ملکی معیشت نازک دوراہے پر

ایڈیٹوریل  ہفتہ 9 اپريل 2022
آج صبح ساڑھے دس بجے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی۔ فوٹو: فائل

آج صبح ساڑھے دس بجے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی 3 اپریل کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال کردی۔ آج صبح ساڑھے دس بجے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی اور کامیابی کی صورت میں فوری طور پر نئے وزیر اعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو فیصلہ دیا ہے وہ آئین کی روح کے عین مطابق ہے ، بلاشبہ ملک میں جو سیاسی بحران جاری تھا، اب اس کا درست حل نکل آئے گا اور ملک آگے کی جانب بڑھے گا۔

کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے ، خدا کی قسم قوم قیادت کو ترس رہی ہے۔ بلاشبہ چیف جسٹس نے جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے وہ قوم کے مسائل کی نہ صرف درست نشاندہی ہے بلکہ قومی سیاسی قیادت سے بھی توقع ہے کہ ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے گی ۔

دوسری جانب روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر کے درمیان اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 2.5 فی صد اضافے کا اعلان کردیا ہے ، جس کے بعد شرح سود 9.75 سے بڑھ کر 12.25کی سطح پر پہنچ گئی ہے ، جس کے نتیجے میں بیرونی استحکام کو درپیش خطرات بڑھ گئے ہیں ۔ حکومتی ادائیگیوں کے باعث اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ میں کمی آئی ہے ، جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھ گئی ہے۔

اندرونی اور بیرونی قرضے یوں تو دنیا بھرکی معیشتوں کا معمول ہیں لیکن جب ان قرضوں کی شرح ایک حد سے تجاوز کر جائے تو معیشت غیر معمولی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ پاکستان کیا، دنیا کے ہر ملک کی معیشت میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا تھوڑا یا زیادہ عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔ مالیاتی ماہرین نے اس دباؤ کے تعین کے لیے کئی پیمانے بھی طے کر رکھے ہیں کہ معیشت کے لیے کتنا قرض مالیاتی معمول اور اس کے بعد غیر معمولی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔

معاشی شرح نمو مجموعی اقتصادی صورتحال کا نچوڑ ہوتی ہے۔ اس وقت رواں ملکی سیاسی صورتحال میں ان خدشات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ قیمتوں میں مزید اضافے سے ہمیں مہنگائی کے تسلسل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہمارا روپیہ کی قدر مزید گرنے سے معیشت اور قومی خزانے پر دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ملک کے نوجوان طبقے کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وطن عزیز میں بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اب لوگ زندگی کی زبوں حالی اور کنبے کے بوجھ سے تنگ آ کر خودکشی جیسے سنگین اقدامات پر اتر آئے ہیں۔

حکومت وقت اور گزشتہ حکومتوں پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی بھی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے جو بے روزگاری پر قابو پا سکیں۔ اس کے برعکس روز بہ روز معاشی طور پر خستہ حالی کے شکار لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

بڑھتی ہوئی یہ تعداد خود ملکی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہے کیونکہ جب لوگ کماتے نہ ہوں تو وہ ملکی معیشت کی پروان میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معیشت دیگر ممالک کی نسبت روز بروزکمزور ہو رہی ہے جب کہ عالمی دنیا سائنس، معیشت، صحافت، سیاست، ادب غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں نہایت تیزی سے بلندیوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے مسائل غربت اور بے روزگاری ہیں۔

سادہ الفاظ میں کہا جائے تو حکومت اور اپوزیشن اپنے اصل کام چھوڑ کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں پانچ سالہ حکومتی دورانیہ صرف کر دیتی ہیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام افلاس کے ہاتھوں مزید گھاٹیوں میں پھسل جاتے ہیں۔

البتہ حکومت اپنے دورانیے کے اواخر میں اگر کچھ فلاحی کام کر بھی دیتی ہے تو وہ نہایت وقتی نوعیت کے کام ہوتے ہیں۔ اسے ہم عام زبان میں شو آف کہتے ہیں یعنی عوام کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بہت کچھ کر رہی ہے لیکن حکومت جن پروجیکٹس پر کام کر رہی ہوتی ہے ، ان سے غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا ، بے روزگاروں کو ملازمتیں نہیں ملتیں۔

جیسا کہ گزشتہ حکومتوں نے توجہ سڑکیں اور پل بنانے پر مرکوز رکھی،سڑکیں اور پل بھی ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کی جانب بھی توجہ دینا ضروری ہے؟ اس کے علاوہ جب حکومتوں کا میڈیا پر کنٹرول ہوتا ہے تو وہ اپنے معمولی سے اقدام کو اتنا بڑا بنا کر پیش کرتی ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں شاید ہمارا ملک اب کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شانہ بشانہ ترقیاتی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔

لیکن یہ سب غبارے میں ہوا کی طرح ہوتا ہے، عوام حقیقی معنوں میں کوئی خوش حالی نہیں دیکھ پاتے۔ اس کے علاوہ ایلیٹ کلاس طبقہ کی اولادیں بیرون ِ ملک تعلیم حاصل کرتی ہیں اور واپس پاکستان آنے کے بعد ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتی ہیں۔

انھیں پاکستان کے مقامی مسائل اور غریب عوام سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ جب حکومت میں آتے ہیں تو ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں کر پاتے کیونکہ نہ انھیں اس بارے میں پتہ ہوتا ہے نہ ان کی کبھی دلچسپی رہی ہوتی ہے، اگر ملک میں یکساں نظام تعلیم ہو تو ایک ہی اسٹینڈرڈ کے تحت ہر امیر اور غریب کے بچے تعلیم حاصل کریں گے اور سب کو برابری کی سطح پر ملازمتوں کی تلاش اور حصول کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اس طرح کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی اور پورے کا پورا معاشرہ تعلیمی سطح پر بھی بہتری کی جانب سفر کر رہا ہوگا۔

ملازمتوں کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہمارے یہاں رشوت اور سفارش کا کلچر ہے۔ جن لوگوں کے تعلقات زیادہ ہوں گے وہ لوگ زیادہ کامیاب ہوں گے۔ جن لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ ہو گا، وہ رشوت دے کر بہت آسانی کے ساتھ ملازمتیں حاصل کر لیں گے۔

یہ سراسر کرپشن ہے اور اس کی روک تھام نہایت ضروری ہے ورنہ معاشرہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہو کر اپنا وجود کھو دے گا۔ مختلف حکومتی ادوار میں سرکاری سطح پر سامنے آنے والے اسکینڈل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ نوکریوں کے لیے غیر قانونی طور پر لاکھوں روپے بٹورنے میں خود سرکاری عہدے داران اور وزراء ملوث پائے گئے، اب ایسی صورتحال میں حکومتی نظام پر انگلی نہ اٹھائی جائے تو کیا کیا جائے؟

ملک کے اندر صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور بہتر حالات پیدا کیے جائیں۔ اسی طرح ملک معاشی سست رفتاری سے باہر آسکے گا۔ ملک میں صرف پیداواری منصوبہ بندی کی جائے اگر ملک میں معاشی ڈسپلن ہو جائے تو پاکستان میں کثیر بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہے کیونکہ پاکستان 22 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے اور یہاں منافع کمانے کے حد درجہ مواقع موجود ہیں۔

عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ صرف ملک کی بنی ہوئی اشیا خریدیں۔ آج ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی لاگت اور قیمت درآمدی قیمت سے زیادہ ہے اس کی وجہ غیر ضروری ٹیکس اور مہنگی توانائی ہے۔ ایسے حالات میں کوئی بھی ملک میں صنعت نہیں لگائے گا۔

رواں صورتحال ملک میں ’’ مالی ایمرجنسی ‘‘ کے نفاذ کا تقاضا کررہی ہے ، ایک متفقہ حل کے لیے اس موضوع کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کی ضرورت ہے اور حکومت دیوالیہ پن کے سونامی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے جس سے ہمارے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ملک کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لیے سینئر سیاستدانوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے اجتماعی لائحہ عمل کے ساتھ آگے آنا چاہیے۔

دیوالیہ پن کو روکنے میں ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے ، کیونکہ ہم اب بھی کارکردگی کے اقدامات سے اسے روک سکتے ہیں۔ ہمارا وجود ہمارے ملک کی مضبوط معیشت اور دفاعی نظام پر منحصر ہے۔ ایک مستحکم معیشت ملک کے دفاع سمیت تمام اداروں کو سہارا دے سکتی ہے لہٰذا ہمیں اپنی معیشت کو ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنانا چاہیے ، بہتر معیشت ہی ہمیں مضبوط اور خوشحال پاکستان کی طرف لے جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔