ڈس گریس فل عمران خان

سالار سلیمان  بدھ 13 اپريل 2022
عمران خان نے بے آبرو ہوکر رخصت ہونے کو ترجیح دی۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان نے بے آبرو ہوکر رخصت ہونے کو ترجیح دی۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان نیازی کا شروع کیا گیا کھیل بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا اور پارلیمنٹ نے 176 ووٹوں سے عمران خان کو سابق وزیراعظم پاکستان بنا دیا۔ نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔

عمران خان کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ باعزت طور پر استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے، لیکن انہوں نے تاریخ کا وہ وزیراعظم بننا پسند کیا جس کو پارلیمنٹ نے اکثریت سے ووٹ آؤٹ کردیا۔ یہ طریقہ کار بالکل آئینی اور جمہوری ہے کہ اگر پارلیمان سمجھتی ہے وزیراعظم اور ان کی ٹیم پرفارمنس نہیں دے رہی ہے تو وہ اس کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے ووٹ آؤٹ کرسکتی ہے۔ ماضی کے وزرائے اعظم کے خلاف آنے والی تحاریک عدم اعتماد ناکام ہوئیں۔

عمران خان کی حکومت سابقہ اپوزیشن کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھی اور وہ اس کو روزِ اول سے اتارنے کےلیے کوشاں رہی اور جب فیصلہ ساز قوتیں کسی مجبوری کی وجہ سے ’’نیوٹرل‘‘ ہوگئیں تو پھر پاکستان میں سیاست کا آغاز ہوا اور جن بیساکھیوں سے پی ٹی آئی کی حکومت بنی تھی، وہی بیساکھیاں اب شہباز شریف کے پاس ہیں۔ جیسے ہی یہ بیساکھیاں سائیڈ پر ہوئیں تو عمران خان کی حکومت زمین بوس ہوگئی۔

قاسم سوری کے غیر آئینی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ سے فیصلہ آیا تو بھی سابق وزیراعظم عمران خان نے حالات کو سمجھنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ میرا خیال تھا کہ جاتے جاتے نیازی اینڈ کمپنی اسپورٹس مین اسپرٹ کا، اعلیٰ ظرفی کا، کھلے دل کا، گریس کا مظاہرہ کرے گی۔ لیکن میں ایک بار پھر سے غلط ثابت ہوا۔ اسپیکر نے عمران خان کی خاطر اور کچھ رپورٹس کے مطابق خان صاحب کے کہنے پر تمام تر تاخیری حربے استعمال کیے اور جب کچھ نہ ہوا تو رات کو 12 بجنے سے صرف 20 منٹ پہلے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد چیئر ایاز صادق کے پاس آئی اور انہوں نے اسمبلی کی کارروائی کو پورا کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جاتے جاتے ہی سہی، تحریک انصاف اپنے پستہ قد اور قدر میں کچھ اضافہ کروا لیتی۔ لیکن اسپیکر نے کیا کیا؟ اس نے اسمبلی میں اپنی چیئر سے کہا کہ میں عمران خان کا دوست ہوں، یعنی میں آئین اور قانون کی پاسداری نہیں کرسکتا، مجھے نیازی عزیز ہے۔ اس نے ٹینشن میں ایک صحافی اعزاز سید کو گالی بھی دی۔ کیا ڈس گریس فل اورذلت آمیز طریقے کے ساتھ عمران خان رخصت ہوئے ہیں۔

خان صاحب کے سب سے بڑے دشمن خود عمران خان ہیں۔ کیسے؟ یہ میں آگے بتاؤں گا، پہلے دیکھتے ہیں کہ اُن کی ٹیم نے ان کی کشتی کو ڈبونے میں کیا کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے پہلا کردار شیخ رشید کا ہے۔ یہ وہی کردار ہے جو کیمروں کے سامنے کہتا تھا کہ عمران خان 5 سال پورے کرے گا، عمران خان یہ پانچ سال بھی پورے کرے گا اور اگلے 5 سال بھی پورے کرے گا۔ اس پر آل یوتھ تو ٹھمکے لگاتی تھی اور ہم جیسے ہنستے تھے کہ یار اس نے مشرف کو مروایا تھا، یہ عمران کو بھی ایسے ہی مروائے گا۔ اور پھر 10 اپریل کو شیخ رشید خاموشی سے سائیڈ پر ہوگئے۔ لیکن وہ اپنے حصے کا کردار ادا کرچکے تھے۔

شاہ محمود قریشی جانتے تھے کہ یہ خط نہیں، ایک مراسلہ ہے، جس میں صرف کمنٹس ہیں، ان کو جیسے مرضی پیش کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس اہم دستاویز کو اپنے ذاتی مفاد کےلیے استعمال ہونے دیا۔ یہ الگ بات کہ قریشی صاحب اس مرتبہ بھی اچکن پہننے سے محروم رہے، لیکن اپنی غلط پلاننگ کو بندہ اب کیا کہہ سکتا ہے۔ قریشی صاحب کی وجہ سے سیکیورٹی ادارے بھی بدنام ہوئے، سفارتکاری بھی بدنام ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کو بدنامی کا عالمی سطح پر سامنا ہے۔

فواد چوہدری نے بھی عمران خان کی کشتی ڈبونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے وہاں وہاں سینگ پھنسائے جہاں پھنسانا نہیں بنتا تھا۔ انہوں نے عمران خان کو غلط مینجمنٹ کرکے دی اور نتیجے میں اہم اداروں سے فاصلے بڑھنا شروع ہوگئے۔

اسد عمر نے بھی حکومت کا بھٹہ بٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میری نظر میں اسد عمر کا سب سے زیادہ قصور ہے۔ اس کا امیج تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد غیر حقیقی طورپر غیر مرئی بنایا گیا تھا۔ انہوں نے معاشی میدان ٹھیک سے نہ سنبھالا اور معیشت کی گیم تحریک انصاف کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی اور یوں مہنگائی ناقابل برداشت سطح تک چلی گئی۔

اب آتے ہیں خان صاحب کا اصل دشمن خود عمران خان کیوں ہے؟ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ انہیں سب آتا ہے، انہیں سیاست، معیشت، سیکیورٹی، جیوگرافی سمیت سب ہی شعبوں میں مہارت حاصل ہے۔ اس کی ضد، تکبر، خوش فہمی، گھمنڈ اور انا نے اس کو پارلیمنٹ سے بے توقیر ہوکر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ کیا یہ لیٹر گیٹ یہاں پر رُکے گا؟ ہرگز نہیں۔ اس پر انتہائی سنجیدہ الزام ہے کہ سب ہی غدار ہیں۔ اگر اس کا کاؤنٹر نہ کیا گیا تو پھر یہ گلے کا پھندا بن جائے گا۔ تو کوئی کیوں اپنے گلے میں پھندا ڈالے گا؟ لہٰذا یہ لیٹر گیٹ اور اس سے بننے والا بیانیہ ختم ہوگا اور اس کی سبکی بھی تحریک انصاف کو بالکل ویسے اٹھانی پڑے گی جیسے 36 پنکچر والی سبکی وہ آج تک اُٹھا رہی ہے۔

مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ عدم اعتماد آنے کے بعد فوری طور پر میچ فکس کیا گیا تھا۔ عمران خان اپنے کرکٹ کے دنوں کے جواری تو رہے ہیں، اس کا یہ خود اعتراف بھی کرچکے ہیں، لہٰذا انہوں نے حالات کو دیکھتے ہوئے یہاں بھی جوا کھیلا۔ اس سے پہلے سب کی نظریں پی ٹی آئی کی پرفارمنس کی جانب تھیں، اتحادی نجی محفلوں میں گالیاں دیتے تھے، تحریک انصاف کے اپنے لوگ پریشان تھے کہ ہم اب الیکشن کس نکتے پر لڑیں گے؟ لیٹر گیٹ کے بعد پرفارمنس پر کوئی بات نہیں کررہا ہے، جبکہ سب اس نکتے کے گرد گھوم رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو بیرونی سازشوں سے ختم کیا گیا ہے۔

بیرونی سازش کیوں ہوئی ہوگی؟ جی ڈی پی 9 فیصد سالانہ پر چلا گیا ہے؟ گردشی قرضوں میں کمی ہوگئی ہے؟ فی کس آمدنی میں 100 فیصد اضافہ ہوگیا ہے؟ قومی خزانہ بھرگیا ہے؟ ڈالر 50 روپے کا ہوگیا ہے؟ قرضوں میں کمی ہوئی ہے؟ یا پھر بیرونی قوتیں اس لیے سازش کریں گی کہ عمران خان نے کٹوں، انڈوں، مرغوں، دودھ سے معیشت کو مستحکم کردیا ہے؟ بیرونی سازش کیوں ہوئی ہوگی؟ مطلب جس کا کچن اُس کے دوست چلاتے رہے، جس کا دھرنا اس کی اے ٹی ایمز نے اسپانسر کیا اور جو ان ہی کے سہارے اقتدار میں آیا، وہ آج خودداری کے لیکچر دے گا؟ جس نے اسٹیٹ بینک کو عملی طور پر آئی ایم ایف کے ہاتھوں برباد کروا دیا، جس نے عملی طور پر آئی ایم ایف کے ہاتھوں ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا، وہ خودداری کے لیکچرز کس منہ سے دے رہا ہے؟ ان کے دور میں قرضے پیکیج کے نام پر آتے تھے اور کہاں جاتے تھے، اللہ جانے! وہ اب خودداری کے لیکچرز دینا شروع ہوجائیں گے۔ یا منافقت تیرا ہی آسرا۔

میری ذاتی رائے میں جو داغ پی ٹی آئی اپنے مخالفین کے دامن پر لگانا چاہ رہی ہے، اس کو دھونے کےلیے یہ کورٹ کا رُخ کریں گے تاکہ خط کی حقیقت واضح ہوسکے اور ان پر لگنے والا غداری کا گھٹیا الزام دھل سکے۔ جہاں تک بات ہے عوام کے ’’جم غفیر‘‘ کی تو وہ نواز شریف کےلیے بھی نکلا تھا، وہ عمران خان کے لیے بھی نکل آیا ہے۔ یہ کتنے دن تک نکلے گا؟ اب عمران خان کے پاس مالی طور پر وہ وسائل نہیں جو انہیں 2011 سے 2018 تک حاصل تھے۔ اب کیا کریں گے؟ شاید یہ سب کچھ ایک آدھ ہفتے میں ختم ہوجائے اور پھر ’’بادی النظر‘‘ میں عمران خان کے ’’آرام‘‘ کے دن شروع ہوچکے ہیں۔ اب یہ اُن پر ہے کہ وہ ابھی کرنا چاہتے ہیں کہ کب کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ فارن فنڈنگ کیس کے بعد انہیں آرام ہی کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔