بحران کا حل

عثمان دموہی  اتوار 10 اپريل 2022
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

ہم پاکستانی ہیں، بحرانوں کو خود ہی ہوا دینا اور پھر ان سے نبرد آزما ہو کر سرخرو ہونا ہمارا محبوب قومی مشغلہ ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک کئی بحرانوں کی آماج گاہ بنا اور پھر سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔

موجودہ بحران بھی ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے اسے ہماری ایک جمہوری حکومت نے پیدا کیا تھا مگر کچھ کا کہنا ہے کہ اسے حزب اختلاف نے پیدا کیا ہے بہرحال بحران نے ایسے وقت میں جنم لیا ہے جب کہ ملک انتہائی درجے کی معاشی بدحالی میں مبتلا ہے اور ہمارا ازلی دشمن چند دن قبل ہی اپنا ایٹمی میزائل ہماری سرزمین پر گرا چکا ہے۔

اس وقت ہمارے داخلی مسائل میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے،لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مل بیٹھ کر  ان مسائل پر قابو پانے کا حل تلاش کیا جائے،اگر ہم نے موجودہ حالات میں بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔آپس کے لڑائی جھگڑوں نے سوائے انتشار اور افراتفری کے اس ملک کو کچھ نہیں دیا۔

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ گجرات کا کسائی اور کشمیر کا راون مودی وطن عزیز پر کسی بھی وقت لشکر کشی کرسکتا ہے کیونکہ اس کی حکومت کا اصل مقصد ہی اکھنڈ بھارت بنانا ہے۔ وہ دو سال قبل بھی گلگت  بلتستان پر حملہ کرتے کرتے رہ گیا تھا اگر چین لداخ میں اپنی فوجوں کو آگے نہ بڑھاتا تو وہ اپنے مذموم پلان کے تحت پاکستان پر جارحیت کرچکا ہوتا۔ بھارت سے کسی طور خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ،وہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ کب پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔

خیر بھارت کے کسی بھی مذموم منصوبے کو ہماری عسکری قیادت نے کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیا ہے، جب وہ بھارت اور مغربی ممالک کی پیدا کردہ ملک میں بدترین دہشت گردی کا قلع قمع کرسکتی ہے تو پھر بھارتی فوج کی اس کے آگے کیا حیثیت ہے۔ ہماری عسکری قیادت تمام خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جہاں تک حالیہ آئینی بحران کا تعلق ہے، وہ ڈپٹی اسپیکر کی غلط رولنگ سے پیدا ہوا تھا، حکمران مسلسل کہتے رہے ہیں کہ وہ آخری بال تک مقابلہ کریں گے مگر وہ آخری بال تک کھیلنے کے بجائے بیچ میں ہی پچ خراب کرنے کے مرتکب ہوئے؟

انھوں نے دراصل ملک کو کرکٹ کے کھیل کی طرح چلایا مگر کرکٹ ٹیم کے چلانے میں اور ملک کے چلانے میں بہت فرق ہے۔ بہرحال وہ پونے چار سال حکومت کرکے اپنی ہی ٹیم کی بغاوت سے بیزار ہو کر نہ صرف قومی اسمبلی توڑ بیٹھے بلکہ نئے انتخابات کا اعلان کرنے سے بھی نہ چوکے، واضح ہو کہ سیاست کا میدان کرکٹ کے میدان سے بہت مختلف ہے۔

دراصل سیاست صرف سیاستدانوں کا ہی میدان ہے چونکہ وہ سیاسی داؤ پیچ کے ماہر ہوتے ہیں مگر موجودہ حکمران اس حقیقت سے نابلد رہے کہ ان کے قومی اسمبلی کے توڑنے سے اسمبلی کہاں ٹوٹنی تھی اور عام انتخابات کیسے منعقد ہو سکتے تھے جب کہ عدالت عظمیٰ ڈپٹی اسپیکر کے ہاتھوں اسمبلی کے ٹوٹنے کے عمل کے خلاف سوموٹو نوٹس لے چکی تھی اور یہ باور کرا چکی تھی کہ فیصلہ آئین کے مطابق و انصاف پر مبنی ہوگا۔

قومی اسمبلی کے اچانک ٹوٹنے کی وجہ سے ملک میں نہ کوئی وزیر خارجہ تھا اور نہ وزیر خزانہ۔ ملک کو اس وقت فنڈز کی سخت ضرورت ہے مگر آئی ایم ایف نے اگلی حکومت کے بننے تک پاکستان کو فنڈز کی فراہمی روک دی ہے۔ اس طرح ملک کا ہر شعبہ جام ہو کر رہ گیا ہے اور معاشی بحران کے مزید سنگین ہونے کا خطرہ ہے۔ ایسے حالات میں ہر پاکستانی کی نظریں سپریم کورٹ کی جانب لگی ہوئی تھیں۔

چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ ڈپٹی اسپیکر کی طرح یک طرفہ کارروائی نہیں کریں گے بلکہ دونوں فریقوں کو سنا جائے گا اور پھر فیصلہ دیا جائے گا۔ حکمران قیادت نے حزب اختلاف کی جانب سے ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کو ملک کے خلاف بیرونی سازش قرار دیا تھا۔

ان کا استدلال تھا کہ انھیں ایک امریکی اعلیٰ اہلکار کی جانب سے دھمکی آمیز خط ملا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو پاکستان کے خلاف سخت کارروائی ہو سکتی ہے۔ یہ خط انھیں سات مارچ کو وزارت خارجہ کے ذریعے ملا تھا۔ اس ملک دشمن خط کو انھوں نے 27 مارچ کو ایک بڑے جلسے میں لہرا کر عوام کو دکھایا تھا۔

ان کا کہنا تھا چونکہ حزب اختلاف نے غیر ملکی اشارے پر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی اس طرح وہ غلط ہے اور یہ تمام ارکان ملک سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مریم نواز نے قومی اسمبلی کے توڑے جانے کی کارروائی کے بارے میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکمرانوں  نے تحریک عدم اعتماد کو اس لیے ناکام کیا ہے کیونکہ وہ اس تحریک کی کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم کے عہدے پر نہیں رہ سکتے تھے، اس طرح نیا وزیر اعظم اقتدار سنبھال کر ان کے اور ان کے وزیروں مشیروں کی کرپشن کے خلاف اقدامات کرسکتا تھا۔

بہرحال اس وقت حکمران قیادت  نے اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش کا بیانیہ اپنا کر اپنی نااہلی اور معیشت کی خستہ حالی اور کمر توڑ مہنگائی والی حقیقتوں کو دبا دیا ہے۔ کچھ تجزیہ کار بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ حکمران قیادت  نے عام انتخابات میں جانے کے لیے امریکی سازش کی آڑ لے کر اپنی تمام غلطیوں کو ڈھانپ دیا ہے اور مبینہ امریکی سازش کو اچھال کر عوام کے سامنے خود کو مظلوم کے طور پر پیش کیا ہے۔

اس وقت حکمران قیادت ایک خط کے ذریعے نیا بیانیہ تشکیل دے چکی ہے جسے وہ اپنی دانست میں عوام میں جاکر کیش کرانا چاہتی ہے لیکن اس خط پر سیکرٹ ایکٹ بھی لاگو ہوتا ہے ، کیا وہ اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے مرتکب ہونے جا رہے ہیں؟تاہم اس وقت کرپشن کے حوالے سے ایک خاتون  کا نام منظر عام پر آنے کے بعد  حکومت کے خلاف عوام کے شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں اور اگر یہ کہانی سچ ثابت ہو جاتی ہے تو پھر پی ٹی آئی کے کئی اعلیٰ عہدیداروں پر بھی انگلی اٹھ سکتی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔

اسی طرح اور بہت مالیاتی اسکینڈلز بھی منظرعام پر آسکتے ہیں، جس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں ، جوں جوں وقت گزرے گا، ہمارا میڈیا ہوشربا حقائق اور رپورٹس سامنے لائے گا ۔بہرحال اب حزب مخالف کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد بھی ملک میں بحرانی کیفیت باقی رہے گی چنانچہ ملک کے استحکام کے لیے نیا الیکشن ہی وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔