شاعر فلمساز و ہدایت کار ولی صاحب کی یادیں، باتیں

یونس ہمدم  اتوار 10 اپريل 2022
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

تقسیم ہندوستان سے پہلے بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ایک فلم قسمت کی بڑی دھوم مچی تھی جس کی ہیروئن ممتاز شانتی تھی اور اس فلم نے سب سے زیادہ عرصے تک چلنے والی فلم کا ایک ریکارڈ بنایا تھا اور جس کا ریکارڈ پھر بہت بعد میں بنائی گئی ایک فلم شعلے نے توڑا تھا جس میں امیتابھ بچن، دھرمیندر اور ہیما مالنی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلم قسمت کا ایک گیت ان دنوں بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:

بستر بچھا دیا ہے ترے در کے سامنے
اک گھر بنا لیا ہے ترے گھر کے سامنے

اور اس گیت کے شاعر ولی صاحب تھے۔ اس دور کی بہت سی فلموں کے وہ شاعر بھی تھے اور بعض فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے تھے ان فلموں میں بسنت، بیوی، زمانے کی ہوا اور قسمت نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ پھر شاعر ولی صاحب ایک کامیاب فلم ساز و ہدایت کار کی حیثیت سے منظر عام پر آئے تھے اور بمبئی کی فلمی دنیا میں چھا گئے تھے۔

ولی صاحب کا پورا نام ولی محمد خان تھا، وہ پونا بہار میں پیدا ہوئے تھے، 1930 میں گراموفون کمپنی میں بحیثیت شاعر وابستہ ہوئے پھر وہ ملازمت کے سلسلے میں لاہور آگئے تھے۔ یہاں وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے تھے۔ یہاں ان کی لکھی ہوئی ایک نعت کو بڑی شہرت ملی تھی اور اس نعت کو پہلی بار نوخیز گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

اس نعت کی کمپوزیشن اس زمانے میں ریڈیو کے ایک اسٹیشن ڈائریکٹر سرور نیازی صاحب کی تھی وہ ریڈیو افسر کے ساتھ فن موسیقی کے بھی دلدادہ تھے اور اکثر غزلوں کی دھنیں بھی خود ہی ترتیب دیتے تھے۔ بعد میں ان کی دو صاحبزادیوں ناہید نیازی اور نجمہ نیازی نے بحیثیت فلمی گلوکارہ بڑا نام کمایا۔ پھر ایک بیٹی ناہید نیازی نے بنگالی موسیقار مصلح الدین سے شادی کرلی تھی۔ اب میں آتا ہوں اس مشہور نعت کی طرف جو گلوکار شمشاد بیگم کی آواز میں ریکارڈ ہو کر آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوتے ہی مشہور ہوتی چلی گئی تھی اور شمشاد بیگم کی شہرت کی بنیاد بنی تھی، اس نعت کے بول تھے:

پیغام صبا لائی ہے گلزار نبیؐ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیؐ سے

یہ نعت ہم نے بھی اپنے بچپن میں سنی تھی اور یہ نعت ان دنوں گھر گھر میں سنی جاتی تھی، پڑھی جاتی تھی اور میلاد کی محفلوں میں بھی پڑھی جاتی تھی۔ اس نعت کے شاعر ولی صاحب کو بھی بڑی شہرت ملی پھر وہ گراموفون کمپنی کے لیے نعتیں، بھجن، گیت اور غزلیں لکھتے رہے اور پھر وہ لاہور سے بمبئی چلے گئے تھے۔ ابتدا میں آل انڈیا ریڈیو ہی کے لیے لکھتے رہے۔ وہاں ان کی ملاقات موسیقار ماسٹر غلام حیدر سے ہوئی، ولی صاحب کی ایک اور نعت اس دور کی ریڈیو کی مشہور گلوکارہ بیگم امراؤ ضیا کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھی جس کے بول تھے۔

میرا سلام لے جا طیبہ کے جانے والے

پھر اسی نعت کو گلوکار محمد رفیع نے گایا۔ اسی دوران ہدایت کار روپ کے شوری نے ایک فلم مجنوں کے نام سے بنائی جس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے اس فلم میں ولی صاحب نے مکالمے اور گیت لکھے تھے اور ان کا لکھا ہوا ایک گیت ان دنوں بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے۔

بہت بے ادب ہیں نگاہیں کسی کی
تصور میں لے لیں بلائیں کسی کی

یہ وہ دور تھا جب شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری، حسرت جے پوری اور ساحر لدھیانوی فلمی دنیا میں آنے کے لیے پر تول رہے تھے اور اس دور میں شاعر ولی صاحب کے گیتوں کی بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اس زمانے میں شمع دہلی اور فلم فیئر جیسے رسائل نہیں تھے جو ولی صاحب کی شخصیت کو اجاگر کرنے میں کوئی کردار ادا کرتے، اس لیے مصنف اور شاعر ولی صاحب کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے ہیں۔

میں نے بڑی تحقیق کے بعد ولی صاحب کے فلمی سفر کو یکجا کیا ہے جو ہندوستان کے شہر بہار سے لاہور آئے اور پھر کچھ عرصہ لاہور میں گزارنے کے بعد بمبئی چلے گئے تھے اور بمبئی کی فلم انڈسٹری میں بحیثیت شاعر ہی نہیں بلکہ کہانی کار، فلم ساز و ہدایت کار بھی اپنی فنی صلاحیتوں کو فلم انڈسٹری سے منوایا۔ اور بمبئی کی فلم انڈسٹری کو بڑا سہارا دیا تھا۔

1937 سے لے کر 1940 تک بے شمار فلموں کے مصنف و ہدایت کار رہے ان فلموں میں دین و دنیا، جیون جیوتی، قسمت، سورگ کی سیڑھی، دیکھو جی، ہیر رانجھا،پدمنی، سالگرہ، بیوی اور سونا چاندی کے نام سے فلمیں منظر عام پر آئیں اور تقریباً ہر فلم نے کامیابی حاصل کی اور کئی فلموں نے کامیابی کے ریکارڈ بھی قائم کیے اسی دوران ولی صاحب کی لکھی ہوئی بعض پنجابی فلموں نے بھی بڑی کامیابی حاصل کی جن میں یملا جٹ، منگتی، سوہنی کمہارن، پردیسی ڈھولا اور گل بکاؤلی کو بڑی شہرت ملی۔ اسی دوران اپنی ذاتی فلم سوہنی کمہارن میں ایک نئی ہیروئن کو متعارف کرایا جس کا نام ممتاز شانتی تھا جس کا تعلق گجرات سے تھا پھر یہی ممتاز شانتی مشہور ہیرو اشوک کمار اور دلیپ کمار کی ہیروئن بھی بنی اور بمبئی کی فلم انڈسٹری کی آنکھوں کا تارا بن گئی تھی۔

ممتاز شانتی نے پھر 1941 میں شاعر فلم ساز و ہدایت کار ولی صاحب سے شادی کرلی تھی۔ یہ ہدایت کار ولی صاحب ہی تھے جنھوں نے اپنی فلم بیوی میں ممتاز شانتی کے ساتھ ایک نیا اداکار پران کے نام سے متعارف کرایا تھا پھر یہی اداکار پران کامیاب ترین اداکار بن کر بمبئی فلمی دنیا کی شان بن گیا تھا۔ ان دنوں فلم بیوی کا ایک گیت جو ولی صاحب کا لکھا ہوا تھا بڑا مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے۔

اکیلے میں وہ گھبراتے تو ہوں گے
مٹا کے مجھ کو پچھتاتے تو ہوں گے

محمد رفیع کی آواز میں اس زمانے میں اس گیت کو بڑی شہرت ملی تھی 1945 اور پھر 1952 تک ہندوستان میں فلم ساز و ہدایت کار ولی صاحب کا دور تھا اور ان کے پھر بہت سے شاگرد بمبئی اور پھر پاکستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوکر کامیابی سے ہمکنار ہوئے تھے اور میں یہاں ایک دلچسپ حقیقت بھی بتاتا چلوں، فلمساز و ہدایت کار ولی صاحب نے اپنی فلم بیوی کی موسیقی کے لیے اس دور کی ایک موسیقار جوڑی شرما جی اور ورما جی کو منتخب کیا تھا۔

شرما جی ورما جی مشہور فلم اسٹار نرگس کی والدہ جدن بائی کے فلمساز ادارے میں پہلے میوزیشنز تھے ،بعد میں دونوں دوستوں نے مل کر موسیقار کی جوڑی بنا لی تھی اور بعد میں جو موسیقار شرما جی تھے وہ موسیقار خیام کے نام سے منظر عام پر آئے اور بمبئی فلم انڈسٹری میں اپنا ایک ممتاز مقام بنایا اور ورما جی بمبئی چھوڑ کر لاہور آگئے تھے اور لاہور میں انھوں نے رحمان ورما کے نام سے بے شمار فلموں کی موسیقی دی تھی۔

انڈین فلم انڈسٹری میں ولی صاحب نے اپنا ایک کامیاب ترین اور شاندار دور گزارا تھا پھر انھیں لاہور کی یاد ستائی تو یہ پاکستان بننے کے بعد 1954 میں لاہور آگئے تھے۔ یہاں آ کر بھی ولی صاحب نے اپنا ذاتی پروڈکشن آفس قائم کیا اور اس ادارے کے بینر تلے کئی پنجابی فلمیں پروڈیوس کیں جن میں گڈی گڈا، لکن مٹی اور بمبئی میں بنائی گئی فلم سوہنی کمہارن کا دوسرا ورژن بنایا اور ان تینوں فلموں میں اداکارہ مسرت نذیر کو بطور ہیروئن کاسٹ کیا، ان فلموں میں گڈی گڈا نے نمایاں ترین کامیابی حاصل کی تھی اور اس فلم میں ولی صاحب کے لکھے ہوئے ایک گیت کو بڑی پذیرائی ملی تھی، اور وہ گیت عوامی حلقوں میں بڑا پسند کیا گیا تھا اس کے بول تھے۔

نئی ریساں شہر لہور دیاں

اور دیگر شاعروں کو ولی صاحب کے بعد ہی بمبئی کی فلمی دنیا میں شکیل بدایونی اور ساحر لدھیانوی کو شہرت ملی تھی۔ ولی صاحب نے فلمی دنیا میں چاہے وہ ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی بڑا نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اردو زبان کی فلموں کے علاوہ پنجابی زبان کی فلموں کو ایک نیا حسن بخشا تھا۔ فلم سے ہٹ کر ادبی دنیا میں ولی صاحب نے اپنی ایک شناخت اور پہچان پیدا کی تھی۔ ابتدا میں ولی صاحب نے کچھ عرصہ لاہور کے ادبی رسالوں نیرنگ خیال، ادب لطیف اور ادبی دنیا میں بھی اپنی تحریر کا جادو جگایا تھا۔

بمبئی سے لے کر لاہور کی فلمی دنیا تک ان کے ہنرمند شاگردوں نے بھی اپنے آپ کو فلمی دنیا میں منوایا اور بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ اپنے آخری دنوں میں یہ بیمار رہنے لگے تھے اور فلمی دنیا سے بالکل ہی کنارہ کش ہوگئے تھے اور پھر بیماری کی حالت میں ہی 10 اپریل 1977 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے فلم اور ادب میں ولی صاحب کے نام کو ہمیشہ ادب و احترام کے ساتھ یاد رکھا جائے گا، ہماری دعا ہے اللہ ولی صاحب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔(آمین۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔