نئی حکومت کو درپیش معاشی و سفارتی چیلنجز

ایڈیٹوریل  منگل 12 اپريل 2022
عوام پر بلاواسطہ ٹیکس کم کرکے صاحب ثروت لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جانا نئی حکومت کی حکمت عملی میں شامل ہونا چاہیے۔  فوٹو : آن لائن

عوام پر بلاواسطہ ٹیکس کم کرکے صاحب ثروت لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جانا نئی حکومت کی حکمت عملی میں شامل ہونا چاہیے۔ فوٹو : آن لائن

ملک میں طویل عرصے سے جاری سیاسی و معاشی بحران کے بعد نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے، سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوا ہے۔

پیر کو ملک کے نئے وزیراعظم کے انتخاب سے قبل پاکستان اسٹاک ایکسچینج چالیس ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد بھی عبور کرگئی، جب کہ ڈالر کی قدر میں بھی کمی دیکھی گئی، جو کہ خوش آیند امر ہے ، لیکن ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ نئی حکومت کے لیے معیشت کو درپیش چیلنجز اپنی جگہ باقی رہیں گے۔

گردشی قرضوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔ تجارتی خسارے میں کمی پر کیسے قابو پایا جائے، روپے کی گرتی ہوئی قدر کو کیسے بحال کیا جائے۔ قرضوں کو اتارنے کے لیے کیا حکمت عملی وضع کی جائے۔

سابق حکومت نے گزشتہ ماہ جو سبسڈی پیکیج دیا تھا جس کے تحت پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں کم کی گئی تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی حکومت یہ سبسڈی جاری رکھ پائے گی؟ دوسری جانب آئی ایم ایف بھی اس انتظار میں ہے کہ اب قرض کی اگلی قسط کے اجرا کے لیے نئی حکومت سے ہی بات چیت کی جائے ، جب کہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال اور اگلے برس پاکستان کو اب تک کے تخمینوں کے مطابق لگ بھگ30 ارب ڈالرز کی رقم واپس کرنی ہے۔ نئی اتحادی حکومت کو جو چیلنجز درپیش ان میں معاشی سطح پر مہنگائی عروج پر ہے۔

ڈالر آسمان کی بلندی پر اور قرضوں کا بوجھ عوام پر۔ ملک پر ایک سو بلین ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا جب کہ سرمایہ کار حکومت کو خبردار کر رہے تھے کہ شرح سود بڑھانے سے معیشت کا مزید جنازہ نکلے گا۔ دوسری جانب سفارتی محاذ پر پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔ چین سی پیک کی رفتار سست ہونے سے پریشان ہے۔ امریکا، چین اور روس سے بڑھتی ہوئی قربت پر خفا ہے جب کہ یورپی یونین کی بھی کم و بیش پاکستان کے بارے میں وہی رائے ہے، جو امریکا کی ہے۔

نئی حکومت کو پی ٹی آئی کی سابق حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف اقدامات کو پلٹنا ہوگا اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن بجٹ پیش کرنا ہوگا لیکن موجودہ حکومت کے لیے سخت اقدامات کرنا مشکل ہو گا کیونکہ وہ ’’مہنگائی مکاؤ مارچ‘‘ کرکے اقتدار میں آئے ہیں۔

بین الاقوامی منڈی میں اشیاء اور پی او ایل کی قیمتوں پر سپر سائیکل ہے اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ امریکا اپنی پالیسی بڑھا رہا ہے، اس لیے ڈالر کی مانگ بڑھے گی لیکن ہمارے پالیسی سازوں نے کافی تاخیر کے بعد ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھایا ہے۔ سب سے پہلے انھیں آئی ایم ایف کو مالیاتی جگہ حاصل کرنے کے لیے راضی کرنا ہو گا تاکہ اصلاحی اقدامات کیے جا سکیں۔

سب سے پہلے انھیں پی او ایل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا لہٰذا مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے۔ ملک کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بنانے کی ضرورت ہے جو 11.3 ارب ڈالرز کی کم ترین سطح پر آچکے ہیں۔ فنڈز کے چینی رول اوور (قرضے کا تسلسل یا تجدید عموماً نئی شرح پر) کو آگے بڑھانا چاہیے اور حکومت کو دو طرفہ اور کثیر جہتی شراکت داروں کے ساتھ بڑھتے ہوئے فنڈنگ کے لیے فعال طور پر مشغول ہونا چاہیے۔ 32ارب ڈالرز سے زیادہ بیرونی فنانسنگ کے لیے بہتر شرائط پر ساتویں جائزے کی کامیاب تکمیل کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف قرضوں کی وصولی چاہتا ہے تو اس کے لیے یا تو ہمیں غیر پیداواری اخراجات کم کرنے چاہیں یا پھر ترقیاتی پروگراموں کو معطل کرنا چاہیے۔ ایسے پروگراموں کو معطل کرنے سے عوام کے لیے مشکلات بڑھیں گی لیکن حکومت کو ایسے فیصلے کرنے پڑیں گے۔

عمران خان نے پورے ملک میں مظاہروں کا بھی اعلان کر دیا ہے، جس سے نہ صرف ملک میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے مداخلت کا خطرہ بھی رہے گا، اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک قومی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ جس میں صوبوں کے حقوق اور اداروں کے آئینی حدود کے حوالے سے ڈائیلاگ ہو اور پھر ایک ایجنڈا تیار کیا جائے، جو کچھ سالوں تک نافذ کیا جائے، قومی ایجنڈے کے بغیر عدم استحکام بڑھے گا۔

کوئی بھی ملک اپنے مفادات کے بغیر کسی دوسرے ملک سے تعلقات استوار نہیں کرتا لہٰذا نئی حکومت کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقت پسندی کو مد نظر رکھنا چاہیے، سفارتی سطح پر اقوام عالم سے تعلقات کی بہتری کے چیلنجز پر بات کی جائے تو پاکستان کے لیے فائدہ ہے کہ امریکا کے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھے، یہ ہمارے حق میں نہیں ہو گا کہ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ دوستانہ نہ ہوں۔

نریندر مودی کی بات کریں تو اس کی سوچ انتہا پسندانہ ہے اور اس کا ماضی سب کے سامنے ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ شیو سینا بن چکی ہے کیونکہ شیوسینا کی مرضی کے بغیر ہمارے کھلاڑی، فنکار وغیرہ بھارت نہیں جاسکتے۔ پاک بھارت معاملات بہتر نہ ہونے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی رکاوٹ ہے جب کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ عالمی منظر نامے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔

بھارت، امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک طرف جب کہ پاکستان ، چین ، روس ، ایران اور ترکی دوسری طرف نظر آرہے ہیں لہٰذا اب معاملات اسی تناظر میں آگے بڑھیں گے۔ کیا کوئی تصور کرسکتا تھا کہ روس افغانستان میں ثالثی کا کردار ادا کرے گا ؟ حالانکہ یہ سارا معاملہ تو اس کے لیے ہی بنایا گیا تھا اور وہاں موجود طالبان اس کے خلاف استعمال ہوئے، اور ایک روز قبل روس نے پہل کرتے ہوئے طالبان حکومت کے سفارت کار کو تسلیم کیا ہے۔ چین ہو یا امریکا، پاکستان کو اپنے مفادات پر بات کرنی چاہیے اور انھیں مدنظر رکھتے ہوئے بہتر تعلقات کو فروغ دیا جائے۔

پاکستان کو خوف کے عالم میں اپنی خارجہ پالیسی نہیں بنانی چاہیے اور نہ ہی کسی ایک کی ناراضی کے ڈر سے کسی دوسرے سے پیچھے ہٹنا چاہیے بلکہ اپنے معروضی حالات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں سے ہی اچھے تعلقات قائم ہوسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ افغانستان میں امن ہمارے مفاد میں ہے جس کے لیے بھارت کے ساتھ معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، ہم جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ابدی مسئلہ ہے جو حل نہیں ہوسکتا تاہم امن کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔

متحدہ اپوزیشن نے اقتدار میں آنے سے قبل اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ برسر اقتدار آتے ہی نہ صرف غربت کا خاتمہ ہوگا بلکہ بیروزگاری کا خاتمہ اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے گا۔ اس کا سادہ اور بہترین حل تو ٹیکس کے نظام کا فعال ہونا ہے، جس کے تحت ایسے ٹیکسوں کا اطلاق نہ کیا جائے کہ جس سے عام آدمی متاثر ہو۔ ملک کے محدود ٹیکس نیٹ کو وسیع کرکے ٹیکس کے نظام کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔

عوام پر بلاواسطہ ٹیکس کم کرکے صاحب ثروت لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جانا نئی حکومت کی حکمت عملی میں شامل ہونا چاہیے جب کہ معاشی صورتحال پر قابو پانے کے لیے ٹاسک فورس جو کہ بیرون ممالک سے پیسہ لا سکے اور مین پاور پالیسی کی شدید ضرورت ہے جس کے تحت با ہُنر لوگ باہر سے زیادہ سے زیادہ پیسہ بھجوا سکیں۔ ان اقدامات کے علاوہ ہمیں اپنی زراعت کو بہتر بنانے کی ازحد ضرورت ہے۔ زراعت کو فروغ دیے بغیر معاشی ترقی کا تصور دھندلا جاتا ہے۔

ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی اخراجات کم سے کم کیے جائیں۔ غیر ترقی یافتہ منصوبہ کے بجائے ترقی یافتہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور جی ایس ٹی سے حاصل ہونے والے وسائل کم کم از کم پچاس فیصد ترقی یافتہ منصوبوں پر خرچ کے جائیں، اس سے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہونگے، سرمایہ کاری بڑھے گی، زرمبادلہ کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔

زرمبادلہ کے ذخائر میں جو تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے اس کا خاتمہ ہوگا۔ عوام کی قوت خرید سے منڈی کو سہارا ملے گا جو کہ اس وقت حالات کا تقاضا ہے۔ اقتصادی پسماندگی کی ایک وجہ وسائل کا لامحدود نہ ہونا ہے۔ جب ٹیکس کم کیے جاتے ہیں تو قلیل مدت میں سرکار کی آمدنی کے ذرایع میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس موقعے پر حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ ترقیاتی اخراجات پر کٹوتی لگائے یا غیر ترقیاتی اخراجات پر۔

پاکستان کو نئے دور میں ایسی اقتصادی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا جس میں اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ترقیاتی عمل اور نظریات کے متعلق اپنے طرز فکر کو مضبوط کریں۔ جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو اہمیت دیں۔ عوام اور ریاست کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا کو قائم کریں تاکہ ترقی کے لیے اٹھنے والے ابتدائی سفر میں عوام اس قافلے میں شامل ہو جائیں اور یہ قافلہ خوش اسلوبی سے جانب منزل رواں دواں ہو جو کہ پاکستان کے استحکام کی منزل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔