نئی حکومت اور میثاق معیشت

ایڈیٹوریل  بدھ 13 اپريل 2022
نو منتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ انتہائی صائب ہیں۔ فوٹو: اسکرین گریب

نو منتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ انتہائی صائب ہیں۔ فوٹو: اسکرین گریب

قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ جمہوریت اور معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیڈ لاک کے بجائے ڈائیلاگ اور مخاصمت کے بجائے مفاہمت سے کام لینا پڑے گا، بطور خادم پاکستان چاروں صوبوں کو ساتھ لے کر چلوں گا اور پورے ملک کو یکساں ترقی کے راستے پر ڈالیں گے۔

اس وقت پاکستان کو تاریخ کے سب سے بڑے بجٹ خسارہ کا سامنا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ، دو کروڑ لوگ بے روزگار اور کروڑوں پاکستانی مہنگائی کا شکار ہیں۔ پونے چار سال میں کھربوں کے قرضے لیے گئے۔ دوسری جانب ترجمان وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت سے مضبوط تعلقات رہیں گے، دونوں ممالک مسلسل رابطوں میں ہیں، ہمیشہ جمہوری پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنے کے حق میں ہیں ۔

نو منتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ انتہائی صائب ہیں ، بلاشبہ انھیں قوم کا مسائل ادراک ہے اور ان کے حل کے لیے تندہی سے کام کرنے کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں، شہباز شریف صاحب انتظامی و حکومتی امور کا چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ، وہ پنجاب کے تین بار وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں ، اور پنجاب کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں انھوں نے کلیدی کردار اد ا کیا ہے۔

وہ سیاسی الجھاؤ اور محاذ آرائی کے بجائے معاشی بہتری کے لیے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اب ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ معیشت کو درست سمت پر استوار کرنے اور لوگوں کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے حکومتی سطح پر تیزی سے اقدامات اٹھائیں گے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ گزشتہ دوچار دن کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً آٹھ روپے کی کمی ہوئی ہے۔

سونے کی قیمت میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے، اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں بہتری آئی ہے ۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ملک کی مشکلات کا توڑ نکالنے کے لیے نئی حکومت کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جن معاشی مسائل سے گزر رہا ہے وہ گزشتہ حکومتی دعوؤں اور وعدوں کے باوجود بھی ہر گزرتے مہینے اور سال میں مزید سنگین ہو رہے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بلند جب کہ خط غربت سے نیچے رہنے والی آبادی 38 فی صد بتائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ملک کی برآمدات بڑھنے میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی اور وہ پچھلے کئی برسوں سے 20 سے 25ارب ڈالرز کے درمیان ہی ہیں۔دوسری جانب پاکستان کا بجٹ خسارہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے سات سے نو فی صد کے درمیان بتایا جاتا ہے۔

اسی طرح جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس ادا کرنے کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ پاکستان کو لگ بھگ30 ارب ڈالرز کی رقم واپس کرنی ہے۔ اگر خطے میں کوئی بڑی جیو پولیٹیکل صورت حال تبدیل نہ ہوئی تو آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی ادارے اور امیر ممالک پاکستان کے واجب الادا قرضوں کو ری شیڈول کردیں گے ۔ ملکی معیشت کو اس وقت ایک اور اہم خطرہ روپے کی قدر کو مستحکم کرنا ہے۔

حالیہ تین برس کے دوران امریکی ڈالر کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ، دوسری جانب پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کچھ ہفتوں میں پانچ ارب ڈالرز کے قریب گر چکے ہیں، اس کی تیسری بنیادی وجہ ملک میں حالیہ سیاسی بے یقینی کی فضا تھی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی سیاسی فضا میں کسی حد تک غیر یقینی کم ہونے سے کچھ بہتری ضرور آئے گی لیکن بین الاقوامی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے پاکستانی کرنسی سمیت دنیا بھر کی کمزور کرنسیز کی گراوٹ کا عمل کسی حد تک جاری رہے گا۔

رواں ماہ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں رواں برس کے آٹھ ماہ میں اب تک 12 ارب ڈالرز کے خسارے کا سامنا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے پرتعیش اشیا پر کیش مارجن بڑھایا ہے جب کہ اکنامک ری فنانس اسکیم پر شرح سود بھی بڑھائی گئی ہے۔ شرح سود میں اضافے سے ملک میں طلب میں بھی کمی واقع ہوگی، جس سے درآمدی بل میں کسی حد تک کمی آنے کی توقع ہے اور جاری کھاتوں کا خسارہ اس حد تک ہوجانے کا امکان ہے جہاں اسے مینج کیا جاسکے۔ شرح سود میں 2.5 فی صد کے بڑے اضافے کے باوجود جہاں اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھی گئی ،وہیں روپے کی بھی قدر بحال ہونا شروع ہوئی ہے۔

نو منتخب وزیراعظم کی جانب سے عوامی مفاد میں کیے جانے والے اعلان کے اہم نکات کچھ یوں ہیں۔ یکم اپریل سے کم از کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے ہوگی ، سرمایہ کاروں ، صنعتکاروں سے ماہانہ ایک لاکھ تنخواہ کے حامل افراد کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی اپیل کی گئی ہے۔

سول اور ملٹری ریٹائرڈ پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوگا ، صوبوں کے تعاون سے ملک بھر کے بازاروں میں رمضان پیکیج کے تحت سستا آٹا فراہم کیا جائے گا ، نوجوانوں کو مزید لیپ ٹاپس دیے جائیں گے اور تعلیم اور ہنر فراہم کیا جائے گا۔ بینظیر کارڈ دوبارہ لے کر آئیں گے، پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی اور تعلیم کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔ سی پیک کو ’پاکستان اسپیڈ‘ سے چلایا جائے گا اور منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کو بڑے مشکل چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ وہ ایسے حالات کو بہتر بنانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں ان کا رول بہت نمایاں تھا۔

سی پیک منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل، ڈنگی کے موثر خاتمے میں بھی ان کی کارکردگی بہتر رہی، اس لیے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی روپے کی قدر میں اضافے اور اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کے آثار رونما شروع ہونا شروع ہو گئے ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ملک کی کاروباری برادری حکومت پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بعض رہنما میثاقِ جمہوریت کی طرز پر ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ میثاقِ معیشت پر بھی زور دیتے آئے ہیں، لیکن اب اس حوالے سے کیا عملی پیش رفت ہوتی ہے ، وہ دیکھنا ہے۔

معاشی ماہر اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی معیشت سے متعلق حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب میں کہا گیا ہے کہ ملک کو موجودہ معاشی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور سول سوسائٹی کی حمایت سے معیشت کی بہتری کے لیے چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں ایسے چارٹر میں اصلاحات کی نشاندہی کی جائے۔ معاشی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں جن سے عدم مساوات کا خاتمہ، روزگار کے مواقعے، غربت ختم اور غذائی سیکیورٹی کی صورتِ حال میں بہتری کے ساتھ انسانی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔

پاکستان کے عوام اور کاروباری طبقات بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ نئی حکومت اپنی بہتر معاشی اور اقتصادی پالیسیاں تشکیل دیتے ہوئے ان پر ہر ممکن طور پر عمل درآمدکرے گی ، تاکہ پاکستان کی معیشت مستحکم بنیاد پر استوار ہوسکے ، کاروباری طبقات کا اعتماد بحال ہو تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے ، روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوسکیں اور ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔