تحریک عدم اعتماد کی کامیابی

ایڈیٹوریل  پير 11 اپريل 2022
عمران خان پاکستان کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم ہیں، جھنیں قومی اسمبلی نے عدم اعتماد کرکے برطرف کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان پاکستان کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم ہیں، جھنیں قومی اسمبلی نے عدم اعتماد کرکے برطرف کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان ڈیڑھ دو ہفتوں تک جس آئینی اور سیاسی بحران میں پھنسا ہوا تھا ، وہ گزشتہ روز اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم پر ووٹنگ ہوگئی ۔ تحریک عدم اعتماد کے حق میں174ووٹ آئے، جس کے بعد عمران خان وزیراعظم کے عہدے سے فارغ ہوگئے۔

جب تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا آغاز ہوا تو تحریک انصاف کے ارکان ایوان سے چلے گئے، یوں عمران خان پاکستان کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم ہیں، جھنیں قومی اسمبلی نے عدم اعتماد کرکے برطرف کیا ہے۔

بہرحال جو کچھ ہوا ہے ، وہ آئین و قانون کے مطابق ہوا اور یہی جمہوری نظام کی کامیابی ہے ۔البتہ اس سارے عرصے میں پاکستان کے عوام اور ادارے ذہنی تناؤ اور دباؤ کا شکار رہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذآرائی بہت بڑھ چکی تھی اور دونوں کے درمیان تصادم کا خطرہ ریڈ نشان کے قریب پہنچ چکا تھا۔

ہفتے کو بھی حالات خاصے گمبھیر رہے اور سارا دن اور رات افواہوں کی زد میں رہا، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے میں تاخیری حربے اختیار کرتے رہے ، وہ دن بھر اجلاس بار بار ملتوی کرتے رہے اور وزراء سے لمبی لمبی تقاریر کرا کر سپریم کورٹ کے حکم کی عدم تعمیل کی کوشش کی گئی۔

ادھر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پرکارروائی میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے اسلام آباد میں ماحول خاصاکشیدہ ہوگیا، لمحہ لمحہ صورتحال تبدیل ہوتی رہی، پارلیمنٹ ہاؤس اور سپریم کورٹ کے باہر سیکیورٹی سخت کردی گئی، ریڈ زون میں پولیس کے کمانڈوز تعینات کیے گئے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف پولیس، رینجرز اور ایف سی کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ، رات گئے عدالتیں بھی کھل گئی تھیں۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے سے جاری تھا اور اسپیکر کی جانب سے رات ساڑھے 11 بجے تک تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کا عمل شروع نہیں کیا گیا تھا، اس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے رات 12بجے دفاتر کھولنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان سمیت 5 رکنی ازخود نوٹس بینچ بھی عدالت پہنچا تھا اور حکم عدولی کی صورت میں 12بج کر 5منٹ پر کیس کی سماعت رکھی تھی تاہم قومی اسمبلی کی کارروائی کا آغاز ہونے کے بعد لارجر بینچ واپس گھر روانہ ہوگیا ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق رات 12بجے کے بعدقومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ کا عمل شرو ع ہوتے ہی عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالا چلے گئے، اسپیکر اسد قیصر نے ایوان میں آکر اراکین سے کہا کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایاز صادق سے کہا کہ وہ پینل آف چیئر کے رکن کی حیثیت سے اجلاس کی کارروائی جاری رکھیں۔

ایاز صادق نے پینل آف چیئر کے رکن کی حیثیت سے قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت شروع کی اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا آغاز کردیا اور اراکین اسمبلی کو طریقہ کار سے آگاہ کرکے گھنٹیاں بجا دیں، حکومتی اراکین نے اسمبلی سے واک آؤٹ کرتے ہوئے ایوان کی نشستیں خالی کردیں۔

ایاز صادق نے ایوان کے دروازے بند کرنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ 12 بجے اجلاس ملتوی کرنا ہے کیونکہ نیا دن شروع ہوگا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ووٹنگ شروع کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنائی ۔

انھوں نے ووٹنگ کا عمل شروع کرایا اور 12 بج کر دو منٹ تک کے لیے اجلاس ملتوی کردیا۔ دو منٹ کے وقفے کے بعد ایوان کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو تلاوت کلام پاک اور نعت کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی نوید قمر نے قرارداد پیش کی۔ قرارداد کے بعد اراکین کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ ایاز صادق نے اعلان کیا کہ 174 اراکین نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ یوں یہ اعصاب شکن مرحلہ آئینی طریقے سے انجام کو پہنچا۔

عمران خان 1333 روز تک وزیراعظم پاکستان رہے۔ تحریک انصاف نے 25 جولائی 2018کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 149 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ عمران خان نے اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق) ، متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی سمیت دیگر آزاد ارکان کو شامل کرکے حکومت بنائی تھی۔

انھوں نے 18 اگست 2018 کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور 10 اپریل 2022 کو اْن کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، جس کے بعد اْن کی وزارت عظمیٰ کا عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کا دور تقریباً3 سال اور 7 ماہ پر مشتمل رہا۔ اب اگلے نئے وزیراعظم کاانتخاب ہوگا۔پاکستان کی معیشت جس حالت میں پہنچ چکی ہے ، اسے استحکام کیسے دینا ہے، نئے وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری نے درمیانے طبقے کے کس بل نکال دیے ہیں،اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا بھی نئے وزیراعظم کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔سابق حکومت کی خارجہ پالیسی نے جو گل کھلائے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ نئے وزیراعظم پاکستان کی عالمی تنہائی کو کیسے دور کرتے ہیں، یہ بھی دیکھنے کی بات ہے،ایف اے ٹی ایف ، دہشت گردی اور منی لانڈرنگ جیسے حساس ایشوز کو ایڈرس کرنا بھی نئی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

پاکستان جس قسم کے حالات اور مشکلات سے دوچار ہے‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز آئینی اور قانونی دائرہ کار سے باہر نکل کر کوئی بھی کام نہ کریں۔ کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا کوئی غیر جمہوری یا غیرآئینی نہیں ہے‘ عوام کے منتخب نمایندے آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

اگر کسی سربراہ حکومت کو قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثرت حاصل نہیں رہتی تو آئینی تقاضا یہی ہے کہ وہ سربراہ حکومت نہیں رہ سکتا۔ پارلیمانی جمہوری نظام کے تحت وہی رکن اسمبلی وزیراعظم کا عہدہ برقرار رکھ سکتا ہے جسے قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہے۔ جمہوری ممالک میں حکومتیں عوام کے ووٹ سے بنتی ہیں جب کہ جمہوری حکومت کی ایک معینہ مدت ہوتی ہے جو آئین میں واضح طور پر موجود ہوتی ہے۔

اسی طرح وزیراعظم کے انتخاب اور اسے عہدے سے ہٹانے کا طریقہ کار بھی آئین میں متعین ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں وزیراعظم کو پارلیمان کی اکثریت سے محروم ہو کر عہدہ چھوڑنا پڑا۔ ویسے بھی جب کوئی حکومت چھوٹی جماعتوں کے تعاون سے قائم ہو تو اسے زیادہ سنبھل کر کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ چھوٹی جماعتیں حالات کی نزاکت کو بھانپ کر اپنی تعداد سے کہیں زیادہ اقتدار میں حصہ مانگتی ہیں‘ اتحادیوں کے بل بوتے پر قائم حکومتیں اپنے فیصلوں میں کمزور ہوتی ہیں۔

اس لیے میجورٹی پارٹی کا وزیراعظم اور حکومت ہونے کے باوجود‘ وہ اپنے پارٹی منشور اور اپنے ووٹرز اور حامیوں سے کیے گئے وعدوں پر پورا نہیں اترتا‘ تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ اس لیے تحریک انصاف کی قیادت کو حقائق تسلیم کر کے مستقبل کی سیاست کے خدوخال تیار کرنے چاہئیں۔ بجائے اس کے کہ یہ سمجھا جائے کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش ہوئی ہے یا ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے‘ مثبت سوچ کو اپنا کر مستقبل کی سیاست ترتیب دینی چاہیے۔ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعت کا زوال اقتدار سے محروم ہونے سے نہیں ہوتا۔

سیاسی قیادت اور سیاسی جماعت کا زوال اپنے طرز عمل سے ہوتا ہے۔ جمہوری نظام میں آئین و قانون کی بالادستی لازم ہے۔ اس نظام میں سیاسی جماعتیں جہاں آئین و قانون کو فالو کرتی ہیں‘ وہاں جمہوری اقدار‘ روایات کی بھی پاسداری کرتی ہیں۔ گھیراؤ جلاؤ‘ منفی ہتھکنڈے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کو وقتی کامیابی تو دلا سکتی ہیں لیکن طویل عرصے تک اس کامیابی کا تسلسل برقرار نہیں رکھ سکتے۔ جمہوری سیاست میں فہم و فراست اور تدبر اولیت رکھتے ہیں‘ سیاسی قیادت کو انھی اوصاف کا مالک ہونا چاہیے۔

عوام کے شعور اور فیصلے پر اعتماد رکھنا ہی سیاسی قیادت کی کامیابی کا زینہ ہوتا ہے۔ اب نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ جمہوری نظام کی ضرورتوں اور نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے امور مملکت چلائے‘ سیاسی مخالفین پر بلا تصدیق اور ثبوت کے الزام تراشی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کے ادارے کو انتظامی اختیارات دے کر مزید بااثر اور مضبوط بنایا گیا۔ جب تک الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر خود مختار اور بااختیار ادارہ نہیں بنایا جاتا‘ اس وقت تک کوئی بھی الیکشن شفاف نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔