جب تاج اچھالے جائیں گے

وارث رضا  اتوار 10 اپريل 2022
Warza10@hotmail.com

[email protected]

ہمارے دیس کی معلوم تاریخ کا دورانیہ ویسے تو کم و بیش ستر سے زیادہ دہائیوں پر مشتمل ہے،جس میں تاریخ کے تھپیڑے اور پیچ و تاب و سراسمیگی اس کا حصہ رہے ہیں،بد قسمتی سے میرا دیس اپنے وجود سے لے کر آج تک نظریہ ضرورت کے انجکشن پر چلایا جاتا رہا ہے،جس کا براہ راست نقصان عوام کی جمہوری،سیاسی اور معاشی تنگ دستی سے جہاں عبارت ہے ،وہیں عوام کی کمزورجمہوری جدوجہد بھی اس کا خاصا رہی ہے۔

آپ جب بھی اس دیس کی تاریخ کے دریچے ’’وا‘‘کریں گے تو وہاں عوام کے دکھ درد،چیخیں اور ٹیسیں ہی ملیں گی، بے رحمانہ انداز حکمرانی کا وہ دلسوز باب نظر آئے گا،جس میں وطن کے لیے قربانی دینے والوں کی اولادیں مقتل کی خونین وادیوں میں سسکتی ملیں گی۔

یہ بھی ہمارے دیس کی تاریخ رہی ہے کہ جب بھی عوام کی طاقت نے اپنی آزادانہ رائے کے ذریعے اپنے نمایندے منتخب کیے ہیں تو انھیں ہمیشہ روندا گیا ہے، وگرنہ ان منتخب نمایندوں کی زندگیوں میں عوام دشمن یا جمہوریت دشمنی کے ٹیکے لگا دیے گئے ہیں،ہمارے وطن میں اکثر انتہا پسند بیانیے نے عوامی منتخب نمایندوں کو بدنام کرنے سے زیادہ ان کی حب الوطنی پر شک و شبہات کی ایک ایسی دبیز چادر کا بدنام غلاف چڑھائے رکھا،جس نے جمہوری ماحول اور سیاسی چلن میں بے اعتباری کو فروغ دیا اور سماج بھروسے اور اعتماد کی کھلی اور کشادہ گلیوں کا راستہ بھول کر ساکت سوچ کی تنگ و تاریک گلیوں کا راہی بنا دیا گیا،جس کے نتیجہ میں عوامی ذہنوں میں طاقت کی حکمرانی ایک خطرناک بیانیئے کی طرح رچ بس گئی اور یوں پورا سماج غیر سیاسی سوچ کے ایسے بھنور میں پھنس گیا،جہاں سے نسلوں کے روشن ذہن پراگندگی کی سوچ کے تحت حق حکمرانی کو صرف طاقت میں ہی تلاش کرتے رہنے کے عادی بنادیے گئے،گو اس میں کمیونسٹ سوچ کے عوامی رہنمائوں نے سیاست میں نظریاتی شعور کے دیے جلانے کی جدوجہد کو اپنا شعار رکھا اور ایوبی جبر کی چکی میں حسن ناصر جب کہ آمر ضیا کے پر تشدد بندی خانے میں نذیر عباسی ایسے سپوت صرف اس واسطے عوامی موت کے حوالے کیے کہ شاید اس بہانے ملک کی جمہور کو ان کی محکومی اور غلامی سے نجات دلائی جاسکے،جمہوری جدوجہد کی حاصلات میں تاریخ میں ناصر بلوچ کے پھانسی گھاٹ کی شہادت کو نہیں بھولے گی۔

انسان کی آزادی کو مقید کرنے کی تاریخ کا چلن اس دیس کا ایسا حوالہ بنا دیا گیا،جہاں سے اپنے انسانی حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کے سوتے پھوٹنے کے بجائے مرجھانے پر مجبور کر دیے گئے،مگرجبر کی قوتوں کا مقابلہ بھی کرنے والے سرفروش ہمیشہ ثابت قدم ہی دکھائی دیے،ان جمہوری سر فروشوں کی ناتواں آواز کو یقین تھا کہ وہ توانا ہوگی اور پسے ہوئے محکوم عوام میں جمہوری حقوق حاصل کرنے کی جوت جاگے گی،کہیں یہ جمہوری سرفروش گرے بھی تو کہیں ٹہرے بھی،مگر عوامی جمہوری حاصلات کی جدوجہد میں ان کے پائے استقامت میں نہ جنبش آئی اور نہ ہی یہ کہیں لڑکھڑائے۔

جمہوری آزادی اور حقوق کے نام پر آزادی لینے والے مکینوں کے ذہن میں نفرتوں کے بارود ٹھونسنے کی روایت نے ایسا کام کیا کہ یک لخت بنائی جانے والی قوم ریشہ دوانیوں اور مفادات میں دو لخت کر دی گئی،کہیں کنبہ مکمل اجڑا،کہیں رشتوں کا بٹوارا ہوا تو کہیں عوام کے درمیان رابطہ نہ رکھنے کی خاطر سرحد کی پابندی کا کھیل کھیلا گیا اور مکمل کوشش کی گئی کہ مشترکہ سیاسی و جمہوری جدوجہد کے راستے کو روکا جائے،مگر تاریخ سے نابلد طاقت کے خدا کیا جانیں کہ جبر جب اپنی حدود پھلانگ جاتا ہے تو جبر کی انتہا ہی سے شل اور مقہور و مجبور انسان اپنے حقوق حاصل کرنے کی وہ توانا آواز بن جاتے ہیں جو آخرکار طاقت کے مفاداتی اتحاد کو بھی بھسم کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

عوام کے انھی جمہوری قدموں کی سبک چاپ و رفتار کو بہت منصوبہ بندی کے ساتھ 80 کی دہائی میں آمر ضیا کے جبر اور تقسیم کی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا اور آمر ضیا کے لسانی و مذہبی تقسیم کے سماج میں اپنے ہی بنائے گئے سیاسی بتوں کو مسلط کرکے عوام کے شعور سے جمہوری اور سیاسی سوچ کو کھرچنے کی ناکام کوششیں کیں،جب طاقت کے بنائے گئے بتوں کو عوامی زبان ملی تو ان کی قوتِ گویائی نے محکوم عوام کی حمایت کو ہی مقدم جانا اور طاقت کے سیاسی بتوں نے جب عوام کی طاقت میں استقامت دیکھی تو عوام کے سیاسی و جمہوری حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کی وہ دستاویز تیار کی کہ جس کا اہم نکتہ متفقہ آئین کی بالادستی اور حقِ حکمرانی عوام ٹہرا۔

مگر طاقت کی قوتوں نے حق حکمرانی کو پھر سے طاقت کے ذریعے ’’ مشرف‘‘ کرنے کی کوشش کی اور جمہوری سوچ کے مقابل طاقت میں لپٹی روشن خیالی سے عوام کو بہلانا چاہا،مگر عوامی قوت کا یہ قافلہ سیاست کے تھپیڑے کھاتا ہوا اور اپنی ناتواں طاقت سے لڑتا ہوا عوامی رائے اور ووٹ کی اہمیت کو آخرکار منوا ہی بیٹھا،یہی وہ وقت تھا جب طاقت کے ایوانوں میں تراشے جانے والے سیاسی بت عوام اور جمہور کی طاقت کے سامنے جھک چکے تھے،بھلا یہ بات کیسے بھاتی،سو پھرعوام کے سیاسی آئینی اور جمہوری حقوق کو شہرت اور ایمانداری کے بت کے سپرد کرنے کی ٹھانی گئی۔

عوام کو جمہوری راستے سے متنفر کرنے کی ایک نئی کوشش آج سے چند سال پہلے اس امید سے رکھی گئی کہ لاچار اور بھروسے سے عاری کی جانے والی محکوم عوام جو بار بار اپنی سیاسی اور جمہوری سوچ کچلنے کے بعد سیاسی سوچ سے عاری ہو چکی ہے کہ آئینی اور جمہوری حق کو ’’تبدیلی‘‘ کے غلاف میں لپیٹ کر نہ صرف ان کا سیاسی معاشی بلکہ آئینی حق بھی گروی رکھ دیا جائے بلکہ ’’آئین‘‘ ایسی جمہوری دستاویز کو بھی ختم کرنے کا انتظام کیا جائے۔

مگر تاریخ اور عوام کے خاموش احتجاج سے نا آشنا قوتیں اس بات سے شاید واقف نہیں ہوتیں کہ عوام کی معاشی تنگ دستی اور بے سروسامانی ہی عوام میں جدوجہد کو ابھارنے اور حق لینے کے شعور کو مہمیز کرتی ہے،تبدیلی کے نام پر اظہار کی آزادی کا گلا گھوٹا گیا،عوام کو روزگاری کے نتیجے میں خودکشیوں پر مجبور کیا گیا،دیس کی سماجی اور معاشرتی سیاسی رواداری کو گالم گلوچ دے کر تباہ کیا جانے لگا۔

سماج میں اختلاف رائے کو جہالت کے اندھیرے میں رکھا گیا،جھوٹ فریب اور مکر کو ریاست کا بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی،جب کہ عوام کی سب سے اہم سیاسی و جمہوری حقوق کی دستاویز’’آئین‘‘ کو عملی طور سے کاغذ کا بوسیدہ ٹکرا سمجھا جانے لگا،تو عوام نے اپنے اظہار اور اپنی رائے کے تمام وسائل استعمال کیے اور نام نہاد جمہوری لبادے میں آئین کے تاراج کرنے پر عدل کو جھنجوڑا،عدل نے اپنے اوپر سے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی بوسیدہ قبا کو جب اتارا تو منصفوں کو عوام کی رائے اور ’’آئین‘‘ کی سلامتی عزیز ہوئی اور عدل نے منصفوں کے قلم سے عوام کے سیاسی و جمہوری حقوق کے ضامن آئین کی لاج رکھی۔

منصف نہ صرف عوام بلکہ تاریخ میں سرخرو ہوئے اس دم غرور کے تاج اچھل اچھل کر عوام کے پیروں تلے تھے اور عوام اپنی جمہوری جدوجہد کے پہلے مرحلے میں کامیابی پر نہ صرف نازاں تھے بلکہ آیندہ کی جدوجہد کے لیے پرعزم بھی تھے اور آئین بچا کر آنے والوں کو درست سمت چلنے کی تلقین بھی کر رہے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔