روس کیوں یوکرین پر حملہ آور ہوا؟

سید عاصم محمود  اتوار 10 اپريل 2022
 دو عالمی قوتوں کے مابین جنم لیتی نئی سرد جنگ کی تاریخی، معاشی،مذہبی و تہذیبی بنیادوں کا چشم کشا تذکرہ ۔ فوٹو : فائل

 دو عالمی قوتوں کے مابین جنم لیتی نئی سرد جنگ کی تاریخی، معاشی،مذہبی و تہذیبی بنیادوں کا چشم کشا تذکرہ ۔ فوٹو : فائل

24 فروری 2022 ء کو روسی فوج نے یوکرین پہ دھاوا بولا تو بظاہر وجہ یہ تھی کہ ممالک ِمغرب (West)کا عسکری اتحاد، نیٹو روس کے دوارے آ پہنچا تھا۔

روسی حکمران طبقے کے نزدیک یہ راہ اپنا کر مغربی ممالک نے روس کو دھوکا دیا اور وعدہ خلافی کے مرتکب ہوئے۔روسی صدر ولادیمر پوٹن کا دعوی ہے، 1991ء میں سویت یونین کے خاتمے پر امریکا و یورپی ملکوں نے روس کو یقین دلایا تھا کہ مشرقی یورپ کے ممالک نیٹو میں شامل نہیں ہوں گے۔مگر بعد ازاں مغرب نے روس کا گھیراؤ کرنے کی خاطر مشرقی یورپ کے تقریباً سبھی ملکوں کو نیٹو کا رکن بنا لیا۔

حالات دیکھے جائیں تو اس دلیل میں وزن ہے۔تاہم تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ صدر پوٹن کو مغربی سیاسی نظریات اپنے در پہ پہنچنے سے اپنی حکومت خطرے میں نظر آنے لگی ۔روس میں ویسے تو جمہوریت مروج ہے مگر حقیقت میں یک جماعتی سیاسی نظام کام کر رہا ہے۔طاقت کا سرچشم صدر پوٹن بن چکے جنھیں ایک لحاظ سے آمر کہا جا سکتا ہے۔

افسر شاہی اور فوج سے لے کر میڈیا تک، حکومت کا ہر شعبہ ان کے قبضے میں ہے۔لہذا مغرب کے جمہوری اور فرد کی آزادی کے قائل نظریے انھیں زیادہ نہیں بھاتے۔دیگر معاشی، تزویراتی اور سیاسی وجوہ کے علاوہ یہ نظریاتی یلغار روکنے کے لیے بھی پوٹن کو یوکرین پہ حملہ کرنا پڑا۔

حلقہ اثر کی تگ ودو

اصل لڑائی روس اور مغرب کے درمیان ہے، یوکرینی عوام بیچارے تو ان دو طاقتوں کے درمیان میں آ کر پس گئے۔اگرچہ روسی حکمران یوکرینی خواص و عوام کو بھی قصوروار ٹھہراتے ہیں کہ انھوں نے روس کو تج کر مغرب سے دوستی کر لی۔

یہ اتحاد روسی حکمران طبقے کو قطعاً منظور نہ تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ یوکرین نیٹو یا یورپی یونین کا رکن بن جائے۔روسی یوکرین کو اپنی طفیلی ریاست سمجھتے ہیں۔بلکہ ان کے نزدیک وہ روس کے حلقہ اثر(sphere of influence)کا ناگزیر حصّہ ہے۔یوکرین بہ لحاظ رقبہ یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔پھر قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہے۔یہ دونوں خصوصیات بھی روسیوں کی نگاہ میں یوکرین کو بہت اہم بنا دیتی ہیں۔

روسی قوم اور مغربی اقوام کے مابین مذہبی، عسکری اور سیاسی تصادم پچھلے ایک ہزار سال سے چلا آ رہا ہے، یہ جدید دور کی پیداوار نہیں۔ان دونوں قوتوں نے جدید اسلحہ بنا کر طاقت پائی، اسی لیے وہ اپنے معاملات میدان جنگ میں طے کرتی ہیں یا پھر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے سے!پھر دونوں قوتوں میں ’’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘‘بہت بارسوخ اور طاقتور ہے۔

اس شعبے سے لاکھوں مردوزن کا روزگار وابستہ ہے۔لہذا یہ کمپلیکس زیادہ سے زیادہ جنگیں چاہتے ہیں تاکہ ان کا انجن رواں رہے۔مثلاً یہ دیکھیے کہ حالیہ روس و یوکرین جنگ نے کئی امریکی، یورپی اور روسی اسلحہ ساز کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچا دیا۔ان مغربی و روسی کمپنیوں کا کاروبار امن، محبت،رحم ،بھائی چارے نہیں جنگ، نفرت اور ظلم سے پھلتا پھولتا ہے…پھر بھی مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘کہا جاتا ہے۔

ایک ہی ماں جائے

حیرت انگیز بات یہ کہ روسی اور یوکرینی اقوام، دونوں کے جد ایک ہی قبائل ہیں۔یہ قبائل ہزاروں سال پہلے روس ویوکرین کے علاقوں میں بستے تھے۔انہی قبائل کی اولادوں نے دنیا والوں کو ’’ہند یورپی زبانیں ‘‘دیں جو زبانوں کا سب سے بڑا خاندان ہے۔روسی و یوکرینی کے علاوہ ہماری اردو بھی اس خاندان کا حصہ ہے۔انہی قبائل نے سب سے پہلے گھوڑے پالے اور زمین میں گندم اگائی۔ پانچویں صدی میں روس ویوکرین کی قبائلی آبادی سے ’’سلاو‘‘(Slavs)قوم نمودار ہوئی ۔

رفتہ رفتہ اس قوم کے افراد روس، یوکرین اور پورے مشرقی یورپ میں پھیل گئے۔ آج اس قوم کے تین بڑے گروہ ہیں: مشرقی سلاو (روس، یوکرین، بیلاروس)، مغربی سلاو (پولینڈ، چیک جمہوریہ،سلواکیہ جمہوریہ)اور جنوبی سلاو (سربیا، بلغاریہ، کروشیا، بوسنیا، مقدونیہ، سلوانیا،مونٹی نیگرو)۔سلاو نے 879ء میں ایک طاقتور ریاست،کیویائی روس کی بنیاد رکھی جو موجودہ روس اور یوکرین کے بڑے حصے پہ پھیلی ہوئی تھی۔

کیویائی روس کا پہلا دارالحکومت موجودہ روسی شہر، ویلیکی نووگورودتھا مگر جلد ہی یوکرین کا موجودہ کیپٹل، کیف اس کا دارالحکومت بن گیا۔تب ریاست کے حکمران غیر عیسائی تھے۔اس لیے تجارتی لحاظ سے اہم مقامات کے حصول کی خاطر ان کی عیسائی بازنطینی و رومی سلطنتوں سے کئی لڑائیاں ہوئیں۔988 ء میں ریاستی حکمران، ولادیمر اول نے آرتھوڈوکس عیسائیت قبول کر لی جو عیسائیوںکا ایک فرقہ ہے۔

اس کو کریمیا جزیرہ نما میں بپتسمہ دیا گیا۔اسی لیے روسی قوم کریمیا کو اپنا مذہبی گڑھ سمجھتی ہے۔روسی صدر پوٹن کا کہنا ہے:’’تب سے روسی اور یوکرینی ایک قوم بن گئے۔‘‘لیکن یوکرینی باشندوں کی اکثریت روسی حکمران طبقے کا یہ دعوی قبول نہیں کرتی۔ان کا کہنا ہے کہ یوکرین زبان، تہذیب، ثقافت اور روایات کے لحاظ سے ایک علیحدہ خطہ ہے۔

پولشوں و رسیوں کے غلام

کیویائی روس اپنے دور عروج میں یورپ کی سب سے بڑی ریاست بن گئی تھی۔ 1227 ء تا 1240 ء کے عرصے میں منگولوں نے اسے تباہ کر دیا۔اس کے بعد روس اور یوکرین کی تاریخ کئی صدیوں کے لیے جدا ہو گئی۔یوکرین کے علاقے میں روتھرینا نامی ریاست وجود میں آئی۔اسی ریاست کی زبان نے آگے چل کر یوکرینی کا روپ دھار لیا۔بارہویں صدی میں پولینڈ و لیتھونیا نے یوکرین پہ دھاوا بول دیا۔

1390 ء تک علاقہ دونوں ممالک کے مابین تقسیم ہو گیا۔یوں یوکرینی پولش و لیتھونیائی اقوام کے غلام بن گئے۔اُدھر روس میں ایک نئی ریاست، ماسکووی روس(Grand Duchy of Moscow)کا ظہور ہوا۔یہی ریاست بتدریج وسعت پا کر روسی سلطنت کا روپ دھار گئی۔

بارہویں صدی کے بعد روسیوں کا پولینڈ، لیتھونیا، سویڈن، ترکی اور ایران سے وقتاً فوقتاً ٹاکرا ہوتا رہا۔کبھی روسی جیت جاتے تو کبھی ہار ان کا مقدر بنتی۔ 1688ء میں روس نے مشرقی و جنوبی یوکرین پہ قبضہ کر لیا۔ایک سو سال بعد مغربی یوکرین کا بھی بڑا حصہ روس میں شامل ہو گیا۔یوکرین میں آباد روسیوں کو چھوڑ کر یوکرینی عوام کی بڑی تعداد روسی حکمرانوں کو ناپسند کرتی تھی۔

روسی مگر عسکری لحاظ سے طاقت ور تھے، اس باعث انھیں مجبورا روس کی حکومت قبول کرنا پڑی۔روسی حکمران طبقہ یوکرینی قوم کو روسی قوم کی شاخ سمجھتا تھا۔اسی لیے وہ یوکرین کو ’’لٹل روس‘‘یا ’’چھوٹا روس‘‘ کہنے لگا۔

اس کو یہ گوارا نہ تھا کہ وہاں یوکرینی زبان اور تہذیب وثقافت نشوونما پائے کیونکہ اس طرح یوکرین کے عوام اپنی علحیدہ شناخت ہونے کا دعوی کر سکتے تھے۔اسی لیے روسی حکومت نے خاص کوششیں کیں کہ یوکرین میں روسی زبان، تہذیب،ثقافت اور رسوم ورواج کو پھیلا دیا جائے۔گویا روسی حکمران یوکرینی عوام کو زبردستی روسی بنانے پہ تل گئے۔اس عمل کو اصطلاح میں ’’رسفیکیشن‘‘(Russification)کا نام ملا۔

یوکرینی زبان و تمدن پہ روسی یلغار

رسفیکیشن کی باقاعدہ ابتدا 1700ء کے بعد ہوئی جب زار روس، پیٹر اعظم نے حکم دیا کہ مشرقی یوکرین میں سرکاری خط کتابت میں روسی رسم الخط استعمال کیا جائے۔اس نے یوکرینی زبان میں کتابیں و رسائل چھاپنے پر پابندی لگا دی۔

آنے والے روسی حکمرانوں نے یوکرین میں رسفیکیشن کی پالیسی جاری رکھی۔جب مغربی یوکرین بھی روس کا حصہ بن گیا تو ملکہ کیتھرین روس کی حاکم تھی۔ملکہ نے اس موقع پہ ایک یادگاری تمغہ تیار کرایا۔اس تمغے پہ تحریر تھا:’’ہم نے اسے جوڑ دیا جسے توڑ لیا گیا تھا۔‘‘ مطلب یہ کہ منگولوں نے روسیوں اور یوکرینیوں کو جدا کر دیا تھا مگر اب ان کا پھر ملاپ ہو گیا۔پولینڈ کے دور حکمرانی میں لاکھوں یوکرینی کیھولک عیسائی بن گئے تھے۔

ملکہ کیھترین نے زبردستی انھیں آرتھوڈوکس عیسائی بننے پہ مجبور کر دیا۔ملکہ کے حکم پہ ہزارہا آرتھوڈوکس گرجا گھر ڈھا دئیے گئے۔روسی حکمرانوں نے پھر بھرپور کوشش کی کہ روسی یوکرین میں عوام وخواص کی زبان(لینگوا فرینکا)بن جائے۔ انھیں نے زرخرید مورخین سے ایسی کتب ِتاریخ لکھوائیں جن میں دعوی کیا گیا کہ روس اور یوکرین کی تاریخ مشترک ہے …اور یہ کہ تاریخی طور پہ یوکرین کا علاقہ روسی سلطنت کا حصہ رہا ہے۔

غرض روسی حکمران طبقے کی مسلسل 1991 ء تک سعی رہی کہ یوکرین میں مقامی زبان وتہذیب پنپنے نہ پائے اور یوکرینی روسی زبان وتہذیب کو قبول کر لیں۔اسے جزوی کامیابی نصیب ہوئی۔شہروں میں تو طبقہ اعلی نے اقتدار سے جڑے رہنے کی خاطر روسی تہذیب وتمدن کو اپنا لیا۔انتظامیہ میں شامل یوکرینی بھی حاکموں کے رنگ میں رنگے گئے۔مگر دیہات میں انتظامیہ اور عوام ،دونوں یوکرینی تھے۔

اس لیے وہاں روسی زبان وتہذیب راسخ نہ ہو سکی۔البتہ روسی زبان ضرور عوامی بولی بن گئی۔وجہ یہی کہ سرکار سے کام کرانے کے لیے ضروری تھا کہ عوام روسی زبان سے واقف ہو جائیں۔پھر یوکرینی تعلیمی اداروں میں بھی روسی پڑھائی جاتی تھی تاکہ یوکرینی نئی نسل اس سے آگاہ ہو سکے۔

تحریک آزادی کا آغاز

ہندوستان پہ انگریز قابض ہوئے تو انھوں نے بھی مقامی آبادی کو مغربی بنا دینے کے لیے متفرق تعلیمی ،لسانی و ثقافتی کوششیں کی تھیں۔تب مسلمانوں میں سب سے پہلے ادیب وشاعروں نے مسلم قومیت کا علم بلند کیا۔وہ یہ نظریہ سامنے لائے کہ مسلمانان ِہند کو اپنا آزاد وخودمختار دیس تشکیل دینا چاہیے۔ان ادباوشعرا میں سر سید، مولانا عبدالحلیم شرر، مولانا حسرت موہانی، محمد علی جوہر اور علامہ اقبال نمایاں ہیں۔

اسی طرح یوکرین میں بھی پہلے پہل ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یوکرینی ایک قوم ہیں جو روسی قوم سے مختلف زبان، تہذیب،ثقافت اور تمدن رکھتے ہیں۔لہذا انھیں روس کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنا الگ وطن بنا لینا چاہیے۔ اس نظریے کا پہلا بڑا پرچارک شاعر ومصّور، تاراس شوچنکو (Taras Shevchenko) تھا۔ شوچنکو ایک روسی جاگیردار کے غلام (Serf) والدین کا بیٹا تھا۔ غربت کے عالم میں اپنے شوق کی بدولت تعلیم پائی۔

شعور پا کر شاعری کرنے اور تصاویر بنانے لگا۔اس نے یوکرینی لوک ادب کو نئی زندگی بخشی۔عوام میں یوکرینی کلچر کے لیے الفت کے جذبات ابھارے۔وہ یوکرین کو آزاد دیس کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا۔اشعار میں روسی حکمران طبقے کا مذاق اڑایا۔اس باعث حکومت نے اسے جلاوطن کر دیا۔وہ مصائب سہتے جوانی ہی میں چل بسا۔تاہم اپنی شاعری سے اس نے یوکرینی عوام میں حریت پسندی کی تڑپ پیدا کر دی۔ وہ صدیوں سے پولش اور روسی حکمرانوں کا ظلم وستم سہتے چلے آ رہے تھے۔

جیساکہ بتایا گیا، روسی حکمرانوں کی سوچ یہ تھی کہ یوکرینی روسی قوم کا حصہ ہیں جنھیں منگول حملے نے جدا کر دیا۔لہذا اب ایسے اقدمات ہونے چاہیںکہ یوکرینی دوبارہ ہر لحاظ سے روسیوں میں جذب ہو جائیں۔اسی لیے روسی حکومت نے بھرپور کوشش کی کہ یوکرینی زبان وادب نشوونما نہ پا سکے۔عام تعلیم بھی روسی میں دی جانے لگی۔مگر دیہی آبادی نے اپنی تہذیب وثقافت و زبان کو زندہ رکھا۔شہروں میں بھی ادیب وشاعر و تعلیم یافتہ اپنی زبان وادب کے پشتی بان بن گئے۔

انیسویں صدی سے قوم پرست یوکرینی رہنما شہروں میں خفیہ تنظیمیں تشکیل دینے لگے۔مقصد یہ تھا کہ عوام کو روسی حکومت کے خلاف ابھارا جا سکے۔مگر روسی خفیہ اداروں کو جیسے ہی ان تنظیموں کا پتا چلتا، وہ ان پہ کریک ڈاؤن کر دیتے۔تنظیموں کے اکثر ارکان مارے جاتے۔

روس کے رسفیکیشن عمل کو صرف مشرقی یوکرین میں کامیابی ملی کیونکہ یہ علاقہ ایک سو سال پہلے روسی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا۔وہاں آباد یوکرینی نہ صرف روسی زبان بولنے لگے بلکہ انھوں نے روسیوں کے رسم ورواج بھی اختیار کر لیے۔مغربی و شمالی یوکرین میں رسفیکیشن عمل کامیاب نہیں ہو سکا۔بلکہ وہاں روسی حکومت کے ظلم وستم کی وجہ سے روسی قوم کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو گیا۔

انیسویں صدی سے پورے یورپ میں انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادیِ فرد کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔ہر ملک میں عوام فلاحی حکومت تشیکل دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔جو اقوام استعماری قوتوں کی غلام تھیں، وہاں آزادی کی تحریکیں چل پڑیں۔

اسی رو کے زیراثر یوکرین میں بھی ایک نئی سیاسی جماعت، انقلابی یوکرین پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔اس نے 1900 ء میں اعلان کیا کہ وہ آزاد وخودمختار یوکرین مملکت قائم کرنے کی خاطر سیاسی جدوجہد کرے گی۔اسی دوران روس میں کمیونسٹوں کے عروج نے زارشاہی کو کمزور کر دیا۔جنگ عظیم اول روسی شہنشاہیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔

سویت یونین کا قبضہ

1917 ء سے روس کمیونسٹوں اور زار شاہی کے حامیوں کے مابین طویل خانہ جنگی کا نشانہ بن گیا۔صورت حال سے فائدہ اٹھا کر مختلف قوم پرست یوکرینی رہنماؤں نے اپنے اپنے علاقوں میں ریاستیں قائم کر لیں۔تاہم یوکرینی رہنما مل جل کر ایک مملکت تشکیل نہ دے سکے۔اپنے اپنے ذاتی مفادات پورے کرنے کے لیے وہ آپس میں لڑ پڑے۔جلد کمیونسٹ فوج یوکرین پہنچ گئی۔

وہ تعداد میں زیادہ تھی۔لہذا کچھ ہی عرصے میں یوکرین کے بڑے حصے پہ کمیونسٹوں نے قبضہ کر لیا۔یوکرینی خانہ جنگی کے دوران پڑوسی ممالک، پولینڈ، رومانیہ، چیک اور بلغاریہ یوکرین کے مختلف علاقوں پہ قابض ہو گئے۔یوں آپس میں لڑنے کی وجہ سے یوکرینی اپنی مملکت کا کثیر حصہ کھو بیٹھے۔یوکرین کے عوام کو امید تھی کہ کمیونسٹ زارشاہی سے مختلف ثابت ہوں گے۔وہ انھیں زیادہ آزادی عطا کریں گے تاہم ان کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔کمیونسٹ دور میں بھی یوکرینی حکومتی ظلم وستم کا شکار رہے۔ان کی زبان وادب اور رسومات کو پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

اسٹالن کے دور حکومت میں روسی یوکرین سے بیشتر اناج روس لے گئے۔اس وجہ سے لاکھوں یوکرینی بھوک کے باعث چل بسے۔کئی قصبے و دیہات ویران ہو گئے۔روسی حکومت یوکرین کے قدرتی وسائل لوٹ کر لے جاتی اور بدلے میں وہاں کے لوگوں کو معمولی سہولیات فراہم کرتی۔1939 ء میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہو گیا۔اس عظیم جنگ میں سویت (روسی)افواج کو کامیابیاں ملیں اور پولینڈ، رومانیہ، بلغاریہ وغیرہ نے یوکرین کے جو علاقے پہلی جنگ عظیم میں چھینے تھے، وہ یوکرینیوں کو واپس مل گئے۔

یہ واضح رہے، روسی قوم اور مغربی اقوام یعنی مغرب کے مابین تصادم کی اولیّں بنیادیں مذہبی تھیں۔وجہ یہی کہ روس میں آرتھوڈوکس عیسائیت مروج ہے ۔یہ فرقہ مغرب میں رائج کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی فرقوں سے مذہبی اختلافات رکھتا ہے۔بعد ازاں سیاسی وجوہ بھی ٹکراؤ کا سبب بن گئیں۔پولینڈ، سویڈن اور آسٹریا سے تو روسیوں کو پہلے ہی پُرخاش تھی، رفتہ رفتہ برطانیہ ،فرانس اور جرمنی بھی روس کے مخالف بن بیٹھے۔

پندرہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک ان یورپی طاقتوں کے درمیان کئی چھوٹی بڑی لڑائیاں ہوئیں۔ان میں سب سے اہم 1812 ء میں فرانسیسی حکمران، نپولین بونا پارٹ کا روس پہ حملہ تھا۔نپولین یورپ میں اپنی سپرمیسی قائم کرنا چاہتا تھا۔برطانیہ اس کی راہ میں مزاحم ہو گیا۔شروع میں روسی نپولین کے ساتھی تھے۔پھر وہ الگ ہو گئے۔اس علحیدگی پہ نپولین کو اتنا زیادہ غصّہ آیا کہ وہ روس پر چڑھ دوڑا۔مگر موسم سرماکی سختیوں نے فرانسیسی فوج کا کباڑا کر دیا۔یہ ناکام فوجی مہم نپولین کے زوال کا پیش خیمہ بن گئی۔

دوسری جنگ عظیم میں روس اور جرمنی ابتداً ساتھی تھے۔مگر جرمن حاکم، ایڈلف ہٹلر نے دل میں روس پہ دھاوا بولنے کی تمنا چھپا رکھی تھی۔خاص طور پہ وہ یوکرین پہ قبضہ چاہتا تھا تاکہ نازی جرمنی کو وافر اناج کی فراہمی ممکن ہو سکے۔

پھر ہٹلر اعلی و برتر آریہ جرمن قوم کے نشے میں روسیوں کو حقارت سے دیکھتا تھا۔چناں چہ جون 1941 ء میں ہٹلر نے اچانک روس پہ حملہ کر دیا۔مگر روس کے موسم سرما نے نپولین کی طرح ہٹلر کو بھی دن میں تارے دکھا دئیے اور جرمن فوج بری طرح پٹ گئی۔اسی ناکام عسکری مہم نے ہٹلر کو بھی زوال پذیر کر دیا۔

سرد جنگ

جنگ کے اختتام تک سویت افواج نے جوابی وار کرتے ہوئے آدھے جرمنی پہ قبضہ کر لیا۔بقیہ حصّے پہ مغرب کی نئی سپرپاور، امریکا قابض تھی۔یہ دونوں طاقتیں باہمی طور پہ معاملات طے نہیں کر سکیں اور ان کے درمیان مناقشہ شروع ہو ا۔جلد یورپ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔مشرقی یورپ کمیونسٹ روسیوں کے زیراثر آ گیا۔جبکہ مغربی یورپ میں نیٹو و امریکا کی اجارہ داری ہو گئی۔کمیونسٹ حکمرانوں کی بدانتظامی کے سبب 1991 ء میں سویت یونین کا خاتمہ ہوا۔

24 اگست 1991 ء کو آخرکار یوکرین آزاد مملکت بن گیا۔طویل عرصہ روسی و پولش اقوام کا غلام رہنے کے بعد یوکرینی آخر آزاد ہو ہی گئے۔روسی حکمران طبقے کا کہنا ہے کہ اس وقت مغرب نے سویت حکمران، گورباچوف سے وعدہ کیا تھا کہ نیٹو میں مشرقی ممالک شامل نہیں ہوں گے۔مگر محض دس سال بعد یہ وعدہ ٹوٹ گیا۔1999ء میں جمہوریہ چیک، ہنگری اور پولینڈ نیٹو رکن بن گئے۔پھر تو لائن لگ گئی۔’’وارسا پیکٹ‘‘میں شامل ملکوں میں اب صرف دو ملک، فن لینڈ اور بیلاروس نیٹو کے رکن نہیں۔نیٹو کے پھیلاؤ نے قدرتاً روسی حکمرانوں کو ناراض کر دیا۔

مغرب یا روس؟

اُدھر یوکرین آزاد تو ہو گیا مگر اکیسویں صدی کے اوائل تک وہاں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ہی حکومت کرتے رہے۔اس کے بعد وہاں سیاسی لیڈروں کے دو گروہ نمودار ہوئے۔ ایک گروہ روس سے قربت بڑھانے کا خواہش مند تھا۔ دوسرا گروہ مغرب سے معاشی ،معاشرتی اور سیاسی تعلقات بڑھانا چاہتا تھا۔ یوکرین میں 79 فیصد آبادی یوکرینی ہے۔ صرف 17.4 فیصد آبادی خود کو روسی النسل کہتی ہے۔

ان کی اکثریت مشرقی یوکرین میں بستی ہے۔یوکرینیوں کی اکثریت نے پہلے گروہ کو ترجیح دی، اسی لیے وہ زیادہ طاقتور ہو گیا۔پہلے گروہ کا قائد وکٹر یانوکویچ بن گیا۔ ۔جبکہ دوسرے گروہ کا نمایاں لیڈر وکٹر یوشچنکو تھا۔الیکشن 2004 ء میںوکٹر یوشچنکو نے مدمقابل پہ دھاندلی کا الزام لگایا۔ لہذا عوام نے اس کے حق میں مظاہرے کیے۔’’نارنجی انقلاب ‘‘برپا ہوا اور اقتدار وکٹر یوشچنکو کو مل گیا۔اس واقعے کے بعد روسی حکومت اور دونوں گروہوں کے مابین زبردست اعصابی لڑائی شروع ہو گئی۔روس یوکرین کو گیس فراہم کرتا ہے۔لہذا اپنے مطالبات منوانے کی خاطر روسیوں نے وقتاً فوقتاً گیس کو بطور ہتھیار بھی استعمال کیا۔

اس دوران مغربی ممالک یوکرین کو اپنے دائرہ ِاثر میں لانے کے لیے مغرب پسند گروہ کو ترغیبات ولارے دینے لگے۔یوکرینی عوام کو یہ سبز باغ دکھائے گئے کہ یورپی یونین و نیٹو کا حصہ بننے سے یوکرین میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔لہذا وہ مغرب کی گود میں جانے کا مطالبہ کرنے لگے۔جب صدر یانوکویچ نے یہ مطالبہ نہ مانا تو نومبر 2013 ء میں اس کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ی

انوکویچ بھاگ کر روس چلا گیا۔روس نے غصّے میں آ کر کریمیا پہ قبضہ کر لیا۔جبکہ مشرقی یوکرین میں روسی آبادی نے اپنی دو خومختار ریاستیں قائم کر لیں۔جلد یوکرینی فوج اور ان ریاستوں کے مابین لڑائی چھڑ گئی۔روس ریاستی افواج کو اسلحہ دینے لگا۔صورت حال سے واضح ہے، مغرب نے بھی یوکرین میں جنگ کی آگ بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔یانوکویچ کے بعد جتنے بھی یوکرینی حکمران آئے، وہ یوکرین کو مغرب اور نیٹو کے قریب لے گئے۔

اس طرزعمل نے روسی حکمران طبقے کو ناراض کر دیا۔وہ یوکرین کے قدرتی وسائل اپنی دسترس میں رکھنے کا متمنی ہے اور نہیں چاہتا کہ مغربی ممالک ان سے فائدہ اٹھائیں۔ پچھلے دو برس سے امریکا کوویڈ 19 کا نشانہ بنا رہا۔الیکشن 2020 ء میں باہمی لڑائیوں سے دنیا بھر میں اس کی بھد اڑی۔پھر افغانستان میں شکست سے امریکی افواج کا حوصلہ پست ہو گیا۔ان عوامل نے پوٹن کو اکسا دیا کہ وہ خصوصاً مشرقی وجنوبی یوکرین پہ حملہ کر کے انھیں روس سے نتھی کر دیں۔

اب روس اور مغرب کے مابین نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا۔اس نئے مجادلے میں چین، ایران، شمالی کوریا،کیوبا اوروینزویلا روس کے حمایتی بن سکتے ہیں۔ جبکہ مد مقابل اتحاد امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، کینیڈا، فرانس وغیرہ پہ مشتمل ہو گا۔ اس نئی جنگ میں دونوں اتحاد زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنی صف میں لانے کی سعی کریں گے۔ پاکستان کو سوچ سمجھ کر عمل کرنا ہو گا۔ ہماری زیادہ تجارت یورپ و امریکا سے ہے۔

لہذا کھلم کھلا چین وروس کے کیمپ میں جانے سے ہمیں معاشی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔بہترین پالیسی یہ ہو گی کہ غیرجانب دار رہا جائے۔حقائق سے عیاں ہے کہ مغرب ہو یا روس، دونوں اپنے مفادات کے پجاری ہیں۔انھوں نے عرصہ دراز سے عالم اسلام کو سازشوں اور لڑائیوں کا گڑھ بنا رکھا ہے۔یہ ضروری ہے کہ اسلامی ممالک اپنا طاقتور اتحاد تشکیل دیں جو اپنے جائز مفادات کا تحفظ کر سکے۔ورنہ دونوں گروہ اپنی تہذیب وثقافت عالم اسلام میں پھیلا کر ہمیں اپی تہذیب وتمدن سے محروم کر سکتے ہیں۔اسلامی اقدار کے زوال کا اہم سبب عالم اسلام میں اتحاد ویک جہتی کا فقدان اور مادہ پرستی پہ مبنی مغربی اقدار کا فروغ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔