ملک دشمنی ترک کیجئے

حافظ محمد عبیدالرحمٰن  منگل 12 اپريل 2022
عمران خان اور ان کے چاہنے والوں سے گزارش ہے کہ خدارا فوج پر حملے بند کیجیے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان اور ان کے چاہنے والوں سے گزارش ہے کہ خدارا فوج پر حملے بند کیجیے۔ (فوٹو: فائل)

مجھے آج بھی بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب پاکستان آرمی کی کوئی گاڑی پاس سے گزرتی تھی تو ہم تمام بچے ہاتھ ماتھے تک لاکر پاک فوج کو سلام کرکے اور جواباً سامنے والے فوجی سے سیلوٹ وصول کرکے گویا مقصدِ محبت حاصل کرلیا کرتے تھے۔ جیسے جیسے زندگی کا پہیہ چلتا گیا ہم بھی پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ہونے والی موشگافیوں کے ذریعے یہ جانتے گئے کہ افواجِ پاکستان ہی دراصل اساسِ پاکستان ہے۔

اقتدار کی راہداریوں میں ہوتی تبدیلیاں گواہی دیتی رہیں کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ نامی کوئی خلائی مخلوق بھی ہے اور ایک بات تو عوام الناس میں زبان زد عام ہے کہ ایجنسیاں ہر ایک عمل سے باخبر ہوتی ہیں، لہٰذا احتیاط ضروری ہے۔

ملک کے اندر ہونے والی تباہی اور نالائقی کی ذمے داری آج تک کسی بھی حکومت نے نہیں لی، ہمیشہ نزلہ اپوزیشن پر گرایا۔ جب بات زیادہ بگڑ گئی تو اسٹیبلشمنٹ کو ذمے دار ٹھہرایا اور حکومت سے نکل گئے۔ 2018 میں نواز شریف نے خلائی مخلوق کو خوب لتاڑا تو ہم جیسے سیاست سے نابلد طلبا کے سامنے سیکھنے کو کچھ نیا مواد تھا کہ ہماری فوج کا ایک رخ یہ بھی ہے۔

مگر قیامت تو تب برپا ہوئی جب عدم اعتماد کی تحریک میں ناکام ہوتے ہوئے عمران خان نے اپنی سیاسی نالائقی کا ملبہ بھی متحدہ اپوزیشن اور ریاست ہائے متحدہ امریکا سے ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ پر ہی ڈال دیا۔

تاریخ کا مطالعہ کیا تو جو زائچہ نظر آیا وہ یہ تھا کہ جس سج دھج سے عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ نے سپورٹ کیا کبھی کسی اور حکومت کے مقدر میں یہ محبت دیکھنے کو نہ ملی۔ حتیٰ کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا سے درخواست تک کردی کہ کچھ عرصہ مثبت رپورٹنگ کریں پھر آپ کو حکومت کی حقیقی کامیابیاں نظر آنے لگیں گی۔

گویا عمران خان وہ نالائق طالبعلم تھا جس کو والدین نے مہنگے ترین پرائیویٹ اسکول میں اس امید پر داخل کروایا تھا کہ وہ کچھ بن کر نکلے گا اور جواب میں اس کی نالائقی کو چھپانے کےلیے اسکول ہر امتحان میں اس کو ایک عدد ٹرافی اور 100 میں سے 110 نمبر دے کر رزلٹ شیٹ والدین کو ایسے ہی بند لفافے میں ارسال کردیا کرتا تھا، جیسے عمران خان کو مبینہ طور پر اسد مجید نامی سفیر نے امریکا سے ارسال کیا ہے۔

اگر ہم ایک فیصد حقائق کی بات ہی کرلیں تو عمران خان سیاسی، معاشی اور بالخصوص معاشرتی محاذ پر انتہائی بھونڈے طریقے سے ناکام سیاستدان واقع ہوئے ہیں، جنہوں نے معاشرے کے اندر گالم گلوچ اور عدم برداشت کو فروغ دیا ہے۔ نعرے 100 دن میں انقلاب اور نظام درست کرنے کے تھے اور آج چار سال بعد بھی حکومت سے نکلتے ہوئے چور چور کے ساتھ عدلیہ اور فوج پر بھی رکیک حملے کرتے جارہے ہیں۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی ہی طرح ان کے چاہنے والے بھی اخلاقی طور پر اتنے ہی کمزور ثابت ہورہے ہیں، اور چاہتِ عمران میں اپنے ہی ملک کی افواج کے خلاف نعرے بازی اور فوج مخالف پوسٹیں کرنے سے باز نہیں آرہے۔ اسی عمل کا مظاہرہ پی ٹی آئی کی سپورٹ میں نکالے گئے جلوسوں میں واضح دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ جلوس میں شامل افراد فوج مخالف بینرز اٹھائے کھلا چیلنج دیتے دکھائی دیئے۔

پی ٹی آئی کے حمایتیوں کے برعکس پاک فوج کے چاہنے والے پاک فوج کے حق میں پوسٹ کرتے ہوئے پی ٹی آئی سپورٹرز کو احساس دلا رہے ہیں کہ آپ کی حمایت کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ہو لیکن فوج کو برا بھلا کہہ کر آپ خود ملک دشمنی کررہے ہیں۔

انتہائی ادب سے عمران خان اور ان کے چاہنے والوں سے گزارش ہے کہ خدارا فوج پر حملے بند کیجیے۔ دشمن کی خوشی دیدنی ہے۔ گزشتہ دنوں ہی انڈیا کے چینلز نے سرخیاں لگائی ہیں کہ عمران خان کے چاہنے والے افواج پاکستان سے آزادی مانگ رہے ہیں۔ انوکھا لاڈلا نہ بنیں۔ افواج پاکستان ہیں تو پاکستان ہے، ورنہ اس ملک کے اتنے ٹکڑے ہوجائیں گے کہ ہر ایک ضلع پر مشتمل الگ ریاست بن جائے۔

اگر آج ہم آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں، مخالفین کو جی بھر کر لتاڑنے کے بعد اطمینان سے لمبی تان کے سوجاتے ہیں تو اس کے پچھے ہر لمحہ الرٹ اور جاگتا ہاتھ اگر کوئی ہے تو وہ افواج پاکستان ہے۔
پنجابی کا ایک مشہور فقرہ ہے:
’’بندہ لمبیاں تان کے تاں سوندا اے، جے ہووے کسے شیر دی جوہ اچ‘‘

اللہ عمران خان اور ان کے چاہنے والوں سپورٹرز کو عقل عطا کرے اور وہ اس طرح ملک دشمنی سے باز رہ سکیں۔

پاکستان زندہ باد
افواج پاکستان پائندہ باد

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔