یہ حکومت پھولوں کی سیج نہیں

عابد محمود عزام  جمعـء 15 اپريل 2022
 فوٹوفائل

فوٹوفائل

سابق اپوزیشن لیڈر اور صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیرِاعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ وہ تین ادوار میں مجموعی طور پر تقریباً 13 سال صوبہ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ رہے ہیں۔ اپنے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کی تاحیات نا اہلی کی وجہ سے پہلی بار مرکز میں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں۔

میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان تو بن گئے ہیں، لیکن موجودہ صورت حال کے تناظر میں یہ منصب ان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ کانٹوں کی سیج ہے۔ انھیں داخلی و خارجی معاملات سمیت کئی چیلنجز درپیش ہوں گے، جن کا مقابلہ برد باری اور سیاسی بصیرت کے ساتھ کرنا پڑے گا ، ورنہ صرف دو اضافی ووٹوں کے سہارے کھڑی حکومت کسی بھی وقت دھڑام سے نیچے آسکتی ہے۔

اس وقت ملک میں مہنگائی عروج پر ہے اور مہنگائی پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے۔ مہنگائی پر قابو پاکر دنوں میں عوام میں مقبولیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ مہنگائی کے پیش نظر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں فوری طور پر معقول اضافہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔

میاں شہباز شریف نے وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی اگرچہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کردیا تھا، لیکن وفاق سمیت تمام صوبوں میں اس اعلان پر عمل درآمد کرانا بھی ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ اس اعلان پر عمل کے لیے سرکاری ملازمین کو بجٹ تک انتظار کرنا پڑے۔ نئی حکومت کو مختصر مدت کے لیے اقتدار ملا ہے۔

اس دوران نگران سیٹ اپ سے پہلے ایک بہترین عوام دوست بجٹ پیش کرنا بھی شہباز شریف حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ ماہ سبسڈی پیکیج دیا تھا ،جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں کم کی گئی تھیں۔

اسے برقرار رکھنا ضروری ہے، اگر اسے ختم کیا گیا تو عوام کی طرف سے حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔سفارتی محاذ پر بھی نئی حکومت کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کئی ممالک کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔

امریکا ، چین اور روس سے بڑھتی ہوئی قربت پر خفا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی کسی دوسرے ملک سے تعلقات استوار کرتا ہے۔ نئی حکومت کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقت پسندی کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ پاکستان کسی کے خوف اور ناراضگی کو سامنے رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی نہیں بنانی چاہیے، بلکہ اپنے معروضی حالات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ وزیراعظم میاںشہباز شریف کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ملک میں سیاسی استحکام لانا ہے۔

تحریک انصاف اپنی حکومت کے خاتمے میں بیرونی سازش کو جواز بناتے ہوئے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کرچکی ہے۔ ملک بھر میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جن میں بڑی تعداد میں پرجوش کارکن شریک ہوئے اور اب عمران خان پشاور سے اس احتجاج کو تحریک کی شکل میں شروع کرچکے ہیں۔ ساری احتجاجی تحریک کی بنیاد بہرحال وہ خط ہے۔

عمران خان کے بقول جس میں امریکا کی طرف سے ان کی حکومت کو ختم کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ ضروری ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف فوری طور پر ملک کی متعلقہ ایجنسیوں سے اس خط کی تحقیقات کرائیں اور حقائق قوم کے سامنے لائیں۔ اگر اس خط میں واقعی کوئی صداقت ہے تو قومی پالیسی سازی میں اسے ملحوظ رکھا جائے اور ایسا نہیں تو اس کے ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور عوام پر معاملے کی اصلیت واضح کی جائے۔

اگرچہ میاں شہباز شریف نے وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی اس خط کی تحقیقات کروانے کا اعلان کیا تھا، لیکن یہ اعلان صرف اعلان ہی ثابت نہ ہو، بلکہ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں سے نہ صرف ملک میں کشیدگی بڑھے گی، بلکہ غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے مداخلت کا خطرہ بھی رہے گا۔

نو منتخب حکومت کو ایک عجیب سی صورت حال کا سامنا کرنا ہوگا ، اگر حکومت تحریک انصاف کے مظاہروں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے تو مظاہرے متشدد ہو سکتے ہیں اور اگر حکومت پی ٹی آئی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے تو پی ٹی آئی 2014 کی طرح دھرنے دے کر حکومت کو مفلوج کردے گی اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان نے امریکا مخالف جو بیانیہ عوام کے سامنے رکھا ہے۔

اس سے پی ٹی آئی اور عمران خان کی مقبولیت اور عمران خان کے حامیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا موقف ہے کہ’مخلوط حکومت‘ امریکا کی مدد سے آیندہ الیکشن چوری کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے۔

ان حالات میں صاف شفاف انتخابات کا انعقاد حکومت کے لیے بڑاچیلنج ہوگا۔ اگر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلیوں سے استعفیٰ دیتے ہیں تو ان نشستوں پر فوری ضمنی انتخابات کروانا بھی کسی امتحان سے کم نہ ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ 90 روز کے اندر ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں، تاکہ عوام اپنی مرضی کی حکومت کو منتخب کر سکیں۔

مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں بظاہر تو تمام تر توجہ عوامی مسائل حل کرنے پر مرکوز رکھنے کی باتیں کرتی نظر آ رہی ہیں، لیکن یہ وقت ہی بتائے گا کہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف مفادات، نظریات اور مسائل رکھنے والی دس بارہ جماعتوں کا اتحاد کس قدر دیرپا اور پائیدار ثابت ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی حریف جماعتوں کا مل کر ملک چلانا آسان نہیں ہے ، حالانکہ ماضی میں یہ ایک دوسرے پر گھناؤنے الزامات لگاتی رہی ہیں،اگر پی ٹی آئی استعفے جمع نہیں کرواتی اور اپوزیشن کا کردار ادا کرتی ہے تو اس صورت میں بھی حکومت مسلسل دباؤ کا شکار رہے گی۔

موجودہ سیاسی صورت حال بتاتی ہے کہ نئی حکومت کے لیے حالات بالکل بھی آسان نہیں ہوں گے۔ یہ میاں شہباز شریف کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ ایک گھمبیر اور مشکل صورتحال کا کامیابی سے کیسے مقابلہ کرتے ہیں ؟میاں شہباز شریف مختصر دور اقتدار میں ایسی کون سی پالیسیاں اختیار کرتے ہیں جن سے وہ ایک طرف عوام کو مطمئن کرنے کے قابل ہوں اور دوسری جانب دس بارہ حریف اتحادی جماعتوں کو کامیابی سے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

ایک طرف ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور دوسری طرف عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرلیتے ہیں۔لہٰذا نئے وزیر اعظم پاکستان کو انتقامی سیاست کے بجائے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دینا ہو گی، تاکہ وہ جو نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے ہیں، اسے عملی جامہ پہنا سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب مل جل کر ترقیاتی عمل، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو اہمیت دیں، تاکہ پاکستان عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔