پنجاب اسمبلی کا بحران

اصغر عبداللہ  جمعـء 15 اپريل 2022
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

عمران خان حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آ چکی تھی ، ڈپٹی ا سپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کالعدم قرار دے چکی تھی ، ادارے واضح طور پر غیر جانبدار نظر آ رہے تھے ، لیکن عمران خان کا حامی طبقہ آخری وقت تک اس امید پر رہا کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے ، اور ان کی حکومت بچ جائے ،یہ معجزہ تو نہیں ہوا ، اور نہ اس کا کوئی امکان نظر آ رہا تھا ، لیکن جس رات عمران خان حکومت ختم ہوئی ، اس رات  پی ٹی آئی کے حامیوں کا جو ردعمل ظاہر ہوا، شاید خود عمران خان کو بھی اس کی امید نہیں ہو گی، میں سمجھتا ہوں عمران خان کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ اس غیر متوقع ردعمل کو دیکھتے ہوئے ہی عمران خان کو قومی اسمبلی سے استعفا دینے کی حکمت عملی اختیار کرنے کا حوصلہ ہوا ہے کہ اس طرح نئی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر ان کے بیانیہ کو مزید تقویت حاْصل ہو گی ،ا ور وہ زیادہ موثر انداز میںالیکشن کا مطالبہ کر سکیں گے۔

ورنہ اس سے پیشتر قومی اسمبلی سے استعفا دینے کی حکمت عملی پر خود عمران خان کیمپ میں واضح طور پراختلاف نظر آ رہا تھا ، اور عام تاثر یہی تھا کہ عمران خان فوری طور پر قومی اسمبلی سے استعفوں کی طرف نہیں جائیں گے، اورکچھ عرصہ تک ’’ دیکھو اور انتظارکرو‘‘ کی حکمت عملی اختیار کریں گے۔

لیکن، اب جب کہ عمران خان اور ان کے ارکان اسمبلی سے مستعفیٰ ہو کر با ہر سڑکوںپر آ چکے ہیں، تو اس سے 2 مقاصد ان کو حاصل ہو چکے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب ان پر یہ اعتراض نہیںہو سکے گا کہ ایک طرف وہ اور ان کے ارکان اسمبلیوں میں بیٹھے سرکاری مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں ،اور دوسری طرف اس سرکار کو ’’امپورٹڈ گورنمنٹ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔

دوسرا یہ کہ شہباز شریف اس طرح وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں کہ اس پر قومی اسمبلی کی عددی طور پر سب سے بڑی پارٹی احتجاجاً مستعفی ہو چکی ہے ، جس سے سیاسی طور پر بطور وزیراعظم ان کیlegitimacy  بہرحال متاثر ہوئی ہے ۔ اس صورتحال میںجب عمران خان نئی حکومت کو بطور اپوزیشن لیڈر سڑکوں پر چیلنج کریں گے توحکومت کے لیے مزید مشکل پید ا ہو جائے گی ۔

یہ وہ حکمت عملی ہے ، جو عمران خان حکومت کے خلاف خود نوازشریف اور فضل الرحمن اختیار کرنا چاہتے تھے ، لیکن آصف زرداری کی مخالفت کے باعث اختیار نہیں کر سکے تھے، جو سندھ حکومت کو داؤ پر لگانا نہیں چاہتے تھے، اور اس اختلاف کے نتیجے میں ہی پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے راستے جدا ہوئے تھے ۔

پھر ، اس سے جڑی ہوئی ایک اور حقیقت یہ ہے کہ وفاق میں حکومت ختم ہونے کے باوجود صوبہ خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی حکومت بدستور قائم ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ اس بحران کے نتیجے میں مزید مستحکم ہو چکی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی اب تک پی ٹی آئی اور ق لیگ اکثریت رکھتی ہیں ، اور یہاں قومی اسمبلی کے برعکس منحرف ارکان کے بغیر ن لیگ حکومت کا قیام ممکن نہیں ہے۔

اگرچہ پنجاب میں پرویزالٰہی کیمپ اورحمزہ شہباز کیمپ دونوں ہی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود ہے ، لیکن حمزہ شہبازشریف کیمپ کا یہ دعوی پی ٹی آئی کے منحرف ارکان اسمبلی کی بنیاد پر ہے ،اور اگرانتخاب کے موقعے پر ان منحرف ارکان اسمبلی کے ووٹ شمار نہیںہوتے ہیں ، تو’’ رن آف‘‘ میں ایک بار چوہدری پرویزالٰہی کو اس کا فائدہ پہنچے گا ، کہ اس تنازع پر سپریم کورٹ میں جو مقدمہ زیر سماعت ہے۔

اس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے ۔اطلاعات یہ ہیں کہ ، بطور وزیراعظم عمران خان جب آخری بار لاہور کے دورہ پر آئے، اور یہاں گورنر ہاؤس میں پرویزالٰہی سے علیحدگی میں ملاقات کی ، تو طے یہی پایا تھا کہ جب تک پنجاب میں صورتحال واضح نہیں ہو جاتی ، قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پاس ہونے کے باوجود صدرعارف علوی اور گورنر پنجاب عمرسرفراز چیمہ مستعفی نہیں ہوں گے۔

دراصل پنجاب میں موجودہ بحران حل نہ ہونے کی صورت میں گورنر پنجاب اور صدر مملکت کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیارات موجود ہے اور عدالت نے اپنے کسی حکم نامہ میں اس پر کوئی قدغن عائد نہیں کی ، لیکن یہ طے شدہ حکمت عملی معلوم ہوتی ہے کہ جب تک چوہدری پرویزالٰہی سگنل نہیں دیں گے ، پنجاب میں عمران خان کی موجودہ حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی ۔

اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی بھرپور مزاحمت کے باوجود شہبازشریف وزیراعظم بن چکے ہیں ، لیکن پنجاب میں حکومت کے بغیر اسلام آباد میں حکومت عملی طور پر غیر موثر ہو گی ، لہٰذا ، وزیراعظم کی نظریں بھی پنجاب پر لگی ہیں ۔ عام خیال یہ تھا کہ شہبازشریف کے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی پنجاب میں عمران خان اور پرویز الٰہی کیمپ میں افراتفری پھیل جائے گی اور منحرف ارکان ، پارٹی میں اکثریت ثابت کرکے اپنے خلاف نااہلیت کی درخواست کو عملی طور پر غیر موثر کر دیں گے ، لیکن حیرت انگیز طور پر اس طرح کچھ نہیں ہوا ،اور صورتحال میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔

چنانچہ قومی اسمبلی کے برعکس پنجاب اسمبلی میں ن لیگ اب تک گومگو کی کیفیت میں ہے۔یہ بھی ان کے علم میں ہے کہ شہبازشریف کی طرح پرویزالٰہی کے بھی ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خوشگوار رابطے ہیں، بلکہ شہبازشریف کے برعکس ان کو بیوروکریسی کا منظور نظر بھی سمجھا جاتا ہے۔

یہ درست ہے کہ 25 مارچ کو جب پنجاب میں جب تک چوہدری پرویزالٰہی اور عمران خان کے درمیان شکررنجی کا خاتمہ ہوا ، تب تک پنجاب پی ٹی آئی کیمپ میں ن لیگ نقب لگا چکی تھی ، اور اس کے بعض ارکان آیندہ انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ کی یقین دہانی پر منحرف ہو چکے تھے ، تاہم عمران خان حکومت کے خاتمہ پر جس طرح کا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے ، اس سے لگتا یہی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے۔

اس کے بعد تو معلوم ہوتا ہے کہ آیندہ انتخابات میں ان منحرف ارکان کے لیے ن لیگ کا ٹکٹ سودمند ثابت نہیں ہو گا اور اطلاعات یہ ہیں کہ اسی اضطراب کے نتیجہ میں ہی جہانگیر ترین کی وطن واپسی کی ٹکٹ بک کرائی جا رہی ہے،ا ور جن ہوٹلوں میں یہ منحرف ارکان اسمبلی مقیم ہیں ، وہاں ان کی نگرانی مزید سخت ہو چکی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ انتخاب سے پیشتر چوہدری پرویزالٰہی یا پی ٹی آئی ان سے براہ راست رابطہ قائم نہ کر سکیں۔

تاہم اطلاعات یہ ہیں کہ ان میں سے بعض منحرف ارکان تک ان کی رسائی ہوچکی ہے،او راس بنیاد پر مونس الٰہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو189 ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے ۔ اسی طرح انتخاب کے روز جب یہ منحرف ارکان پنجاب اسمبلی پہنچیں گے ، تواس موقعے پر بھی پی ٹی آئی اور ان کے منحرف ارکان کے د رمیان ’’مذاکرات ‘‘ کا امکان موجود ہے۔

پنجاب اسمبلی میں یوں تو 3 اپریل کو وزیراعلیٰ کا انتخاب ہو رہا تھا کہ ہنگامہ آرائی کے باعث6 اپریل تک ملتوی ہو گیا، اور اب یہ 16 اپریل کو ہو رہا ہے، اس تاریخ پر عدالت کی مہر تو لگ چکی ہے،تاہم چند قانونی امور اور ان کی تعبیر و تشریح بدستور متنازعہ ہیں، مثلاً ، یہ کہ منحرف ارکان اسمبلی کے ووٹ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں شمار ہو سکیں گے یا نہیں، اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کی بنیاد پر بعض ارکان اسمبلی کی معطلی کا جو اندیشہ ہے۔

اس پر اسپیکر اسمبلی کیا حکم صادر کرتے ہیں۔ اس طرح اگر پنجاب اسمبلی میں 16اپریل کو کوئی ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ،ا ور وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہو تاہے، تواس صورت میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے خطرات بھی موجود ہیںکہ خود سپریم کورٹ پنجاب کی صورتحال کو ازسرنو انتخابات کے لیے fit case  قرار دے چکی ہے،ا ور نوبت اگر یہاں تک پہنچ جاتی ہے ، تو ن لیگ اور اس کی نئی حکومت ہل کے رہ جائے گی ، اور منحرف ارکان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا ، اور وہ سب بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ، یہ leverage چونکہ چوہدری پرویزالٰہی کیمپ کے ہاتھ میں ہے۔

لہٰذا، وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں یہ کیمپ کچھ زیادہ پراعتمادمعلوم ہو رہا ہے، بہرحال جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ، یہ تو واضح نہیں کہ 16 مارچ کو پنجاب کا نیا ’’چوہدری‘‘ کون منتخب ہوتا ہے ، لیکن یہ ضرور واضح ہوگیا ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کے خلاف عمران خان نے چوہدری پرویزالٰہی کی صورت ایک مضبوط اتحادی منتخب کر لیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔