آئی ڈی پیز کا مسئلہ

نصرت جاوید  بدھ 26 فروری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سوات میں ’’ریاستی رٹ‘‘ کی بحالی کے لیے آج سے تقریباً 4برس پہلے جو فوجی آپریشن ہوا اس کے ابتدائی مراحل کو میں نے لمحہ بہ لمحہ بڑے قریب سے دیکھ کر رپورٹ بھی کیا۔ اپنے ملک میں ہونے والے اس آپریشن سے چند سال قبل میں نے لبنان میں ایک مہینہ رہ کر حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ بھی دیکھی تھی اور اس سے تقریباً دو سال پہلے امریکی افواج کا عراق پر قبضہ ہوتا بھی بھگتا تھا۔ لبنان اور عراق کی جنگوں نے مجھے پوری طرح سمجھا دیا کہ ایسی جنگوں کا سب سے بدترین نشانہ وہ عام شہری بنتے ہیں جو نہ تو اپنے نظریات کے حوالے سے انتہاء پسند ہوتے ہیں اور نہ اتنے باوسائل کہ خطرات کی بو سونگھتے ہی خود کو اپنے خاندان سمیت محاذِ جنگ سے کہیں دور منتقل کرلیں۔ صدام حسین کی آمریت سفاکانہ حد تک بے حس اس لیے بھی ثابت ہوئی کہ عراقی شہریوں کے لیے غیر ملکی سفر آسان نہیں تھے۔

امریکی افواج جب بغداد پر قابض ہوگئیں تو صدام کے نام پر بنی کچی بستی کے ہزاروں نوجوانوں نے خوش حال محلوں کے قلعہ نما مکانوں میں گھس کر لوٹ مار شروع کردی۔ ان محلوں میں رہنے والوں کی اکثریت کا تعلق کسی زمانے کے صحرائی بدؤں سے ہوا کرتا تھا۔ انھیں صدام حسین نے ایک متعصب فرقہ پرست کی طرح اپنی فوج، جاسوسی اداروں اور حکومت میں اہم عہدے دیے اور انھیں ریاستی سرپرستی کے ذریعے خوش حال کاروباری افراد میں تبدیل کیا۔ کچی بستیوں میں رہنے والے کبھی بے زمین کسان ہوا کرتے تھے جو خود کو امام موسیٰ کاظم کے نام سے منسوب علاقوں میں کسی صورت بسا کر روزانہ اجرت کی بنیاد پر چھوٹے موٹے کام کی تلاش میں رہتے۔ مارکس کی بتائی طبقاتی تقسیم کے مطابق وہ ’’لُمپن پرولتاریہ‘‘ تھے جو غصہ سے بپھرا ہجوم بن کر خوش حال زندگی بسر کرنے والوں کی زندگی تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہوتے ہیں۔ مقتدی الصدر جیسے ایک کرشماتی اور نسبتاً جوان ’’عالم دین‘‘ نے بغداد کی کچی بستیوں میں رہنے والوں کو مسلکی بنیاد پر شدید انتہاء پسند بنا رکھا تھا۔ ان ہی بستیوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بغداد کے خوش حال علاقوں میں خوب لوٹ مار مچائی اور امریکی فوج اس پورے عمل کے دوران خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ریمسفیلڈکی توجہ جب اس جانب دلائی گئی تو اس نے کندھے اچکا کر بڑی رعونت سے کہا تو صرف اتنا کہ “Stuff Happens”۔ یعنی اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ برسوں سے رپورٹنگ کرتے ہوئے میرا دل کافی سخت ہوچکا ہے۔ مگر بغداد میں اپنے قیام کے دوران کئی موقعوں پر عورتوں، بچوں اور خاص طورپر نوجوان لڑکیوں کی حالتِ زار کو دیکھ کر آواز بھر آتی اور خود پر قابو پانا بڑا مشکل محسوس ہوتا۔

’’حزب اللہ‘‘ اس حوالے سے اپنے لوگوں کے تحفظ کے بارے میں بہت منظم اور تیار نظر آئی۔ جنوبی لبنان اور بیروت میں مقیم اس کے حامی اسرائیلی طیاروں سے بچنے کے لیے بالکل جنگی انداز میں محفوظ مقامات پر پہنچ جاتے جہاں حزب اللہ نے بڑے بڑے اسکولوں یا شادی ہالوں میں رہائش کے انتظامات پہلے سے کررکھے تھے۔ لبنان میں اپنے ایک ماہ کے قیام کے دوران میں نے حزب اللہ سے متعلق کسی ایک شخص کو بھی اپنی مظلومیت کی بنیاد پر بھیک مانگتے نہیں دیکھا۔ پھر جب جنگ ختم ہوئی تو پورے لبنان میں پھیلے تمام IDPsصرف دو دنوں کے اندر اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے۔ حزب اللہ نے اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوئے مکانوں کی بحالی میں بھی صرف ایک ہفتہ لیا۔

لبنان کے اپنے اس تجربے کے بعد مجھے سوات سے بے گھر ہوتے ہزاروں افراد کے پیدل چلتے قافلوں نے پریشان کردیا تھا۔ ریاستی سطح پر ان افراد کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام کہیں موجود نہ تھا۔ مردان کے شہریوں کو سلام جنہوں نے ان لوگوں کو اپنے طورپر باعزت پناہ گاہیں فراہم کیں اور ان کی روزمرہّ ضروریات کا فراخ دلی کے ساتھ خیال رکھا۔

گزشتہ چند دنوں سے شمالی وزیرستان کے حوالے سے ’’آپریشن۔آپریشن‘‘ کی دہائی دی جارہی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے کسی آپریشن پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں مگر ڈیرہ اسماعیل خان جاتا ہوں تو کئی محسود ملتے ہیں جو جنوبی وزیرستان میں ہوئے ’’کامیاب آپریشن‘‘ کے کئی ماہ بعد بھی خود کو بے بس ولاچار محسوس کرتے ہیں۔ بنوں میں آج سے تقریبا 15سال پہلے صرف ایک دن کے لیے گیا تھا۔ مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں کہ اگر شمالی وزیرستان سے سوات جیسی نقل مکانی ہوئی تو اس شہر کے رہائشیوں کا ان کے بارے میں رویہ مشفقانہ ہوگا یا مخاصمانہ ۔بس دُعا ہی کرسکتا ہوں کہ بنوں والے بھی مردان کے شہریوں جیسی وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں۔

محض ایک رپورٹر اور کالم نگار ہوتے ہوئے میرے جیسے لوگ بس نیک تمناؤںکا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست مگر دُعاؤں سے کام نہیں چلاسکتی۔ اسے کوئی آپریشن وغیرہ کرنا ہے توNon Combatantsکو باعزت طریقے سے محفوظ مقامات تک پہنچانے اور ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہوگی۔ میں پوری دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس تیاری کی ذمے داری صرف اس حکومتی کمیٹی کے سر نہ ڈالی جائے جس کا سربراہ عبدالقادر بلوچ صاحب کو مقرر کیا گیا ہے۔ بلوچ صاحب پاک فوج کے لیفٹیننٹ جنرل رہے ہیں۔ منظم ذہن کے ساتھ ساتھ ایک مخلص دل کے مالک بھی ہیں۔ معاملہ مگر بہت گھمبیر ہے۔ کوئی حرج نہیں کہ وزیر اعظم بذاتِ خود عمران خان کو ایک ملاقات کی دعوت دیں۔

اس ملاقات میں قادر بلوچ صاحب کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ بھی موجود ہوں۔ عسکری اور دیگر متعلقہ حکام اس اجلاس میں ایک تفصیلی بریفنگ دیں۔ ممکنہ IDPsکی حتمی تعداد اور ان کی ضروریات کا ٹھوس انداز میں تعین کیا جائے اور یہ فیصلہ بھی کہ ان ضروریات کا ریاست اپنے وسائل سے کس حد تک خیال رکھ سکتی ہے۔ جہاں کمی محسوس ہو اسے پورا کرنے کے لیے مخیر حضرات سے استفادہ کرنا اشد ضروری ہے۔ عمران خان اپنے اسپتال اور یونیورسٹی کے باعث بنی ساکھ کے حوالے سے اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انھیں محض سیاسی بنیادوں پر اس پورے قضیے سے دور رکھنا کوئی بہتر حکمت عملی نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔