3 سال 7 ماہ 10 دن

تنویر قیصر شاہد  پير 11 اپريل 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اقتدار کے دلربا اور دلفربا ایوانوں میں تین سال سات ماہ اور دس دن گزارنے کے بعد جناب عمران خان رخصت ہو چکے ہیں۔ جاتے جاتے انھوں نے جمہوریت دوستی کا ثبوت نہیں دیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اپنے ایک جانثار کارکن ، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، کو قربانی کا بکرا بنا کر مستعفیٰ ہونے پر مجبور تو کیا لیکن خود بہادری سے مستعفی ہوسکے نہ جرأت سے تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے لیے اُس ایوان میں آ سکے جس نے اُن کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج سجایا تھا۔

پی ٹی آئی کے مقتدر رفقا کی فرسٹریشن کا یہ عالم ہو چکا تھا کہ (اقتدار سے محرومی کی شب) خانصاحب کے دو سینئر اور قریبی افراد نے مبینہ طور پر صحافیوں سے بدتمیزی بھی کر ڈالی۔ خان صاحب پونے چار سال تک اپنے سیاسی حریفوں کو ’’ڈاکو‘‘ اور ’’چور‘‘ کے القابات سے یاد کرتے رہے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ خود جناب عمران خان نے اپنے آخری خطاب میں اپنے ناقدین میڈیا پرسنز کو ’’بے شرم‘‘ کہہ دیا ۔

دل دُکھانے کی بات یہ بھی سامنے آئی کہ خانصاحب اپنے آخری خطابات میں مسلسل بھارتی جمہوریت اور بھارتی خارجہ پالیسیوں کی کھلے الفاظ میں تعریفیں کرتے پائے گئے۔ سارا پاکستان اُن کی بھارت نوازی پر ششدر تھا۔ مزید حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان ایک طرف تو بھارت کی تعریفیں کررہے تھے لیکن دوسری طرف بھارتی سیاستدانوں کی جمہوریت نوازی کے نقوشِ قدم پر چلنے سے انکاری بھی تھے۔

مثال کے طور پر پچھلے ساڑھے سات عشروں کے دوران ڈیڑھ درجن سے زائد بار بھارتی وزرائے اعظم کے خلاف تحاریکِ عدم اعتماد پیش کی گئیں۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں تین بھارتی وزرائے اعظم ( ڈیوی گوڈا، وی پی سنگھ ، واجپائی) اقتدار سے محروم ہُوئے لیکن کسی بھارتی وزیر اعظم نے تحریکِ عدم اعتماد سے بچنے کے لیے ایوان میں وہ افسوسناک تماشے نہیں لگائے جو عمران خان صاحب نے لگائے۔بھارتی سیاستدانوں کی جمہوریت اور اپنے ووٹروں سے کمٹمنٹ کے کئی واقعات ہمارے سیاستدانوں کے لیے سبق کا باعث بن سکتے ہیں۔

مثلاً: نریندر مودی اور اُن کی پارٹی نے مرکزی اقتدار سنبھالنے سے پہلے، الیکشن مہمات کے دوران، اپنے کٹرہندو سپورٹروں سے جو وعدے کیے تھے ، اُن کا پچاس فیصد سے زائد وعدہ پورا کر چکے ہیں۔ان وعدوں میں بعض وعدے ایسے بھی تھے جن کے پورا کیے جانے پر بھارتی مسلمانوں اور ہم پاکستانیوں کے دل دُکھے ہیں۔

مثال کے طور پر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ بھارت کا سب سے بڑا مندر بنانے کا آغاز۔ ابھی حال ہی میں بھارتی پنجاب میں عام انتخابات کے نتیجے میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘(AAP) بھاری اکثریت سے جیتی ہے۔ اس پارٹی نے بھارتی مقتدر کانگریس پارٹی کو عبرتناک شکست دی ہے۔ عام انتخابات کے دوران AAPکی مرکزی قیادت نے بھارتی پنجاب کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ہم اقتدار میں آگئے تو اپنے اقتدار کے اولین ایام ہی میں تعلیم یافتہ عوام کو ہزاروں سرکاری ملازمتیں فراہم کریں گے ۔

مارچ 2022 کے وسط میں بھارتی پنجاب کے نئے منتخب وزیر اعلیٰ، بھگونت سنگھ مان، نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا :’’ہم پنجاب کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو 25ہزار سرکاری نوکریاں دے رہے ہیں۔

ان میں سے دس ہزار ملازمتیں محکمہ پولیس سے ہوں گی اور باقی پندرہ ہزار نوکریاںدیگر سرکاری محکموں میں ۔ یہ وعدہ ایک ماہ میں پورا کر دیا جائے گا۔ کسی نوجوان کے پاس جتنی بڑی ڈگری ہوگی، اتنی ہی بڑی سرکاری ملازمت اُسے فراہم کی جائے گی۔‘‘ مشرقی پنجاب سے آنے والی اطلاعات کے مطابق، نئے وزیر اعلیٰ بھارتی پنجاب، بھگونت سنگھ مان، نے مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ بھارتی پنجاب کے 25ہزار تعلیم یافتہ نوجوان خواتین اور مردوں میں یہ ملازمتیں تقسیم کی جا چکی ہیں۔ مان صاحب اپنے وعدے میں سرخرو ہو چکے ہیں ۔انھیں ہر طرف سے شاباش بھی مل رہی ہے۔

اِس سے قبل جب ’’عام آدمی پارٹی ‘‘ پانچ سال قبل اقتدار میں آنے کے لیے انتخابات لڑ رہی تھی تو اس نے دہلی کے غریب عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ کے تعاون سے ہم اقتدار میں آ گئے تو پہلی ترجیح کے طور پر دہلی کے عوام کو یہ سہولیات مفت فراہم کریں گے (1) دہلی کی سبھی خواتین کو مفت ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے گی (2) دہلی کے عوام کو مفت پینے کا پانی اور مفت بجلی فراہم کی جائے گی (3) دہلی میں بروئے کار سبھی سرکاری اسکولوں میں سب بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی اور نئے سرکاری اسکول بھی تعمیر کیے جائیں گے ۔

ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ دہلی میںAAPکے نوجوان وزیر اعلیٰ ، اروند کجریوال، چھاتی پر فخر سے ہاتھ مار کر دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم نے عوام سے کیے گئے یہ سبھی وعدے پورے کر دیے ، مودی اور بی جے پی میں ہمت ہے تو ہمیں جھٹلا کر دکھائیں ۔ کاش، ہمارا بھی کوئی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اپنے پاکستانی ووٹروں سے کیے گئے وعدوں میں اِسی طرح سرخرو ہُوا ہوتا۔عمران خان نے عوام کے دل پشوری کرنے کے لیے بڑے بڑے وعدے کیے تھے ۔

سبھی دعوے اور وعدے مگر باطل ثابت ہُوئے ۔ہم سب بھارت کو اپنا ازلی دشمن اور مخالف تو کہتے ہیں ( اور بجا کہتے ہیں) لیکن بھارت میں کئی ایسی خصوصیات بھی ہیں جن کی بنِا پر دُنیا بھر میں بھارت کی تحسین کی جاتی ہے ۔

مثال کے طور پر بھارتی جمہوریت کی مضبوط اور مستحکم روایات۔ابھی حال ہی میں پانچ بھارتی ریاستوں کے صوبائی انتخابات میں چار ریاستوں میں بی جے پی جیتی ہے اور ایک ریاست ( مشرقی پنجاب) میں بی جے پی کو شکست ہُوئی ہے۔ نئے وزیر اعلیٰ مشرقی پنجاب ، بھگونت سنگھ مان، جیت کر جب نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، سے ملنے گئے تو مودی جی نے کھلے دل اور مسرت سے مان صاحب کا استقبال کیا ۔

کھلکھلاتے ہُوئے دونوں ایک دوسرے کے گلے ملے۔ مان نے مودی کو اور مودی نے مان کو تحفے تحائف دیے۔ مودی نے مان کی اور مان نے مودی کی ہنستے مسکراتے تعریفیں بھی کیں ۔جب کہ ہمارا حال کیا ہے ؟ پچھلے پونے چار سال کے دوران ہم نے دیکھا کہ نہ سندھ کا وزیر اعلیٰ( مراد علی شاہ) وزیر اعظم عمران خان سے خوش دلی سے ملا اور نہ ہی ان گزرے برسوں میں وزیر اعظم عمران خان نے سندھ کے وزیر اعلیٰ ، مراد علی شاہ، کو لفٹ کرائی ۔

نتیجہ یہ نکلا کہ مرکزی اور سندھ حکومتوں میں شدید کشیدگی رہی ۔ دھکا اور دھچکا کھانے کے بعدسابق وزیر اعظم کہلانے والے عمران خان شاید اب رواداری اور جمہوریت دوستی کو کوئی سبق سیکھ سکیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔