پاکستان کی جمہوریت

مزمل سہروردی  منگل 12 اپريل 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

یہ امر نہایت ہی افسوسناک ہے کہ عمران خان نے پاکستان میں پر امن انتقال اقتدار کی روایت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے نزدیک کرسی بچانے کے لیے جس حد تک بھی جانا پڑے وہ جائز تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ ملک کے آئین وقانون کے ساتھ کھیل رہے تھے۔

افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی عملدرآمد کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ ایسے راستوں کی تلاش میں تھے کہ اس فیصلہ کی حکم عدولی کرکے بھی کیسے اقتدار کو قائم رکھا جا سکتا ہے۔انھیں مفاہمتی انصاف، نظریہ ضرورت اور جونیجو فارمولے جیسے فیصلے کی امید تھی لیکن فیصلہ آئین کے تحت آیا۔ جب ملک میں ایک جمہوری حکمران آئین کی دھجیاں اڑانے لگ جائے تو دو ہی راستے بچ جاتے ہیں  یا ملک میں آمریت آجاتی ہے یا آئین کے محافظین اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

عمران خان اور ان کے وزرا کے بیانات صاف ظاہر کر رہے تھے کہ وہ اقتدار اپنے سیاسی مخالفین کو دینے کے بجائے ایک ایسے آئینی بحران کی طرف جانا چاہتے ہیں جہاں فوج آنے پر مجبور ہو جائے۔

آئینی بحران شدید سے شدید تر کیا جا رہا تھا کہ ملک میں فوج کے آنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہ رہ جائے۔ معاشی حالات بھی جان بوجھ کر ایسے خراب کیے جا رہے تھے کہ جنرل باجوہ اقتدار سنبھالنے پر مجبور ہو جائیں۔ عوام بھی کہنے لگ جائیں کہ اب فوج کے سوا کوئی حل ہی نہیں ہے۔ شاید عمران خان کی سوچ میں سیاسی مخالفین کی حکومت کے بجائے مارشل لاء زیادہ بہتر تھا۔

اسی لیے جان بوجھ کر ایسی خبریں پھیلائی جاتی تھیں کہ فوج اقتدار سنبھالنے پر مجبور ہو جائے۔ ایک ایسا ماحول بنایا جاتا تھا کہ لوگ اس کے بارے میں بات کرنے لگ جائیں۔ اس حوالے سے چوہدری پرویز الہیٰ کا وہ مشہور انٹرویو بھی سامنے ہے جس میں انھوں نے کہا کہ عمران خان اب نجی محفلوں میں فوج اور جنرل باجوہ کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ عمران خان ملک میں مارشل لاء کے لیے ماحول بنا رہے تھے۔ اسی لیے یہ کہا جاتا تھا کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے۔ ابھی ہمارے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ یقینا وہ تمام آپشن غیر آئینی تھے۔

لیکن عمران خان کی تمام تدبیریں ناکام ہو گئیں۔ کیونکہ عسکری قیادت سازگار ماحول کے باوجود اقتدار پر قبضہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ فوج سیاسی عمل اور جمہوریت کو ہی آگے بڑھانا چاہتی تھی۔ شاید عمران خان اس کا اندازہ نہیں کر سکے۔ عمران خان ماحول بنا رہے تھے کہ 1999 جیسے حالات نظر آئیں اور فوج اقتدار پر قبضہ کرلے۔ جنرل باجوہ کو ہٹائے جانے کا ماحول اسی لیے بنایا جاتا تھا کہ وہ رد عمل میں اقتدار پر قبضہ کر لیں۔

1977جیسا ماحول بھی بنا رہے تھے جہاں ملک میں پر امن انتقال اقتدار کے تمام راستے بند ہو جائیں ۔ وہ بھی سڑکوں پر ہوںا ور اپوزیشن بھی سڑکوں پر ہو۔ اس لیے ایک ہی دن جلسے کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ سڑکوں پرلڑائی ہو جائے اور 1977جیسا ماحول بن جائے۔ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے پس پردہ کردار لڑائی کے موڈ میں تھے۔

عمران خان نے نیوٹرل کو جانور کہہ کر بھی تنازعہ بڑھانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ جواب الجواب شروع ہو جائے گا۔ لیکن ان کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگا۔ جب اسٹیبلشمنٹ شدید کوششوں کے باوجود اپنے فیصلہ پر قائم رہی۔ لیکن عمران خان شاید یہ اندازہ نہیں کر سکے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نہ تو ضیاء الحق ہیں اور نہ ہی مشرف ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں اس دفعہ اشارہ نہ ملنے پر کس قدر پریشان تھیں۔ وہ خود کہتے تھے کہ پہلے بتا دیا جاتا تھا کہ آپ نے یہ فیصلہ کرنا ہے۔ لیکن اس دفعہ کوئی کچھ بتا ہی نہیں رہا۔

سب کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنا فیصلہ خود کریں۔ ایم کیو ایم اس کی ایک مثال ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) اس کی ایک مثال ہے۔ باپ پارٹی اس کی ایک مثال ہے۔ ورنہ جب عمران خان اقتدار میں آئے تھے یہ سب لوگ اسٹیبلشمنٹ نے ہی انھیں دیے تھے۔ لیکن اب تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو آزاد چھوڑ دیا تھا۔ اسی لیے ہم نے چھوٹی اور کمزور سیاسی جماعتیں ٹوٹتی بھی دیکھی ہیں۔ مسلم لیگ (ق) ٹوٹ گئی۔ چوہدری برادران کا گھر تقسیم ہو گیا۔ باپ پارٹی ٹوٹ گئی۔

ہم سب اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خلاف ہیں۔ اس پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب جب انھوں نے نیوٹرل ہو کر دکھا دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ اگر انھیں مارشل لاء لگانے کی دعوت دی بھی جائے تو وہ نہیں لگاتے۔

وہ جمہوری عمل کو ہی آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ عمران خان کی بہت مدد کی گئی لیکن وہ اگر ساڑھے تین سال میں بھی سیاسی طور پر اپنے معاملات حل کرنے کے قابل نہیں ہو سکے تو یہ اسٹیبلشمنٹ کا قصور تو نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی جمہوریت اور آئین کی محافظ بن کر سامنے آئی۔جمہوریت کے تسلسل پر اس کا عزم قابل تحسین ہے۔

باقی جہاں تک بی بی سی کی خبر کا تعلق ہے تو دوستوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں پڑھا ۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی انھیں کسی بھی قسم کا کوئی بھی حکم پاس کرنے سے روک دیا ہوا تھا۔ یہ ضرور ہے کہ سپریم کورٹ اپنے حکم پر پہرہ دے رہی تھی۔

وہ عمران خان کو آئین سے کھیلنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے رات کو بھی کھلے تھے۔ اگر آئین کی سربلندی کے لیے عدلیہ کاکردار بھی قبول نہیں۔ تو صاف ظاہر ہے کہ عمران خان چاہتے تھے کہ ملک میں آئین ختم ہو جائے۔ اس لیے خود بھی آئین کو روند رہے تھے اور جو آئین کو روندنے کی طاقت رکھتے ہیں انھیں دعوت بھی دے رہے تھے۔ لیکن اس بار انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ریاست کے تمام ستون آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہی عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی بن گئی ہے۔ وہ شاید یہ سمجھ ہی نہیں سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔