پی سی بی میں کیا ہوگا؟

سلیم خالق  ہفتہ 16 اپريل 2022
’’رمیز راجہ استعفیٰ دو‘‘ آج صبح جب ٹویٹر پر انگریزی میں یہ ٹرینڈ دیکھا تو میں حیران رہ گیا۔ فوٹو: فائل

’’رمیز راجہ استعفیٰ دو‘‘ آج صبح جب ٹویٹر پر انگریزی میں یہ ٹرینڈ دیکھا تو میں حیران رہ گیا۔ فوٹو: فائل

’’رمیز راجہ استعفیٰ دو‘‘ آج صبح جب ٹویٹر پر انگریزی میں یہ ٹرینڈ دیکھا تو میں حیران رہ گیا، میں نے سوچا ابھی تو ٹیم کوئی سیریز بھی نہیں ہاری، ڈومیسٹک کرکٹ کا تیاپانچہ تو احسان مانی اور وسیم خان ہی کر گئے تھے پھر اچانک رمیز سے ایسی کیا غلطی سرزد ہو گئی،پھر جب غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ چونکہ عمران خان اب وزیر اعظم نہیں رہے۔

اس لیے رمیز راجہ سے بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں، ویسے عموما ہوتا تو یہی ہے، جب حکومت میں تبدیلی ہو تو کرکٹ بورڈ کے سربراہ کو بھی جانا پڑتا ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی پوسٹ ہے۔

ایکسپریس کے رپورٹر زبیر نذیرخان نے کراچی میں چند روز قبل چیئرمین سے پوچھا تھا کہ اگر عمران خان گئے تو آپ کا فیصلہ کیا ہوگا،اس پر انھوں نے کہا تھا کہ وہ بھی عہدہ چھوڑنے میں دو منٹ نہیں لگائیں گے اور دوبارہ سے کمنٹری کرنے لگیں گے۔

البتہ ایسا نہیں ہوا اس پر لوگ حیران بھی ہیں، رمیز نے بطور چیئرمین اچھے کام کیے، وہ ملکی کرکٹ کی بہتری کیلیے اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اب ان کے باس عمران خان نہیں،نئے وزیر اعظم شہباز شریف تک چیئرمین بورڈ کی بعض ٹویٹس بھی یقینا پہنچ چکی ہوں گی،میرا ذاتی خیال ہے کہ رمیز راجہ کو شاید سابقہ حکومت کی اعلیٰ شخصیات نے ہی کہا ہو کہ ابھی انتظار کرو، اگر انھیں برطرف کیا گیا تو پی ٹی آئی کو ایک سیاسی شہید مل جائے گا جسے اچھے کام کے باوجود نکال دیا گیا۔

دوسری جانب حکومت بھی سوچ رہی ہو گی کہ ایک سابق کپتان کو نکال کر کسی نان کرکٹرز کو لائے تو عمران خان کو جلسوں کیلیے ایک اور پوائنٹ مل سکتا ہے،صورتحال بڑی دلچسپ ہے، دیکھتے ہیں کون پہل کرتا ہے، نجم سیٹھی تو قذافی اسٹیڈیم میں جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

گوکہ بعض دوست کہتے ہیں کہ انھیں اس پوسٹ میں اب کوئی دلچسپی نہیں اور وہ کوئی بڑی ذمہ داری لیں گے، مگر میں نہیں سمجھتا کہ چیئرمین پی سی بی سے بڑی کوئی اور پوسٹ ہو، ایک بار جو قذافی اسٹیڈیم کے چیئرمین والے کمرے میں بیٹھ جائے اس کو وہاں کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر واپس جانے کا دل نہیں چاہتا،اگر مجبورا جانا پڑے تو دوسری باری کا انتظار رہتا ہے،سیٹھی صاحب کی ٹیم تو تیار بیٹھی ہے، مگر رمیز اننگز ڈیکلئیرڈ کرنے کو تیار نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انھیں آؤٹ کیا جائے، دفاعی تکنیک کی وجہ سے جب وہ کرکٹ کھیلتے تھے تب انھیں پویلین بھیجنا آسان نہیں ہوتا تھا۔

اب بطور منتظم بھی ایسا ہی ہوگا،ویسے آج کل چیئرمین کی کردارکشی مہم زوروں پر ہے،وسیم خان کو چھینک بھی آ جاتی تھی تو آسمان سر پر اٹھا لینے والا میڈیا ڈپارٹمنٹ اپنے سربراہ کے بارے میں مسلسل منفی خبروں پر بالکل خاموش ہے، چونکہ رمیز راجہ نے بعض لوگوں کو لفٹ نہیں کرائی اس لیے وہ دل ہی دل میں اس صورتحال سے یقینا بہت خوش ہوں گے،البتہ میں حیران ہوں کہ چیئرمین خود کیوں خاموش ہیں، کل تک سوشل میڈیا پر جو لوگ ان کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے تھے اب وہی برائیاں کر رہے ہیں۔

مجھے گھر کے بھیدی نے بتایا کہ اس مہم میں سہولت کار بورڈ کا ہی ایک ملازم ہے،چیئرمین کو آستینیں جھاڑ کر دیکھنا چاہیے، بعض لوگ ڈوبتی کشتی سے کود کر نئے جہاز میں سوار ہونے کو تیار بیٹھے ہیں، حالانکہ مجھے لگتا ہے کہ انھیں مایوسی ہی ہوگی، اگر نجم سیٹھی آئے تو وہ ایسے مفاد پرست لوگوں سے بخوبی واقف ہیں اور یقینا گھر کا راستہ ہی دکھائیں گے، رمیز راجہ سے بطور چیئرمین ایک بڑی غلطی ہوئی، انھیں احسان مانی اور وسیم خان کی باقیات سے پیچھا چھڑا لینا چاہیے تھا، مگر وہ سیاسی داؤ پیچ کم سمجھنے والے ایک سابق کرکٹر ہیں، انھوں نے یہ نہ سوچا کہ حکومت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔

انھیں اپنے کام پر بھروسہ تھا اس لیے ٹیم میں مرضی کے لوگ نہیں آئے، اس کا اب نقصان اٹھا رہے ہیں،کئی لوگ اندر ہی اندر ان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ بظاہر اس کا انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا،مجھ سے بھی انھوں نے یہی بات کہی ہے، البتہ مسلسل منفی باتوں سے امیج خراب ہو جاتا ہے،اس لیے جواب دینا ضروری ہے، جس طرح جونیئرلیگ جیسے منصوبے سامنے آرہے ہیں،انھیں دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ رمیز راجہ ٹویٹر ٹرینڈ سے متاثر ہو کر کہیں گے کہ یہ لو استعفیٰ،وہ یقینا لمبی اننگز کھیلنا چاہتے ہیں،البتہ اس کے لیے انھیں نئی حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا ہوگا، اگر وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے کہہ دیا کہ پرانا ڈومیسٹک سسٹم بحال کرو تب وہ کیا کریں گے۔

اسکیپر تو6 ٹیموں کے حامی اور ڈپارٹمنٹس کے مخالف رہے ہیں،اگر ایسا کر دیا تو عمران خان کا سامنا کیسے کریں گے، صورتحال بیحد پیچیدہ نظر آتی ہے، گذشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ پی سی بی کے چیئرمین کا تقرر سیاسی بنیادوں پر نہیں ہونا چاہیے تاکہ مسئلہ ہی ختم ہو، حکومت تبدیل ہوتے رہے مگر کرکٹ پر اس کا کوئی اثر نہ پڑے،موجودہ نظام سے نہ صرف چیئرمین بلکہ دیگر ٹاپ پوزیشنز کے حامل افراد کو بھی جانا پڑتا ہے، جیسے سی ای او فیصل حسنین کا دور دور تک عمران خان یا شہباز شریف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وہ میرٹ پر باقاعدہ ایک پراسس سے گذر کر بورڈ میں آئے، انھوں نے دبئی میں اپنا گھر بیچ دیا اور پوری فیملی کو لاہور لے آئے، اب اگر چیئرمین تبدیل ہوئے اور انھیں واپس جانا پڑا تو کیا یہ ظلم نہیں ہوگا؟

احسان مانی نے بھی سبحان احمد جیسے محنتی آفیسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا،میں اسی لیے پی سی بی کی ملازمت کو ہوائی نوکری کہتا ہوں جسے پا کر کچھ لوگ ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں مگر پھر جب نیچے گرتے ہیں تو اپنی اصل اوقات کا علم ہوتا ہے،رمیز راجہ کو کام کی وجہ سے کوئی نہیں نکال سکتا، البتہ عمران خان سے وفاداری شاید ان کو دوبارہ کمنٹری کی جانب لے جائے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔