔

اس کے کئی مظاہر بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس تنہائی اور کمزوری کو دُور کرنے کے لیے عمران خان کو ونٹر اولمپکس کے بہانے خود چین کا دَورہ کرنا پڑا تھا لیکن پاکستان اور چین کے درمیان پیدا ہونے والے بُعد کو فی الحال ختم نہیں کیا جا سکا۔ یہ حالات پاکستان اور پی ٹی آئی حکومت کے لیے مستحسن ثابت نہیں ہُوئے۔ جناب عمران خان سے جس تدبر اور تدبیر کی توقعات کی جارہی تھیں ، وہ پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر عمران خان کے دوستوں کی تعداد تیزی سے کم ہُوئی ہے ۔ نتیجے میں ہماری قومی مایوسیاں بڑھ رہی ہیں ۔

کتنے چاؤ ، بلند آدرشوں اور بلند آہنگی کے ساتھ عمران خان نے اپنے بوڑھے اور بزرگ ملائیشین دوست، مہاتر محمد، اور ترک دوست صدر ، طیب اردوان، کے ساتھ مل کر ، او آئی سی کے مقابل، ایک نیا اسلامی بلاک بنانے کی سعی کی تھی۔ مبینہ اخلاص کے ساتھ۔ اس کا نتیجہ مگر اُلٹا برآمد ہُوا۔ ہمارا دیرینہ دوست سعودی عرب ، جس نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کی دستگیری کی ہے، ناراض ہو گیا کہ او آئی سی کی موجودگی میں عمران خان کی یہ سعی دراصل سعودی عرب کو چیلنج کرنے کے مترادف تھی ۔

اس ناراضی کا اظہار اِس امر سے بھی ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے بالا بالا بھارت سے معاشی اور اسٹرٹیجک تعلقات مضبوط کر لیے ہیں ۔ بھارتی آرمی چیف ( جنرل نروانے) کا سعودیہ کا گرمجوش دورہ اور پھر جواباً سعودی آرمی چیف (جنرل فہد بن عبداللہ) کا نئی دہلی کا دَورہ اس کی شہادت دے رہا ہے۔ یکم اپریل2022 کو سعودی ولی عہد کے مشیر( شہزادہ بدر بن عبداللہ بن محمد) نے ممبئی میں بھارتی بزنس اور فلم کمیونٹی سے اربوں ڈالر کے نئے معاہدے کیے ہیں ۔

کیا یہ بد قسمتی نہیں ہے کہ پاکستان کے چاروں ہمسایوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ 22مارچ2022 کو اسلام آباد میں ہونے والی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں افغانستان ، ایران اور بنگلہ دیش کے وزرائے خارجہ نے نے بوجوہ شرکت نہیں کی۔ جن ممالک (امریکا اور مغرب) کے ساتھ پاکستان کے ثمر آور تجارتی تعلقات ہیں ، اُن سے بھی خان صاحب نے تعلقات بگاڑ لیے ہیں۔ خان صاحب کے اقدامات کے کارن دوست ملکوں کی ناراضی روز افزوں ہے۔

اِنہی ناراضیوں کے سبب برطانیہ نے پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی، معید یوسف ، کا دَورہ بھی پچھلے دنوں منسوخ کر دیا ۔ 6اپریل 2022 کو، امریکا نے اپنی نئی ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے ۔ اس کے تحت امریکا نے اپنے شہریوں کو فی الحال پاکستان جانے سے منع کر دیا ہے۔ عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی نے جمہوریت دشمن اقدامات کرکے عوامی غیض و غضب کو دعوت دی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔