کرپشن کے نئے راستے

انجینئر مسعود اصغر  اتوار 10 اپريل 2022

حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں والدین کے لیے گھر چلانا کس قدر مشکل ہوگیا ہے، آپ کی پیدا کردہ مہنگائی کے زیر اثر اپنے بچوں کی کفالت کرنا انھیں اسکولوں میں تعلیم دلوانا کس قدر اذیت ناک ہو چکا ہے۔

ایک عوامی لیڈرکا کوئی معاملہ ذاتی نہیں ہوتاکیونکہ وہ عوام کے مسائل کا امین ہوتا ہے،جس کے حل کے لیے عوام ان پر بھروسہ کرتے ہیںاور جب ان کا محاسبہ یا احتساب ہوتا ہے تو اس میں کچھ بھی نجی یا ذاتی نہیں ہوتا۔یہ سیاستدانوں کو اس فیلڈ میں آنے سے پہلے سوچنا چاہیے کیونکہ یہ کھیل کا مختصر میدان نہیں،یہ وطن عزیز کے بائیس کروڑ انسانوں کا ملک ہے ، ایک چھوٹا سا نقصان بھی بہت بڑا اور بھاری ہوتا ہے۔

افسوس صد افسوس عوام کو ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی سخت مایوسی ہی ہوئی۔عوام نے جس اہم ترین وجہ کے سبب نئے حکمرانوں کا چناؤ کیا وہ ان کی فکری سوچ تھی کہ اس دفعہ’’ ہم چہرے نہیں، نظام کو بدلیں گے‘‘ پر اس دفعہ بھی مظلوم عوام کی توقعات پر اوس ہی پڑنی تھی، جو پڑی ،ظاہر ہے ایک کرکٹ کا میدان اور ایک ملک کی باگ ڈور زمین آسمان کا فرق رکھتی ہیں۔

آپ کی یاد دہانی کے لیے عرض کردوں کہ1992  کا ورلڈکپ بھی لازمی سی بات ہے کوئی ون مین شو نہیں تھا یعنی صرف آپ کی وجہ سے وہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں پوری ٹیم کا حصہ تھا اور بالخصوص جاوید میانداد کے ٹھنڈے اور خوش گوار مزاج کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو ملک و قوم کا خیر خواہ ہوتا ہے وہ سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہے،غریب ،مجبور اور ناداروں سے آپ کیا احتساب کرلیں گے اور ان سے ملے گا بھی کیا زیادہ سے زیادہ اگر انھوں نے کوئی کرپشن کی بھی ہوگی تو صرف اس حد تک کہ اپنی ضروریات کے لیے کچھ ٹیکس ادا کرنے میں تاخیر کردی ہوگی اور یہ کربھی کیا سکتے ہیں۔

ان بنیادی وجوہات کے بعد اب ایک طائرانہ جائزہ معیشت کو مستحکم کرنے والے سرکاری مالیاتی اداروں کی حالت زار پر ڈالتے ہیں کہ کیوں وطن عزیز کی اقتصادی حالت اتنی دگرگوں ہے؟ان اداروں میں دن بہ دن ایسے افرادکی سیاسی بنیادوں پربھرتی ہورہی ہے جن کی عمریں پچپن برس کی حرکتیںبچپن کی، تیل شیل لگاکرمانگ پٹی جمع کر، منہ پرفیشل بلیچ کروا کر بالوں میں خضاب لگواکرتیس سال کے نوجوان بنکربیٹھے ہوتے ہیں۔

اہلیت ایسی کہ میں نے کہا ڈیپازٹ سِلپ دے دیجیے توصاحب پندرہ منٹ کبھی اوپرکبھی نیچے کبھی یہ سِلپ کبھی وہ سلپ جب میں نے ان کی اہلیت کایہ معیاردیکھاتوخودہی انھیں بتادیاکہ یہ فلاں رنگ کی ہے ڈیپازٹ سلپ، تومسکراتے ہوئے مجھے دیکھااورتب کہیں جاکروہ نکال سکے اورکہنے لگے’’ لگتاہے آپکاتعلق بھی بینک سے ہے؟‘‘میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’’جی نہیں!میںنے صرف اور صرف اپنے مشاہدے کی بنیاد پر آپ کوبتایا۔‘‘

دنیا جدید دورمیںچل رہی ہے مگرافسوس کہ ان اداروں میں ابھی تک جرنلزمیں کام ہوتاہے کیونکہ ان کاعملہ کمپیوٹرکی تعلیم سے ناواقف ہے۔ان مالیاتی اداروںکوجدیدخطوط پراستوارتو کیاگیا مگران میں کام کرنے والوں کی اتنی اہلیت نہیں کہ وہ اسپرکام کرسکیں۔Online transactionsکرنے میں گھنٹوںلگادیتے ہیں اور اگرلائٹ چلی جائے توبڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ دیتے ہیںکہ دوڈھائی گھنٹے بعد جب لائٹ آئیگی تب ہی کام ہوگا۔

اصل بات تویہ ہے کہ یہاںدفتری ماحول ہی نہیںہوتا،کام کرنے والوں کاجودل چاہاوہ کپڑے پہن کرآگئے سوتے سے اٹھ کر، آفس پہنچ کرناشتہ فرماتے ہیںپھر تیارہوکر نیند بھری آنکھوںکے ساتھ، جمائیاں لیتے ہوئے کام کاآغاز کرتے ہیں۔ظاہر ہے ایسے انداز میں دن کا آغاز کیا جائے گا تو وہاں خیر و برکت دور دور تک بھی نہیں ہوگی تو خاک ترقی کے دروازے کھلیں گے وہاں صرف و صرف تنزلی ہی آئے گی۔منہ میں گٹکا بھرکے اوراس منہ سے بات تک نہیں کرپاتے۔ڈھیلے ڈھالے اندازمیںرہیں گے توکام بھی اسی طرح کاہوگا۔

منیجرصاحب کاجب پوچھوپتہ چلتاہے وہ Marketing پر نکلے ہوئے ہیں۔کیا ہمارے ملک کو ترقی دینے والے ان اہم فنی اداروں میں بغیرنالج اوراہلیت کے صرف اورصرف سیاسی بنیادوں پر رکھے جانے والے ان نا اہل افراد کی تعیناتی کا متحمل ہوسکتا ہے؟

چیک کیش کروانے جاؤتوکم سے کم گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگ ہی جاتاہے،صرف بیلنس پتہ کرنے جاؤتوآدھاگھنٹہ توضرورلگ جاتا ہے، بلوں کی وصولی دل چاہاتوکرلی ورنہ منع کردیاہاں حاکم وقت کو خوش کرنے کے لیے سب سے یہ ضرور پوچھنے لگے ہیں، اب کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے اور کہاں جا رہا ہے تاکہ اگر اس میں کوئی گنجائش ہو تو ہم بھی اپنے ہاتھ اس میں گیلے کرلیں وہ بھی صرف غریب مظلوم عوام سے کیونکہ بڑے بڑے لوگ، قرضے معاف کرانے، ملک سے فرار ہوجانے والوںسے پوچھیں گے تو اگلے دن جاب کا کیا ہوگا؟

اس مظلوم مڈل کلاس سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ بھائی تم کو کوئی پریشانی ہے ،تمہارے گھر میں کوئی بیمار تو نہیں ،تمہارے گھر میں فاقے تو نہیں ہورہے نہ جانے سفید پوش لوگ کیسے کیسے حالات سے نبردآزماہوکر چار پیسے جوڑ پاتے ہیں لیکن وہ اپنے ہی پیسے استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے کیونکہ آپ کی مہربانی سے اب چار پانچ پیج کا فارم بھرو جس میں یہ بتاتے رہو پیسہ کہاں سے آیا؟

کہاں جائے گا یا اپنی حلال کی کمائی میں لوگوں کو ان کا جائز حق کرپشن کے نام پر دو ورنہ بیٹھے رہو تمہارے مرنے کے بعد بھی تمہارے سنگل اکاؤنٹ سے ہمیں مل ہی جائے گا کیونکہ ہم ایسے ہی تو تمہارے لواحقین کو بھی نہیں دیں گے، اپنا حق لیے بناء،تو یہ بندر بانٹ ہے آپ کی گڈگورننس ۔ان حالات میں منیجر صاحب خودان سے ڈرتے ہیںاس لیے نہ کوئی شکایت ہوتی ہے اورنہ کوئی سرزنش۔نجی مالیاتی اداروںکی زبوںحالی کی توایک الگ داستان ہے۔

سیونگ سینٹرزکے ادارے بھی جرنلزکی دنیامیں سانس لے رہے ہیں وہاں بھی معمولی کاموں کوانجام دینے میںافسران گھنٹوں لگادیتے ہیں۔باتیں تو بہت کی گئیں کرپشن کو روکنے کی مگر آپ کی ہی ناک کے نیچے ایسے تمام نت نئے راستے اختیار کیے جاتے رہے جن سے کرپشن کی داستانیں رقم ہوتی رہیں،بے چارے نادار عوام ریٹائر منٹ کا پیسہ جب وہ ان اداروں میں رکھواتے ہیں اور جب وہ دنیا سے چلے جائیں تواس کا حصول نامینی کے لیے اتنا سخت کردیتے ہیں سب اس ادارے سے منسلک اوپر سے نیچے تک سب نظریں گاڑ کر بیٹھتے اور بڑے حق سے فرماتے ہیں کہ ٹھیک ہے اصل تو ہم دے دیتے ہیں مگر اس کا منافع نہیں ملے گا وہ ہم لیں گے سوال کرئو یا کوئی بحث کرئوتودستاویزات کے چکر میں اس قدر الجھا دیتے ہیں کہ بندہ خود بولتا ہے’’ اچھا بابا آپ لے لو۔‘‘

اسی لاقانونیت ،مہنگائی،عدم مساوات اور دیگر ناختم ہونے والے ناسور جو معاشرے میں دن بدن بگاڑکا باعث بن رہے ہیںوالدین اپنی اولاد کو باہر بھیج کریہاں یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیںجس کی وجہ سے وطن عزیز بھی اپنے مستقبل کے ٹیلنٹ سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ظاہر ہے جب یہی اولاد ایک مقررہ وقت کے لیے آئے اپنے والدین کی زندگی میں ان کے کچھ سرکاری کاموں میں معاون اور مددگارہونے کی کوشش کرے یا ان کے بعدان کی وصیت کو پورا کرنے کے لیے ان محکموں کے چکر لگائے اور خدا نخواستہ ان اداروں سے وابستہ افسران یا کلرکوںکو پتہ چل جائے کہ صاحب بہادر باہر سے آئے ہوئے ہیں اور ان کو جلد واپس ہونا ہے تو پھر ان کی چاندی ہی چاندی ہوجاتی ہے۔

ہر جائزکام پر پیسے لینا ان کا حق بن جاتا ہے وہ بھی فارن ریٹ پر،مجبور مڈل کلاس سے وابستہ اگر ان کے ناجائز مطالبات پورے نہ کریں تو اپنے جائزرقم سے بھی محروم ہوجائیں گے جو بزرگ لاولد ہوں توان کے ساتھ تو کوئی نیکی بھی نہیں کرسکتاکیونکہ آج کے اس پرفتن دور میں نیکی گلے پڑھ جاتی ہے۔ اس طرح کے بزرگوں کا پیسہ کھانے کے لیے نیکی کرنے والے کو ہی بجائے سرہانے کے مشکوک بنا دیتے ہیںان تمام کاموں کی انجام دہی کے لیے اتنے چکر لگواتے ہیں کہ بندہ خود ان کی تمام ناجائزشرائط ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

ہمارے پیارے وطن میں ایک وقت ہی توہے جس سے جی بھر کے ضایع کیاجاسکتاہے،اس لیے توہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ ان باتوںسے ہم اس بات کابخوبی اندازہ لگاسکتے ہیںکہ ملک وقوم کے مالیاتی اداروں میںکام کرنے والوںکی حالت ایسی ہوگی تووطن عزیزکیاخاک ترقی کرسکے گا۔ یہ کرپشن کے نئے نئے راستے متعارف کروانے کے ہی ذرایع ہیں نہ کہ بند کرنے کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔