عالمی طاقت کا توازن چین اور پاکستان کو منتقل ہو رہا ہے؟

سید خالد گردیزی  اتوار 10 اپريل 2022
این ڈی یو کے تحت نیشنل ورکشاپ بلوچستان میں بحر ہند کی عالمی سیاست پر ماہرین کا تجزیہ
فوٹو: فائل

این ڈی یو کے تحت نیشنل ورکشاپ بلوچستان میں بحر ہند کی عالمی سیاست پر ماہرین کا تجزیہ فوٹو: فائل

اس وقت دنیا میں غلبہ حاصل کرنے کی جو کھینچا تانی جاری ہے اس میں بحر ہند پر تسلط حاصل کرنے دوڑ مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے جسے ’نئی گریٹ گیم ‘ کہا جا رہا ہے لیکن بحر ہند میں جاری اس ’گریٹ گیم‘ کو جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک کے اہم ایشوز پر پالیسی سازی کیسے ہو تی ہے۔

پاکستان میں اس سلسلہ میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کی طرز پر نیشنل ورکشاپ بلوچستان کا آغاز 2017 میں حکومت بلوچستان نے اس تصور کے ساتھ کیا تھا کہ جب لوگ این ڈی یو سے کورس مکمل کرتے ہیں تو قومی ایشوز سمیت پالیسی سازی کے عمل اور اداروں کے اہداف اور کارکردگی کے بارے میں ان کی معلومات بہت اچھی اور مختلف ہوتی ہے۔

مزید یہ کہ وہ سوسائٹی کے بہتر،موثر اور باخبر فرد بن جاتے ہیں تاہم دقت یہ تھی کہ زیادہ تعداد میں لوگوں کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نہیں بھیجا جا سکتا۔ اس لئے بلوچستان کی سطح پر اس نوع کی ورکشاپ کا آغاز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی مدد سے کیا گیا۔بعد ازاں حکومت نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے’ 12 کور‘ کی مدد بھی حاصل کی۔وقت کے ساتھ کورس میں جدت آتی گئی۔ابتدائی چھ کورسز میں صرف بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کو موقع دیا گیا۔

تاہم ساتویں اور آٹھویں کورس میں پنجاب،سندھ،خیبر پختوانخوا، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی لوگوں کو اس کورس کا حصہ بنایا گیا تاکہ اس پلیٹ فارم پر مختلف اکائیوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی نہ صرف قومی بلکہ صوبہ بلوچستان کے بارے میںجاننے اور اداروں کی کارکردگی دیکھنے، سننے، جانچنے اور پرکھنے سمیت پالیسی سازی کے عمل کو سمجھنے کا موقع ملے۔

یہ پلیٹ فارم جہاں میز کی دوسری طرف بیٹھ کر لاعلمی سے علم تک سفر طے کرنے میں مددگار ہے وہیں اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ مختلف اکائیوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے،انہیں قومی دھارے میں شمولیت کا احساس دلانے، غلط فہمیاں دور کرنے،مسائل اور وسائل بارے خیالات کے تبادلے سمیت دوسری اکائیوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بلوچستان کے لئے سفیر کا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔

اب تک تقریباً چھ سو ممبران یہ کورس مکمل کرچکے ہیں جن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران،مختلف نکتہ ہائے نظرکے حامل سیاستدان،تعلیم و صحت سے متعلق پروفیشنلز،بیوروکریٹس،صحافی،وکلا،سول سوسائٹی کے ممبران،کاروباری حضرات اور نوجوان شامل ہیں جنہیں اب یکجا کر کے ایک ٹیم کی صورت میں ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے لئے سیکریٹریٹ قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

یہ ورکشاپ اس نقطہ نظر سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ممبران 4 ہفتے تک زندگی کے معمولات سے ہٹ کر پوری یکسوئی کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کو درپیش چیلنجز اور مواقعوں کا بغور جائزہ لیتے اور تجزیہ کرتے ہیں جبکہ صوبہ بلوچستان پر زور اس لئے ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کے تناظر میں بلوچستان کی جغرافیائی پوزیشن، ساحلی پٹی اور معذنیات کی دولت پاکستان کی معیشت اور دفاع کے نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے جبکہ ترقی کی دوڑ میں باقی اکائیوں سے پیچھے رہ جانے کیوجہ سے گونا گوں مسائل کا بھی شکار ہے جنکا تدارک وقت کیضرورت بھی ہے۔

دوران ورکشاپ مشاہدہ کیاگیا کہ یہ سرگرمی معلومات کے تبادلے،تجربے کے اشتراک اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا موثر اور منظم پروگرام ہے ۔ منتظمین غربت اور بے روزگاری سمیت عدم مساوات کے خاتمے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے خوشحال،محفوظ اور پائیدار بلوچستان اور بالآخر خوش حال ومحفوظ اور پائیدارپاکستان جیسے مقاصد کے حصول کے لئے پرعزم ہیں۔

ورکشاپ ترقی کے تین محرکات یعنی طاقت،عوام اور پالیسی کے گرد گھومتی رہی۔شرکانے سیکھا کہ کیسے بلوچستان کے عوام کو پالیسی سازی کے ذریعے بااختیار بناکر ملکی ترقی اور دفاع کے معاملے میں کردار ادا کرنے کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے۔منتظمین کی اس کوشش کے نتیجے میں اب تقریباً 600 افراد کی ایسی فورس تیار ہے جو صوبائی بنیادوں پر قومی مقاصد کے حصول میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے جس کا فائدہ بہرحال پورے ملک کو ہو گا۔

بحرہند نئی گریٹ گیم کا محاذ کیسے ہے؟
جیو پالیٹیکل تبدیلی کے تناظر میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا موجودہ سپر پاور امریکہ بغیر مزاحمت کے اُبھرتی ہوئی طاقت چین کے ساتھ نبرد آزما ہو سکے گا؟ مخصوص اہمیت کے پیش نظر کیا بحرہند ایک نئے فوجی ٹکراؤ کی آما جگاہ بننے والا ہے؟اس کا جواب جاننے کے لیے خطے میں ماضی قریب اور حالیہ صورت حال کا جائزہ لینا ہوگا۔دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیر(ر)سید انتخاب گردیزی کے مطابق ایک امریکی بحری ماہر نے 1890ء میں دنیا پرغلبے میں بحری طاقت کو کلیدی قراردیا تھا۔

الفریڈ تھائر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جو کوئی بھی بحرہند پر کنٹرول حاصل کرے گا وہی ایشیا پر غالب رہے گا اور اسی ساگرکے پانی پوری دنیاکی منزل کا فیصلہ کریں گے۔1968ء میں امریکہ نے بحرہند برطانیہ سے لے لیا، اور ڈیگوگارشیا میں اڈہ بنایا۔ اب اس کے جہاز پورے بحرہند اور بحیرہ عرب میں گشت کرنے لگے۔اس وقت دنیاکا50فی صد کاروباراور 80فی صد توانائی کی تجارت انہی پانیوں کے راستے ہو رہی تھی جس کی بدولت بحرہند ایک بین الاقوامی تجارتی شاہراہ کاروپ دھار گئی۔

ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہونے کے سبب توانائی کی چینی ضروریات بھی بڑھ رہی تھیں۔ وہ تمام راستے جو اس کی طلب کوپوراکرنے کے لیے استعمال ہو رہے تھے ان پر عملاً امریکہ قابض تھا۔مغرب اور اشتراکی بلا ک میں سردجنگ جاری تھی لیکن بیجنگ نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں حصہ نہیں لیا۔ سوویت یونین بکھرنے کے بعد امریکہ دنیا میں توانائی کے وسائل پر واحد نگہبان کی حیثیت اختیارکرگیا کیوں کہ اس کی بحری فوج بحر ہند اور بحیرہ عرب جیسے آبی خطوں پر اپناراج قائم کیے ہوئے تھی۔اس محاذپر امریکہ سے مخاصمت کا چین متحمل نہیں تھا۔

خطے کاایک اورکھلاڑی بھارت بحرہندکے ساتھ 750 کلومیٹر ساحلی پٹی کاحامل ہے۔اس کے علاوہ انڈمان اور نکوبار جیسے اہم جزائر بھی اسی کے پاس ہیں۔ اگرچہ اسے مستقبل میں بحرہندکے اندر طاقت کی تقسیم کاایک اہم کردار سمجھاجاتا تھا لیکن بھارتی سوچ پراکسی یا پھر ایک حدتک آزادی کے ساتھ کسی بڑی طاقت سے اتحادپر مرکوز تھی۔سوویت یونین کے بعد بھارت کو امریکہ کی صورت میں نیا دوست نماآقا ملا تو واشنگٹن کے لیے بھی وہ بحرہند میں ممکنہ پراکسی کی اہلیت رکھنے والاساتھی تھا۔

یوں دونوں کا اشتراک شروع ہوالیکن مشکل یہ تھی کہ بھارت کی پالیسی کا ارتکاز پاکستان دشمنی پر تھا اور امریکہ کو چین سے خطرات لاحق تھے۔ اس طرح دومختلف مقاصد پر مبنی ایک گٹھ جوڑ وجود میں آیا۔اب وہ گریٹ گیم بحرہند میں شروع ہوئی جس کا ممکنہ اختتام معاشی تنزل کے باعث دنیا سے امریکی پس پائی پر ہوگا۔ سنگاپور، ملائشیا، بنگلہ دیش،عرب امارات اور انڈونیشیا جیسی کئی چھوٹی معیشتیں بھی بحرہند سے وابستہ ہیں۔

امارات کے سوا باقی سب ملکوں کے کاروباری نظام پر سرمایہ کاری، مہارت اور تیکینکی مدد کی فراہمی کے ذریعے مضبوط چینی اثر و رسوخ قائم ہے۔اس کے علاوہ چین بحرہندکی تمام اہم بندرگاہوں پر موجودگی بھی رکھتا ہے۔ان حالات میں امریکی غراہٹیں دراصل ایک مرتے شیر کی نحیف دھاڑیں ہیں کیوں کہ اس کی اقتصادی طاقت تیز ی سے سکڑتی جا رہی ہے اور فوجی طاقت کے حجم اور تعیناتی میں بھی کمی آرہی ہے۔

چین کی حکمت عملی اس پورے معاملے میں وسیع تر ہے۔ جغرافیائی اور تزویراتی حوالے سے وہ جنوبی ایشیا اور بحرہند کو اپنی بحری شاہرا ہ ریشم یعنی میر ی ٹائم سلک روٹ کا ہی تسلسل سمجھتا ہے،جو کہ اس کی تجارتی اور مواصلاتی راہداری کوساحلی چین سے دیگر ایشیائی ملکوں کے ساتھ جوڑتی ہے۔ یہ بحری شاہر اہ ریشم اس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا نصف تشکیل دیتی ہے جس کا مقصد چین کویورپی وایشیائی رسائی دینا ہے۔ یوں بیجنگ اس خطے کو اس نگاہ سے دیکھتا ہے جو اس کے ساحلی علاقوں کو جنوبی مشرقی ایشیا کے ذریعے بحرہند تک لے جاتا ہے اور پھر جزیرہ نما عرب سے ہوتا ہوا افریقہ تک۔ محدودبھارتی مقاصدکے برعکس، خطے سے متعلق چینی نکتہ ء نگاہ ایک بڑے وژن پر مبنی ہے۔

عرب ملکوں میں نہ تو ایسا عزم ہے نہ اتنی صلاحیت کہ وہ بحرہند یا بحیرہ عرب میں طاقت کی تقسیم کے عمل میں شریک ہوسکیں۔ ان کا محدود کردار بھی تیل کے ذخائر خشک ہوتے ہی ختم ہوجائے گا۔ ایک اور اہم ریاست جس کا بحرہند میں اہم کردار ہو سکتا تھا،وہ ایران تھی لیکن اس نے بھارت کی صورت میں غلط شراکت دار کا انتخاب کیا۔اس کے علاوہ ایران کے اپنے اہداف مشرق وسطیٰ میں رہے ہیں جہاں وہ نظریاتی مخالف ریاستوں کو زک پہنچانے کے در پے رہتا ہے۔ ایسی متعصب اورعلاقائی پالیسی کسی قوم کو بڑے اہداف کا تعاقب کرنے کے قابل نہیں بناتی۔

بحرہندکے تناظرمیں گریٹ گیم کے لیے قابل ذکر طورپردانش مندانہ طرزعمل اختیارکرنے کا اعزاز پاکستان کو حاصل ہے۔امریکہ سے بے گانگی اختیارکیے بغیر اس نے چین سے ہاتھ ملائے۔اس کا ثمر سی پیک منصوبے کی صورت میں ملا۔چین سے تجارتی اورعسکری تعلقات بھی ہمیشہ مضبوط اور بہتری کی طرف مائل رہے۔اس لیے امید ہے کہ بحرہند پر چینی کنٹرول کا فائدہ پاکستان کو بھی ملے گا۔

اس جائزے کو مد نظر رکھاجائے تو مندرجہ ذیل صورت حال جلد یا بدیر ظاہر ہوسکتی ہے۔

الف۔ امریکہ کے برعکس چین ایسی پالیسی پر عمل پیراہے جواس نے بیلٹ اینڈ روڈ اور بحری شاہراہ ریشم کے راستے تجارت اور کاروبار پر مبنی مقاصد حاصل کرنے کے لیے بنائی ہے، اس میں وہ دوطرفہ فوائد کی بنیاد پردوسری اقوام کو ساتھ ملا کرچل رہا ہے۔اگرچہ اس کے عسکری نتائج بھی ہوں گے۔ اس طرح مسابقت اور مخاصمت پیدا ہونا متوقع ہے ماسوا بھارت کے۔بھارت عجیب طریقے سے بروئے کارآئے گا۔وہ خودکوہرممکن طریقے سے امریکہ اور مغرب کے لیے پر کشش اور بڑی مارکیٹ اکانومی بنا کر پیش کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔