عمران خان اپنی باری کا انتظار کریں

حافظ خرم رشید  ہفتہ 9 اپريل 2022
عمران خان اور ان کے کارکنان میں سوگ کا عالم ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان اور ان کے کارکنان میں سوگ کا عالم ہے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ روز کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی عوام ایک نقطے پر منتق نہ ہوسکے۔ پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے حسب روایت سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی مچا رکھا ہے۔ چند دن قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکا سے تعلقات پر ایک بیان دیا تھا جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور گزشتہ رات بھی عدالت عظمیٰ کے ججز کو بکاؤ، عدالت کو طوائف اور اس کے ترازو میں ٹینڈے تولنے کے مشورے دیے جاتے رہے۔ عمران خان نے جس سیاست کا بیج نوجوانوں میں بویا تھا ظاہر ہے وہی ان کے کارکنان کے کردار اور زبان میں جھلک رہا ہے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب جو ہے پارلیمنٹ میں آئین شکنی کا۔ تو جناب سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے 5 رکنی بینچ نے، جس میں سینئر ججز تھے، انہوں نے بتادیا کہ آئین شکنی تو ہوئی ہے۔ اب تحریک انصاف کے کارکنان شاید ججز سے زیادہ علم اور قانون جانتے ہیں، ہر شخص اپنی اپنی رائے دینے میں لگا ہوا ہے۔ اگر اس فیصلے سے ہٹ کر عوامی بات کی جائے تو پاکستان میں ہمیشہ اسمبلیاں تحلیل کرنے پر احتجاج تو ہوا ہے، مارشل لا کے خلاف بھی تو احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ پھر جس کی حکومت ختم ہورہی ہو اسے واپس اسمبلی میں بھیجا جارہا ہو تو اس کا ردعمل تو خوشیوں بھرا ہونا چاہیے لیکن نہیں عمران خان اور ان کے کارکنان میں تو سوگ کا عالم ہے اور وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر طعن و تشنیع میں جتے ہوئے ہیں۔

اگر اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو دیکھا جائے تو وزیراعظم اپنے ارکان کی اکثریت کے بل بوتے پر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور فیصلے جاری کرتا ہے، جب کہ 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو حالات واضح تھے اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے پاس تو اپوزیشن والے بھی اعداد نہیں ہیں۔ اگر وزیراعظم اپنی عددی اکثریت کھو بیٹھے تھے تو پھر وہ اس کے اہل ہی نہیں تھے کہ وہ اسمبلیاں توڑ سکیں۔ کیا 342 کے ایوان میں صرف ایک وزیراعظم کی اسمبلی ہے جو وہ جب چاہے اسے توڑ کر انتخابات کی تیاریاں شروع کروادے۔ اور جس خط کو بنیاد بنا کر اپوزیشن کو غدار قرار دے، اسی غدار کو نگران وزیراعظم و عبوری حکومت کے لئے مشاورت کا حصہ بنا لے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کو آپ غدار بھی کہیں اور پھر اس سے یہ امید بھی رکھیں کہ وہ آپ کی مشاورت کا حصہ بنے گا۔

اب آتے ہیں عوام میں جانے کے دعوے کرنے والے وزیراعظم کی عجیب منطق پر، کیوں کہ اگر آپ نے واقعی عوام میں جانا تھا تو صاحب بہادر آپ سب سے پہلے اپنی خیبرپختونخوا اسمبلی توڑتے جہاں آپ اکثریت سے حکومت میں ہیں۔ آپ پنجاب اسبمبلی توڑتے، جہاں اسپیکر، وزیراعلیٰ اور اتحادی سب آپ کے تھے اور آپ کی حکومت تھی۔ لیکن آپ کے اقدام سے تو امریکی سازش صرف قومی اسمبلی کے خلاف ہی نظر آتی ہے، باقی سب تو ٹھیک ہے والا معاملہ تھا۔ دراصل آپ نے اپنی انا کی خاطر اور پی ڈی ایم کو حکومت نہ ملے اس لیے آئین کو پاؤں تلے روندا، یہی حقیقت ہے۔

اب آپ عوام میں جانا چاہتے ہیں تو خوشی سے جائیے، لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کس بنیاد پر عوام میں جائیں گے اور کیا کہیں گے کہ مجھے ووٹ کیوں دیا جائے؟ چار سال میں آپ نے کون سا کمال کیا جس پر عوام آپ کا ماتھا چومے اور دوسروں کو مسترد کردے؟ آپ نے تو دعویٰ کیا تھا کہ میں نے 200 افراد کی ٹیم بنا رکھی ہے جو حکومت میں آتے ہی وہ جادو کرے گی کہ پاکستان دنیا کا سب سے پاک ملک ہوگا، کرپٹ سیاستدان اور بیوروکریٹ جیلوں میں ہوں گے، عافیہ صدیقی کو امریکا سے چھین کر لے آئیں گے، روزگار تو ایک کروڑ افراد کو ملے گا ہی بلکہ یہ سلسلہ دیگر ممالک تک پھیلے گا اور انگریز پاکستان میں نوکریاں لینے آئیں گے، ہر خاندان اپنے ذاتی گھر میں رہے گا، لوٹے تو دور دور تک کابینہ میں نہیں ہوں گے، کیوں کہ لوٹے سیاستدان تو اپنا ضمیر بیچتے ہیں اور جہاں حکومت دیکھتے ہیں وہاں لڑھک جاتے ہیں، کشمیر تو سمجھیں آزاد ہو ہی گیا، امریکا تو ہمارے قدموں میں ہوگا، ہر طرف دودھ کی نہریں اور سڑکیں فرانس کا ریکارڈ توڑ دیں گی، جنگلہ بس تو بنانا ہی نہیں ہے۔

یہ سب دعوے آپ نے 23 سال عوام کے ساتھ کیے اور جب طویل جدوجہد کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا تو آپ کی کابینہ میں ہر وزارت پر لوٹے ہی نظر آئے۔ 200 ماہرین کی ٹیم کا تو دور دور تک نام ہی نہ تھا۔ آپ نے اتحادی جماعتوں کے سہارے حکومت کو ساڑھے 3 سال تک گھسیٹا اور جب یہ بے ساکھیاں ہٹیں تو آپ ڈٹ کر کھڑے رہنے کے بجائے تحریک عدم اعتماد کا سامنا بھی نہ کرپائے۔ آپ اس وقت پوری طرح تنہا کھڑے ہیں۔ آپ کے ساتھ وہ بھی نہیں جو اتحادی ہوسکتے تھے۔ اپنے بھی ایک ایک کرکے چھوڑ گئے، اور اگر آپ نے اسمبلی تحلیل کرنے والی غلطی کی طرح استعفوں والی غلطی کی تو شاید مزید ساتھی بھی ساتھ چھوڑ جائیں، اور آپ کو تنہا ہی ضمنی انتخابات میں جانا پڑے۔

ضروری نہیں کہ انسان تب ہی تنہا ہو جب وہ حق پر ہو بلکہ اکثر انسان تب بھی تنہا ہوتا ہے جب اس کی زبان تلخ اور کھردری ہو، اسے دوست بنانا اور سنبھالنا نہ آتے ہوں، وہ اپنی انا کے خول میں بند ہو کر دوستوں کو بھی دشمن بنالے۔ وہ ’’ہم، ہمارا، ہمیں“ کے بجائے ”میں، میرا اور مجھے“ سوچنے لگے۔ اتنی طویل مشقت کے بعد صرف ساڑھے 3 سال میں اپنی جمع پونجی لٹا دی؟ اتنا کم وقت لگا، آپ کے مشیر و وزرا کسی سے بات کرنا گوارا نہیں سمجھتے۔ آپ کو چھوڑ کر جانے والوں کا سب بڑا شکوہ یہی ہے کہ آپ نے بھی ان سے ملنا گوارا نہیں کیا۔ آپ جن منحرف ارکان کے حلقوں میں جائیں گے تو وہاں کے عوام کو کیا بتائیں گے کہ یہ ارکان غلط تھے، اب نئے والے کو ووٹ دو؟ کیا منحرف ارکان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی جو آپ کے نام پر ووٹ لے کر اسمبلیوں تک آگئے؟ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ایسے لوگوں کو ٹکٹ کیوں دیے گئے؟ آپ نے کئی حلقوں میں اپنوں کو نظرانداز کیا اور غیروں کو ٹکٹ سے نوازا، اور اپنی کابینہ میں بھی اپنے پیچھے اور ماضی میں متعدد وزارتوں کے مزے لینے والے ایک بار پھر وزارتوں سے چمٹے نظر آئے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہر حکومت میں اپنے لیڈر کے گیت گاتے نظر آئے، لیکن فرق یہ ہے کہ آپ نے ان کے مشوروں پر من و عن عمل کیا جب کہ دیگر نے انہیں ان کی حیثیت کے مطابق رکھا۔

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ امریکا مخالف بیانیہ لے کر عوام میں جائیں گے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ کیونکہ اگر عوام نے ’’امریکا کا جو یار ہے، غدار ہے‘‘ کے نعرے پر ووٹ دینے ہوتے تو بچپن سے کراچی کی گلیوں میں جماعت اسلامی کی جانب سے یہ نعرے سنتے آرہے ہیں۔ تو کیا اس بیانیے پر عوام انھیں ووٹ دینا شروع کردے۔

اب آجایئے پنجاب اسمبلی کی طرف، جس میں چوہدریوں کی صرف 3 سیٹوں کےلیے آپ نے اپنے چہیتے عثمان بزدار کو قربان کردیا۔ آپ نے گورنر چوہدری سرور کو ہٹادیا، اور تو اور اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد لے آئے۔ اب بتائیں کہ ڈپٹی اسپیکر اگر کسی تحریک کو مسترد کرسکتا ہے تو پنجاب کا ڈپٹی اسپیکر سپریم کورٹ کے حکم پر اجلاس کیوں نہیں بلاسکتا؟

پنجاب میں واضح طور پر تحریک انصاف ہار چکی ہے۔ چوہدری جتنے بھی ہوشیار ہوں لیکن آپ کی کارکردگی، اپنوں سے بیگانگی، غیروں پر کرم، اور پھر مہنگائی، بے روزگاری، آپ کے روز روز کے دعوے اور پھر ان پر یوٹرن یہ سب عوام میں جانے کےلیے کافی نہیں۔

اللہ نے موقع دیا تھا، آپ اپنی تقریروں میں ماضی کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے عوام کی ترقی و فلاح کےلیے کیے گئے اقدامات کی تفصیلات بتاتے۔ لیکن آپ نے اپنے ہر بیان میں فرض سمجھ لیا تھا کہ آپ نے زرداری، شہباز، نواز اور مولانا کا نام ضرور لینا ہے، اور کہنا ہے ان کو چھوڑوں گا نہیں۔ ساڑھے 3 سال میں آپ نے ان کو پکڑا بھی نہیں، اب 6 ماہ یا ایک سال میں آپ کون سے کیس کی بنیاد پر ان کو جیلوں میں بند کرتے؟ فرانس کے سفیر کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے یورپ کے ناراض ہونے کے نقصانات گنوانا شروع کردیے، اور جب اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو امریکا نے سازش کرکے آپ کے اپنے ہاتھوں قومی اسمبلی تحلیل کروا دی۔

عمران خان صاحب اب وقت گزر گیا، عوام میں جانے کےلیے صرف بیانیہ نہیں بلکہ کارکردگی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کے پاس صفر ہے۔ اب آپ مزید جدوجہد کیجئے اور اپنی باری کا انتظار کیجئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حافظ خرم رشید

حافظ خرم رشید

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔ ایک نجی چینل پر ریسرچر اور اسکرپٹ رائٹر رہے ہیں۔ اس وقت ایکسپریس نیوز میں بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔