اسٹریٹ چلڈرن کی بحالی کیلئے دور رس پالیساں بنانا ہونگی !

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 11 اپريل 2022
 ’اسٹریٹ چلڈرن‘ کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کی گفتگو ۔ فوٹو : فائل

 ’اسٹریٹ چلڈرن‘ کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کی گفتگو ۔ فوٹو : فائل

12 اپریل کو دنیا بھر میں ’سٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن‘ منایا جاتا ہے جس میں ان بچوں کے مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے اور ان کے حوالے سے کام کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔

اس اہم دن کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور اسٹریٹ چائلڈ کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ جبیں

(ڈائریکٹر سینٹر فار سوشل ڈویلپمنٹ اینڈ سوشل انٹرپرینیورشپ، پنجاب یونیورسٹی)

سٹریٹ چلڈرن 10 لاکھ ہوں یا 10ہزار، میرے نزدیک زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ بچے ہیں۔ بچہ گھر میں ہو یا گلی میں، اسے تمام انسانی حقوق حاصل ہیں ۔ ان کے حقو ق کی بات کوئی فلسفہ نہیں جو کسی کو سمجھ نہ آئے۔ والدین کو بھی معلوم ہے کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔

سب کو اپنا اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ اعداد و شمار صرف اس لیے اہم ہیں کہ ان بچوں کے حوالے سے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے پالیسی سازی کی جائے اور جو وسائل چاہئیں وہ مہیا کیے جاسکیں۔ جب ان بچوں کی تعداد سامنے ہوگی تو حکومت کو بھی معلوم ہوگا کہ تعداد کوئی بہت بڑی نہیں ہے، اس پر زیادہ وسائل بھی نہیں لگیں گے تو یقینا وہ کام کرنے پر تیار ہوگی۔ افسوس ہے کہ ہم ابھی تک اندازوں پر ہی چل رے ہیں۔

عالمی اداروں کی جانب سے سٹریٹ چلڈرن کے حوالے سے خوفناک اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں۔ کچھ ریسرچرز نے اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ حقیقت میں یہ نمبر زیادہ نہیں، کم وسائل خرچ کرکے ان بچوں کو سہولیات دی جاسکتی ہیں۔ میرے نزدیک حکومت، اکیڈیمیا، سول سوسائٹی، محققین و معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا، یہی ان کی بہتری کیلئے ضروری ہے۔

عدم تحفظ کا شکار بے سہارا بچوں کا قانون بنا۔ اس کے بعد سے اب تک ان بچوں کیلئے کوئی پالیسی نہیں بنائی جاسکی۔ بچہ سب کا سانجھا اور پورے معاشرے کی ذمہ داری ہوتا ہے، افریقا میں اسی ماڈل کو اپنایا گیا۔ میرے نزدیک پاکستان جیسے ملک میں بچوں کی ساری ذمہ د اری صرف والدین پر ڈالنا بھی درست نہیں ہے۔ میں نے اپنے ایک ریسرچ پراجیکٹ کے دوران ایف آئی اے کے تعاون سے ’کیمل جوکی‘ بچے جو باہر بھیجے جاتے تھے انہیں بازیاب کرواکر والدین کے حوالے کیا۔ ایک ماں کے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں جو ہوشربا ہیں۔

اس ماں نے کہا کہ میرے آٹھ بچے ہیں، ایک کو اگر کچھ ہو بھی جاتا ہے اور باقی پل جاتے ہیں تو یہ گھاٹے کا سودہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہماری معاشی اور معاشرتی مجبوریاں اس حد تک سنگین ہیں کہ والدین کچھ بھی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، احساس پروگرام، بیت المال کے ذریعے ایسے گھرانوں کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ افریقا میں جب ایچ آئی وی ایڈز کا مسئلہ پیدا ہوا تو انہوں نے سارا پروگرام ’چائلڈ سینٹرک‘ کر دیا۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، اگر یہ صحت مند ، محفوظ اور تعلیم یافتہ ہونگے تو ہمارا مستقبل روشن ہوگا۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں سٹریٹ چلڈرن کی عمر 30 سے 35 برس ہے، اس کی وجہ سہولیات کا فقدان ہے۔ انہیں خوراک نہیں ملتی، صفائی ستھرائی کے مسائل ہیں، ان کا استحصال ہوتا ہے، یہ مسائل اتنے بڑے نہیں ہیں کہ ان پر کام نہ ہوسکے، میرے نزدیک باآسانی ان مسائل کو دور کیا جاسکتا ہے، اس کیلئے کوئی اضافی ورک فورس درکار نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں ان بچوں کی بحالی کے حوالے سے زیادہ بجٹ درکار نہیں صرف بہتر پروگرامنگ کی ضرورت ہے۔

ماضی میں جب بچوں کے قاتل جاوید اقبال کا کیس سامنے آیا تو ہم نے، اکیڈیما اور محققین نے حکومت کو تحقیق کرکے دی، اعداد و شمار دیے، شفارشات پیش کی،جن پر کچھ کام بھی ہوا۔ اکیڈیمیا کا کام تحقیق کے ذریعے حکومت کو حقائق سے آگاہ کرنا ہے جس پر حکومت کو پالیسی سازی کرنی چاہیے۔ ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے حکومت کچھ نہیں کر رہی، بلکہ بہت سارے اقدامات ہوئے ہیں، حکومتیں بھی کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں ، ہمیں ان کو بھی سراہنا چاہیے تاہم جس پیمانے پر اور جس سطح کے اقدامات ہونے چاہئیں وہ تاحال نہیں ہوسکے ۔

افتخار مبارک

(نمائندہ سول سوسائٹی)

12 اپریل کو ہر سال ’سٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن‘ منایا جاتا ہے جس کا مقصد ان بچوں کے حوالے سے دنیا کو آگاہی دینا اور عملی اقدامات کرناہے۔ پاکستان کی بات کریں تو بدقسمتی سے ہمارے ہاں ’سٹریٹ چلڈرن‘ کے حوالے سے کوئی مستند اعدا د و شمار نہیں ۔

ادارہ شماریات یا کسی اور سرکاری ادارے کی جانب سے ان بچوں کی کوئی تعداد نہیں بتائی گئی بلکہ دہائیوں پرانے اعداد و شمار پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے اور یہی کہا جاتا ہے کہ ملک میں 15 لاکھ سٹریٹ چلڈرن موجود ہیں۔ یہ تعداد 2005-06ء میں تھی، اب تو آبادی میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ بچوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا ہو؟

اس وقت سٹریٹ چلڈرن کی تعریف بھی مختلف تھی، صرف سڑکوں اور گلیوں میں رہنے والے بچوں کو ہی سٹریٹ چلڈرن تصور کیا جاتا تھا مگر آج کی جدید تعریف کے مطابق وہ بچے جو گھروں سے بھاگ جاتے ہیںیا سڑکوں پر زیادہ وقت گزارتے ہیں، کسی دکان پر کام کرتے ہیں، جن کے والدین حیات ہیں مگر یہ بچے روزگار کیلئے سڑکوں پر اشیاء بیچتے ہوئے نظر آتے ہیں، بھیک مانگنے والے بھی اسی میں شمار کیے جاتے ہیں۔

اگر ان تمام بچوں کو دیکھا جائے تو ہمارے ہاں سٹریٹ چلڈرن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور جو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیںا ن سے کہیں زیادہ ہے۔ ’سٹریٹ چلڈرن‘ کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ کام نظر نہیںآتا۔ بدقسمتی سے ہم نے کبھی مستقبل کو دیکھتے ہوئے پالیسی نہیں بنائی، ہمارے ہاں تو 5 سالہ منصوبہ بندی بھی نہیں کی جاتی۔

افسوس ہے کہ ملک میں بچوں کے حوالے سے کوئی پالیسی ہی موجود نہیں ہے۔ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہیں ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومت اس حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے۔ پالیسی گائیڈ لائن فراہم کرتی ہے کہ کس طرح مسائل کو حل کرنا ہے، اسی کی روشنی میں پلان بنتا ہے، اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کے کردار کا تعین کیا جاتا ہے لیکن اگر پالیسی ہی نہ ہو تو مسائل کو کس طرح حل کیا جائے گا؟ ہمارا پرزور مطالبہ ہے کہ فی الفور پالیسی بنا کر بچوں کی حالت زار بہتر بنائی جائے۔ 2004ء میں عدم تحفظ کا شکار بے سہارا بچوں کا قانون منظور کیا گیا۔

اس کے بعد صرف یہ کام ہوا کہ بچوں کو سڑک سے اٹھا کر اداروں میں رکھ دیا گیا۔ یہ عارضی اقدام تھا، اس کے بعد جو کام کرنا تھا وہ نہیں ہوا۔ اداروں میں بچوں کو رکھنا حل نہیں ہے۔ میرے نزدیک اداروں کی سوچ ریسکیو کے بجائے تدارک اور معاشرے کی شمولیت یقینی بنانا ہونی چاہیے۔

جب تک کمیونٹی کو شامل نہیں کیا جائے گا تب تک مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ اس حوالے سے لوگوں کے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، خصوصی طور پر والدین کے رویے بدلنے پر کام کرنا ہوگا۔ مار پیٹ، متشدد رویوں، سختی، پیئر پریشر و دیگر وجوہات کی وجہ سے بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں، بعض بچے  گاؤں سے شہر میں بڑے خواب دیکھ کر آجاتے ہیں اور یہاں سڑک پر رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

بچوں کی بحالی اور تحفظ کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی یا حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ ان بچوں کی تعلیم کیلئے 8 بجے سے 2 بجے تک والا روایتی سکول نہیں چلے گا بلکہ ہمیں سمارٹ ایجوکیشن کی طرف جانا ہوگا۔ سیکنڈ شفٹ سکول بنائے جائیں، انہیں سکل بیسڈ ایجوکیشن دی جائے اور ایسے خاندانوں کو سوشل پروٹیکشن پروگرام کے تحت ریلیف دیا جائے، اس سے ان کا طرز زندگی بہتر ہوگا اور یہ بچے تعلیم بھی حاصل کر سکیں گے۔

حقوق اطفال کے حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کا فریق ہے اور بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی کہتی ہے کہ بچوں کو اصل حقائق کے ساتھ تسلیم کریں، یہ کوئی حل نہیں کہ کسی بچے کو سینٹر میں رکھ کر اس کے گھر سے دور کر دیا جائے بلکہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے اس کی حالت بہتر ہوسکے۔ ہمارے قانونی ڈھانچے میں سقم ہے۔

بے شمار والدین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اور ان کے بچے اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ بچوں کا ’فارم ب‘ نہیں بنتا اور نہ ہی انہیں کوئی سہولیات ملتی ہیں، یہ بچے سکول میں داخلہ بھی نہیں لے سکتے۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے سٹریٹ چلڈرن اس کے اہل نہیں ہیں۔ اس کیلئے کم از کم تعلیم کی شرط کی وجہ سے یہ بچے تربیت حاصل نہیں کرسکتے۔

لہٰذا ان کے لیے ایسے ٹریڈز متعارف کرائے جائیں جن سے یہ بچے لنک ہوسکیں اور ہنر سیکھ کر اپنا روزگر کما سکیں۔ سڑکوں پرموجود یہ بچے خوفناک صورتحال سے دو چار ہیں۔ ان پر تشدد ،  زیادتی، استحصال کے واقعات ہوتے ہیں، ہمارے پاس کیس مینجمنٹ یا ریفرل کا کوئی لیگل فریم ورک موجود نہیں ہے، اس حوالے سے تمام صوبوں میں قانون سازی جائے اور چائلڈ پروٹیکشن پالیسی لاکر ان بچوں کو حقوق و تحفظ دیا جائے۔

راشدہ قریشی

(نمائندہ سول سوسائٹی)

سٹریٹ چلڈر ن کو بے شمار مسائل درپیش ہیں جن کا حل بہت ضروری ہے۔ یہ بچے اگر تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو ان کیلئے یہ راہ بھی ہموار نہیں ہے۔ والدین کا نکاح نامہ رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان بچوں کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں۔ فارم ’ب‘ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے سکول میں داخلہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی سکول انتظامیہ ان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہوتی ہے۔

آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی شہری سے کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی۔ یہ بچے اس ملک کے شہری ہیں لہٰذا کسی بھی بچے سے کوئی امتیازی سلوک یا رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ بچے جس ماحول میں رہ رہے ہیں وہ انتہائی خطرناک ہے۔ سڑکوں، گلیوں اور کچی آبادیوں میں صفائی ، سیوریج کا ناقص انتظام ہے۔ یہ بچے معدہ و دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کے پاس علاج معالجے کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔

ان بچوں اور ایسے خاندانوں کے حوالے سے شعبہ صحت کیا کر رہاہے؟انہیں صحت کی سہولیات دینے کیلئے موبائل میڈیکل وینز متعلقہ علاقوں میں بھیجی جاسکتی ہیں جو ان کا مناسب چیک اپ کریں، ادویات دیں اور ان کی صحت کا خیال رکھیں۔ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے بات کریں تو یہ بچے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کے زیادتی کے کیسز بھی سامنے آتے ہیں اور بھی مختلف مسائل ہیں جن سے یہ بچے دوچار ہیں۔ اس حوالے سے حکومتی پالیسی کیا ہے؟ ملک میں تو چائلڈ پروٹیکشن پالیسی ہی موجود نہیں ہے۔

یہ بچے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مالکان کا رویہ ان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، مارپیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گھروں میں بھی ان پر تشدد ہوتا ہے اور پھر ان کیلئے درمیانی راستہ گھر سے بھاگ جانا ہوتا ہے۔ انہیں تعلیم، صحت، خوراک، تحفظ سمیت بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ میرے نزدیک ان کے والدین کے ساتھ کام کرنے اور ان کے رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان والدین کو کیا سہولیات دی جاسکتی ہیں؟ انہیں چھوٹے قرضوں اور حکومتی سکیموں سے لنک کیا جائے، اس سے ان کی مالی حالت بہتر ہوگی جس سے بچوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ حکومتی سکیموں سمیت اپنے تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ یہ بچے سکول میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انتظامیہ تعاون نہیں کرتی۔ان بچوں کو سہولت دی جائے، اگر ڈاکیومنٹس پورے نہیں ہیں تو ان کی مدد اور رہنمائی کی جائے، ان کے والدین کے شناختی کارڈ اور بچوں کے فارم ’ب‘ کے حوالے سے تعاون کیا جائے۔

یہ بچے نارمل زندگی نہیں گزار رہے، ان کے لیے روٹین سے ہٹ کر اقدامات کرنا ہونگے، سیکنڈ شفٹ سکول بنانا ہونگے اور انہیں سکل بیسڈ ایجوکیشن دینا ہوگی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سکولوں میں اساتذہ کے رویے اور سلوک کی وجہ سے یہ بچے سکولوں سے بھاگ جاتے ہیں، جب کسی دکان پر کام کرنے جاتے ہیں تو وہاں بھی ان پر مار پیٹ کی جاتی ہے لہٰذاہمیں لوگوں کی سوچ اور رویے تبدیل کرنا ہونگے۔

احمد ظفر

(سٹریٹ چائلڈ)

میرا تعلق سعید پارک شاہدرہ کے علاقے سے ہے۔ میں ڈائینگ کا کام کرتا تھا، اس سے پہلے ایک موٹرسائیکل مکینک کے پاس کام کرتا تھا۔ میرے استاد مجھ پر بدترین تشدد کرتے تھے ۔ اب میں سکول میں تعلیم حاصل کرر ہا ہوں اور چوتھی جماعت کا طالب علم ہوں۔ میں نے اپنے دیگر دوستوں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ نہیں مانتے، سب کی مختلف مجبوریاں ہیں۔ میرے والد سائیکل مرمت کرنے کا کام کرتے ہیں۔

میں اب تک 3 مرتبہ گھر سے بھاگ چکا ہوں، میں بھاگ کر مسجد چلا جاتا تھا۔ اس وقت میں جس سکول میں پڑھ رہا ہوں وہاں کھانا بھی ملتا ہے اور پینے کیلئے صاف پانی بھی۔ ہمارے علاقے میں صفائی نہیں ہے، وہاں پانی بھی گند ا ہے اور سب مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ میرا مطالبہ ہے کہ ہمارے علاقے میں صفائی، ستھرائی کا کام ہونا چاہیے اور ایک سکول لازمی کھلنا چاہیے۔

یہ سکول سیکنڈ شفٹ کا ہونا چاہیے تاکہ ہم لوگ صبح کام کریں اور شام کو تعلیم حاصل کرلیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے دوست بھی تعلیم حاصل کریں ۔ ہمارے والدین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے، اس پر بھی کام کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔