معصوم اذہان پر شیطانی ابلاغی یلغار

علی فیصل عباسی  اتوار 10 اپريل 2022
بچوں کے انواع و اقسام کے متشدد وڈیو گیمز کی مارکیٹ میں بے تحاشا آمد اور ان کا دھڑا دھڑ بکنا ایک لمحہ فکریہ ہے

بچوں کے انواع و اقسام کے متشدد وڈیو گیمز کی مارکیٹ میں بے تحاشا آمد اور ان کا دھڑا دھڑ بکنا ایک لمحہ فکریہ ہے

کورونا وبا کی دنیا پر یلغار کے بعد اب سنتے ہیں کہ مزید کچھ اور برسوں تک مختلف اشکال (Variants) کی آمد بھی متوقع ہے۔

کورونا کے دوران اسکول، کالج اور دفاتر میں آن لائن کا رجحان بڑھتا گیا۔ بالخصوص بچوں کی تعلیم اور اسکول کے تدریسی عمل میں کئی بار وقتاً فوقتاً رکاوٹ رہی ہے جس کی وجہ کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ رہا ہے۔ کبھی اسکول کھلیں بھی تو کچھ دنوں بعد پھر تعلیمی اداروں کے بند ہونے کی خبریں سنائی دیتی رہیں۔

اس صورت حال میں ناصرف بچوں بالخصوص پرائمری اسکول جانے والوں کی تعلیم بل کہ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی صلاحیتوں پر بھی منفی اثرات پڑے ہیں۔ بچے ایک تسلسل میں صبح اٹھ کر ناشتہ وغیرہ کرکے اسکول روانہ ہوتے تھے اور اسکول میں ہلکی پھلکی ورزش اور پھر پڑھائی کرکے دوپہر کو جب واپس گھر آتے تھے تو ناصرف ان کی ذہنی، نفسیاتی بل کہ جسمانی اعمال و افعال انہیں متوازن و صحت مند رکھتے تھے۔

قدرتی طور پر ان مصروفیات سے ان کو بھوک بھی لگتی ہے اور جسم کا تمام نظام ہر طرح سے بہتر و متوازن رہتا ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے آئے دن اسکولوں کے بند ہونے سے بچوں کے معمولات زندگی مکمل طور پر بگڑ گئے ہیں۔ راتوں کو دیر تک جاگنا، صبح کو دیر تک سونا اب بچوں کا معمول بن گیا ہے۔ ناصرف سونے جاگنے کے معمولات بل کہ بچوں کا اپنی پڑھائی کو مناسب وقت دینا اور معاملات کو متوازن رکھنا مشکل تر ہوگیا ہے۔

اس کے علاوہ چھوٹے بچے جن کی عمریں اتنی ہیں کہ وہ ’’ویڈیو گیمز‘‘ وغیرہ کھیل سکتے ہیں ان کا ذہن پڑھائی پر مرکوز کرنے کے بہ جائے زیادہ تر ان ویڈیو گیمز پر صرف ہو رہا ہے۔ یہ ویڈیو گیمز ایک لت اور نشے کی طرح ہیں۔ بچہ اگر والدین سے ایک یا آدھے گھنٹے کھیلنے کا وعدہ کرتا ہے تو ڈیڑھ دو گھنٹے گزر جانے کا نہ اسے پتا چلتا ہے اور نہ ہی والدین اس پر توجہ دے پاتے ہیں اور اس کا نتیجہ وقت کے ضیاع اور ذہنی خلفشار کے اور کچھ نہیں نکل پاتا۔ بچوں کے انواع و اقسام اور ناموں کے یہ وڈیو گیمز کی مارکیٹ میں بے تحاشا آمد اور ان کا دھڑا دھڑ بکنا ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ان کھیلوں کو LED ٹی وی پر ڈیوائس کے ذریعے اور سی ڈیز پر کھیلا جاتا ہے۔ زیادہ تر کھیل جو پرائمری و سیکنڈری اسکول جانے والے بچے کھیل رہے ہیں وہ مسلح مقابلے، لڑائی، قتل و غارت، بندوقوں کے استعمال یا پھر دشمن کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کھیلوں کے علاوہ کرکٹ، فٹ بال یا پھر دوسرے کھیلوں اور دیومالائی انگریزی ہیروز مثلاً اسپائیڈر مین، سپر مین یا بیٹ مین کے کھیل بھی موجود ہیں اور بچے انھیں بھی کھیلتے ہیں لیکن اگر ایک تجزیاتی سروے کیا جائے تو یہ اندازہ ہوگا کہ زیادہ فروخت ہونے والے کھیل تشدد اور مار دھاڑ پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ اینڈرائیڈ اور اسمارٹ فون پر تو ان کھیلوں سے زیادہ خوف ناک و پرتشدد کھیل مثلاً پب جی (Pub G) اور فری فائر (Free Fire) جیسے کھیل تو ان معصوم ذہنوں کو بُری طرح سے متاثر کرکے انہیں مکمل طور پر دہشت گردانہ اور مجرمانہ ذہن میں بدل رہے ہیں۔

پب جی کھیل میں دیکھنے والے کو دوسرے لوگوں کو قتل کرکے مارنا ہوتا ہے پھر وہ دوسرے لیول پر پہنچتا ہے اور اس طرح کئی لیول پورے کرنے کے بعد اسے حقیقتاً ایسا (Task) ہدف دیا جاتا ہے کہ اسے حقیقی طور پر اپنی جان کو داؤ پر لگا کر خطرے میں ڈالنا ہوتا ہے چاہے اس کی موت ہی کیوں نہ واقع ہو جائے کچھ ممالک میں ’’پب جی‘‘ کھیل پر پابندی لگی ہے۔ اور اب وطن عزیز میں اس خونیں کھیل پر مکمل پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن (Free Fire) جیسے گیم موبائل پر دھڑا دھڑ آرہے ہوتے ہیں۔

اگر بچہ ایک گیم ڈاؤن لوڈ کرتا ہے تو کئی اور گیمز سسٹم خود دے دیتا ہے جن میں وہی فائرنگ، لوگوں کو راستے سے ہٹانا اور دہشت و تشدد کے مناظر کے علاوہ ایسے کردار بھی بچوں کے خام اذہان کو خراب کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت تخلیق کیے جا رہے ہیں جو بے حیائی، بے لباسی و بے ہودگی کا باعث ہیں۔ یعنی ان کچے اور معصوم ذہنوں کو باقاعدہ ایک پلاننگ اور منصوبے کے تحت تشدد، بے راہ روی اور انسانی جان کو قتل کردینے جیسے قبیح فعل کی طرف ان دیکھے اور (Slow Poison) والے انداز میں لے جایا جا رہا ہے اور ہمارے لیے یہ نہایت چونکانے دینے والی اور باعث تشویش بات ہے کہ ہماری قوم کے یہ نونہال جن کو آگے جاکر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہے ان کی کیا اور کس طور سے ذہن سازی ہو سکے گی کہ جہاں ان کے کچے ذہنوں میں یہ خرافات اس چھوٹی عمر میں ڈال دی جائیں گی۔

پب جی گیم کے بارے میں پرنٹ و سوشل میڈیا پر بے شمار خبریں آتی رہیں کہ کس طرح باہر ممالک میں چھوٹے بچوں نے آخر لیول میں جاکر چیلنج ملنے پر بالآخر اپنی جان کو خطرناک حالتوں میں ڈال دیا اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح ایک اور کھیل کچھ سالوں پہلے ’’بلو وہیل‘‘ (Blue Whale) کے نام سے آیا تھا جس پر دنیا بھر میں پابندی لگائی گئی کہ اس کھیل میں کئی بچے آخر میں اتنے زیادہ اثرات لے لیتے ہیں اور انھیں کچھ ایسا (Task) دیا گیا کہ بالآخر نفسیاتی، ذہنی دباؤ کی وجہ سے ان بچوں نے اپنا خاتمہ کرلیا۔

کیا یہ سب کھیل دجالی دور کے ہمارے گھروں تک آجانے اور ہم پر مکمل طور پر قابض ہو جانے کی طرف اشارہ نہیں کر رہے؟ دجال لفظ ’’دجل‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی دھوکا، فریب اور حقیقت کے بہ جائے سراب کی طرف جانا کے ہیں اور آج ہم جس پُرآشوب، نفسا نفسی اور پُرفریب دور میں جی رہے ہیں اور اپنے اردگرد پھیلے بے شمار مکر و فریب کا حصہ بن چکے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ بہ حیثیت والدین، اساتذہ، دانش ور، قلم کار اور حقیقت شناس ہونے کے اس شیطانی ابلاغی یلغار جو کہ معصوم اور کچے اذہان تباہ و برباد کرنے پر کمر بستہ ہے اس یلغار کا مقابلہ مثبت و مناسب و حکمت عملی کے تحت کریں۔ بالخصوص ہمارے سافٹ ویئر انجینئرز اور پروگرامر جن کی صلاحیتیں اور دماغ کسی طور سے کم نہیں وہ اس میدان میں آگے آئیں اور مذکورہ کھیلوں کی جگہ کچھ ایسے کھیل جو بچوں کی ذہنی نشوونما، آئی کیو صلاحیتوں کو بڑھانے اور معلومات عامہ پر مشتمل ہوں انہیں ہر جگہ عام کرنے، پھیلانے اور بچوں میں ان کا شوق پیدا کرنے کی طرف زیادہ سے زیادہ اپنی خداداد و سیکھی گئی صلاحیتوں و مہارت کو عام کریں۔ یہ موجودہ وقت کا بہت ہی اہم، ضروری اور فوری تقاضا ہے۔

ہمیں اپنی نئی نسل کی ناصرف جسمانی بل کہ ذہنی و نفسیاتی ترقی کے لیے میڈیا پلیٹ فارم پر صحت مندانہ تفریح کھیلوں اور دیگر مثلاً مذہبی، تاریخی اور نصیحت آمیز کہانیوں کو بنانے کی طرف آنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے بے تحاشا یوٹیوب چینلز پر بھی اب اپنے مذہب، پاکستانیت اور پرانے اسلاف، بزرگان، اولیا اور خاص طور پر انبیا کے حالات، افکار اور اعمال صالحہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ کام کیا جائے اور باقاعدہ حکومتی سطح پر اعلیٰ دماغ اور متعلقہ شعبے کے ماہرین کو اس پر منصوبہ بندی و پلاننگ کے ساتھ عمل پیرا کیا جائے کہ کس طرح ہم اپنے مذہب، کلچر اور گمشدہ ماضی بل کہ سنہرے ماضی کی طرف اپنی نئی نسل کو لاسکیں اور ان کے اذہان کا دھارا منفی کے بہ جائے مثبت سمت موڑ سکیں کہ یہ موجودہ دور اور عہد کا فوری تقاضا ہے۔

بہ ظاہر تو یہ کچھ عام سی اور بچوں سے متعلق باتیں ہیں لیکن درحقیقت بہت ہی اہم اور فوری عمل کی متقاضی ہیں۔ کہانیوں کی طرف بچوں کے ذہن موڑنا ضروری ہے اور پھر اس طرح ہی ہم معصوم بچوں کے ذہنوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔

ہمیں اپنے اس بے حد قیمتی، بیش بہا سرمائے کو ہر صورت بچانا ہے اور ہم سب کو اس مثبت اقدام کی طرف بڑھنے کے لیے فوری طور پر پیش قدمی کرنا چاہیے۔ اﷲ پاک مملکت پاکستان اور نونہالان پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔