اہل سیاست بقا کا ڈھول بجا رہے ہیں

م ش خ  جمعـء 8 اپريل 2022
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

قارئین گرامی! صبر کی تلقین بھی ختم ہوئی، حکومت اور اپوزیشن عرصے سے ایک دوسرے کی انکوائریاں کرتے پھر رہے تھے، اشتعال انگیزی بھی ختم ہوئی، قابل مذمت بیانات بھی اپنی عمر پوری کرکے چلتے بنے، اہل سیاست بھی اور قوم بھی ڈھول بجا رہی ہے، معاشی پیکیج کے دعوے بھی اپنی عمر پوری کرکے چلتے بنے، سارے وفاقی وزرا سابق ہوئے، گاڑیاں اور مراعات واپس ہو رہی ہیں، لوٹ کے بدھو گھر کو گئے، اب وزارتوں پر ایصال ثواب کا سلسلہ جاری ہے.

قوم خوش گفتاری سے بلے بلے کر رہی ہے، مگر دونوں طرف سے سیاسی چھکے بنجر میدان میں لگائے جا رہے ہیں، قوم بہت آرام سے ہے کہ اس کی آنکھوں میں روشنی اور کافی جو سیاسی پیپ کی وجہ سے پک گئے تھے اب دوبارہ بحال ہوگئے ہیں۔

3 سال ہوگئے ہیں ترقی کی سیڑھی کو ان لوگوں نے کھینچ لیا مگر دونوں طرف سے دعوؤں کا سلسلہ جاری و ساری ہے ان وفاقی وزرا اور مشیروں نے عوامی مسائل کے لیے کیا کیا؟ اس کا جواب تو ان کے پاس بھی نہیں ہے چونکہ قوم انٹرنیٹ کی وجہ سے کافی سلجھ چکی ہے پہلے امیدوار مزے میں 5 سال گزارنے کے بعد جب حلقے میں جاتے تھے تو ان کے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ان کی عزت و تکریم کی بانسری بجایا کرتے تھے مگر اب قوم شعور کی دہلیز کو پار کر چکی ہے کہ اس نے انٹرنیٹ کے آغاز کے بعد 13 سال تقریباً صبر و تحمل سے کام لیا اور اس دوران اس نے 2 حکومتوں کو دیکھ لیا مگر وہ تہی داماں رہے۔

3 سال میں بے مقصد تصادم نے اس قوم کو مسائل کے تندور میں جھونک دیا اور اب وہ جلی ہوئی روٹیوں کی شکل اختیار کرگئے، اپنے کئی کالموں میں، میں تین سال تک زور دیتا رہا کہ آپ قوم پر توجہ دیں، مگر سیاسی حضرات اپنی انا کے بخار میں ایک دوسرے کو دھکے دیتے رہے اور عوامی سطح پر کسی بھی اچھی سرگرمی کو فروغ نہیں دیا گیا۔

یہ المیہ ہے اس قوم کے لیے کہ سیاسی طور پر ایک دوسرے پر منفی پروپیگنڈے کے تیر برساتے رہے، ذاتی باتوں پر اس قدر بڑھ گئے کہ خاندانی باتوں کو بھی اجاگر کیا گیا، ماضی کی جمہوریت جو قارئین نے دیکھی مسائل تو اس وقت بھی جوں کے توں تھے مگر دیانت اور تندہی سے جھوٹ بولا جاتا تھا جس پر یقین کرنے کو دل چاہتا تھا اور پھر نئے الیکشن ہوجاتے تھے مگر اس دفعہ تو ہمارے وزرا نے قوم کے لیے نہیں بلکہ اپنے حریفوں کے لیے بلند و بانگ دعوے کیے اور پھر اس کا اختتام قوم کے سامنے ہے۔

اس تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے قوم کولہو کا بیل بنی رہی، حکومتی جلسے ہوتے تو اپوزیشن غریبوں کا جھنڈا لے کر عوامی پذیرائی کے لیے بیانات دیتی کہ روڈ بلاک کر دیے گئے ہیں، بچوں کو تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے، غریب کو روزگار سے دور کیا جا رہا ہے، مریضوں کو اسپتالوں تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے، ہر آنکھ اشک بار ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

اپوزیشن کو قوم کی وجہ سے دکھ ہو رہا تھا، دو ہفتے سکون سے گزرتے اس کے بعد آنے والے معتبر جمہوری نظام کی بقا کے لیے ماضی کے سیاسی بیانات کو انتہائی دیانت سے ملیا میٹ کرکے اپنے جلسوں کا آغاز کرتے تھے غریب دونوں مرتبہ مایوسی کے ڈھول بجایا کرتا تھا نہ جانے دونوں طرف کی اشرف المخلوقات کیا کر رہی تھی۔ 3 سالہ اقتدار میں کوئی وفاقی وزیر وائٹ پیپر ضرور قوم کی رہنمائی کے لیے ریلیز کرے کہ میری وزارت میں ان ان حلقوں میں یہ کام کروائے گئے کیونکہ یہ بات ختم کرکے بچا نہیں جاسکتا کہ کیا کریں حکومت نے بجٹ ہی نہیں دیا۔

اول تو اپوزیشن کو چاہیے تھا کہ یہ اپنے حلقوں میں جا کر ترقیاتی کام کرواتی مگر دونوں جگہ کسی معاملے میں عمل درآمد نہیں ہوا اور غریب بے یار و مددگار آہوں کراہوں کے ساتھ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر روتا رہا مگر ان سیاسی حضرات کو اپنے سنہری مستقبل کی فکر تھی، طرز بیان بدلتے رہے مگر حالات جوں کے توں رہے۔ دونوں پارٹیوں کے اراکین دیانت اور تہذیب کے ساتھ انٹرنیٹ پر ویڈیو بھیجتے رہے، اس کے برعکس سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کی تیکھے موضوعات پر ویڈیو بھیجی جاتی رہیں اور ظاہر ہے کہ باہر کے ممالک میں رہنے والے پاکستانی کتنے مایوس ہوتے ہوں گے کہ ہم زرمبادلہ بھی اپنے ملک کو بھیج رہے ہیں اور قوم کا یہ حال ہے، بیشتر باہر ممالک میں رہنے والے جب پاکستان آتے ہیں تو یہاں کے حالات دیکھ کر مایوسی میں ڈوب جاتے ہیں ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔

اس کا کوئی تعین نہیں ہے۔ تیکھے موضوعات کی ویڈیو آن ایئر ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر تعلیم یافتہ طبقہ انتظامی ڈھانچے کی تباہی دیکھ کر افسردہ ہے کوئی سابق وفاقی وزیر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں نے اپنی وزارت میں تزئین و آرائش کے عہد ساز کام کروائے ہیں، کراچی سے لے کر خیبر تک لاقانونیت کی ویڈیوز منظر عام پر آتی رہیں مگر مجال ہے کہ اپوزیشن کے کسی لیڈر نے یا حکومتی وزیر نے کبھی زبان کا تالا کھولا ہو، یہ کسی المیے سے کم نہیں۔ لوگ اپنی وزارتیں چھوڑ کر غیر متعلقہ بیان دیتے رہے اور اس کا جواب اپوزیشن بھرپور انداز میں دیتی رہی۔

عجیب دنگل کا منظر برپا رہا، قوم حواس باختہ ہو کر یہ منظر دیکھتی رہی، کسی وزیر یا اپوزیشن سے وابستہ لیڈر نے قوم کے مسائل کی کبھی بات نہیں کی، قوم اس کی گواہ ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے وفاقی وزرا قوم کو صبر کا دامن تھامنے کی تلقین کرتے رہے کہ جرمنی، اسپین، ڈنمارک کی مثالیں دیتے رہے کہ مہنگائی تو ان ممالک میں بھی ہے کیا وہاں ڈاکو بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتے ہیں۔

وہاں خواتین کے منہ پر تھپڑ مار کر پریس چھپنے جاتے ہیں؟سوچیں جس خاتون کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی ہوگی اس کے خاندان پر کیا گزری ہوگی، وہ بھی تو کسی کی ماں، بہن، بیٹی تھی یہ ویڈیو انٹرنیٹ پروائرل ہوتی رہیں، مری میں جو کچھ ہوا کیا کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ ادارے تباہی کے کنارے لگ چکے، وفاقی وزرا نے اپنے ماتحت اداروں پر توجہ کیوں نہیں دی؟ صورتحال ابتر رہی مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی، قوم کا مستقبل تو کیا بتاتے انھیں اپنے مستقبل کی فکر رہتی ہے کوئی واقعہ ہو جائے تو اعلیٰ سطح کا اجلاس بلا لیا جاتا ہے پھر کیا ہوا؟ اس اجلاس کا کچھ پتا نہیں۔ ا

ب یہ اجلاس بھی فیشن کے زمرے میں آتے ہیں تدارک نظر نہیں آتا۔ حرمت قلم تو یہ ہے کہ قوم کو آگاہ کیا جائے اور ہم جیسے صحافی اور کیا کر سکتے ہیں سوائے اس کے سامنے بین بجاتے رہیں۔ بجلی مہنگی، گیس مہنگی، دودھ مہنگا مگر پرائس کنٹرول والے آرام سے بیٹھے ہیں، یہ بھی تو ایک ادارہ ہے، اپوزیشن ہو یا حکومت قدم قدم پر ایک جملہ سننے کو ملتا ہے کہ آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ہر مقام پر آپ کو یہ جملہ سننے کو ملے گا آئین پاکستان میں قوم کو کیا سہولتیں حاصل ہیں، اس کا 4 فیصد بھی قوم کو نہیں دیا جا رہا۔

ہر سیاسی شخصیت اپنی اور اپنی سہولتوں کا چراغ جلائے بیٹھی ہے، سابق وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ ہماری کاوشوں سے عوام کو شعور ملا ہے، اس شعور سے تو قوم کو وہ شعور ملا ہے رہے نام سائیں کا اور دیکھیے آنے والے الیکشن میں یہ باشعور قوم کتنے شعور کا ثبوت دیتی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ماضی میں اور حال میں ایسے بیانات مسائل حل کیے بغیر دیے گئے، حکومتی اور اپوزیشن کی طرف سے کہ یہ قوم روحانی طور پر آنکھ اشک بار لیے خاموش ہے ایک ہفتہ قبل ایک گیت سیاسی طور آن ایئر ہوا، جو کئی ہفتوں تک قوم کے ذہنوں میں اداس رنگ لیے گونجتا رہا، ’’ہمارے ووٹ اتنے ہیں۔

تمہارے ووٹ اتنے ہیں‘‘ اور سیاسی حضرات دنیائے موسیقی کا عظیم نقصان کرتے رہے، سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ حکومتی ارکان نے میرا قانون میری مرضی کا نعرہ لگایا اس نعرے کو ہم نہیں مانتے، ماضی میں جب یہ نعرہ اسلام آباد میں خواتین نے لگایا تھا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تو سب چپ تھے کسی نے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاسی طور پر مذمت نہیں کی، اچھا ہوا مذمت نہیں کی آج تھوڑا سا تبدیل ہو کر آپ سب کے کام آ رہا ہے، حکومتی ارکان اور اپوزیشن ایک ہی شعر پر گزارا کر رہے ہیں اور عوام سے کہتے ہوئے:

کیا پوچھتے ہو دوست میری زندگی کا حال

شیرازہ حیات پریشان آج کل

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔