نئی حکومت کو درپیش چیلنجز

ناصر الدین محمود  اتوار 17 اپريل 2022

شہباز شریف نے عنان اقتدار ایک ایسے موقع پر سنبھالا ہے کہ جب ملک چاروں جانب سے شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے، ہر شعبے میں ہر اعتبار سے انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔

معاشی اعتبار سے ملک مکمل طور پر تباہی کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں لیے گئے تقریباً بیس ہزار ارب سے زائد کے قرضوں کے ساتھ ملک مجموعی طور پر پچاس ہزار ارب سے زائد کا مقروض ہو چکا ہے۔ جہاں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کا عفریت بے قابو ہو چکا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت کی بے سمت خارجہ پالیسی نے پہلے ہی پاکستان کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کی ہوئی تھیں کہ یوکرین پر روسی حملے کے موقع پر وزیر اعظم کے دورہ ماسکو نے اس میں مزید اضافہ کردیا۔

پاکستان جو پہلے ہی پی ٹی آئی حکومت کی بے سمت خارجہ پالیسی کی وجہ سے مشکلات میں گھرا ہوا تھا ،اس دورہ ماسکو نے اس میں مزید اضافہ کردیا۔ جس کا حتمی نتیجہ شدید عالمی تنہائی کی شکل میں آج ہمارے سامنے ہے۔ امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک سے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔ سعودی عرب اور چین کے ساتھ تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ، سی پیک کے عظیم منصوبے پر کام عملاً بند ہے۔ ملک میں سیاسی کشیدگی کا یہ عالم ہے کہ سیاسی اختلاف اب دشمنی اور نفرت میں تبدیل ہو چکا ہے۔

عدم برداشت معاشرے میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ بیشتر عوام مخالف نکتہ نظر کو غدار سے کم کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کر کے ان سے جینے کا حق تک چھین لینا چاہتے ہیں۔ معاشرے میں مکالمے کی روایت دم توڑتی جارہی ہے۔ اب معاشرے میں تحمل، برداشت اور رواداری مفقود ہوچکے ہیں۔ پورا معاشرہ اس وبا کی لپیٹ میں ہے۔ انارکی آپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ایسے میں سونے پر سہاگہ یہ کہ سابق حکمران جاتے جاتے ملک کو قانونی اور آئینی بحران میں مبتلا کرگئے۔

ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے دی گئی غیر آئینی رولنگ اور بعد ازاں وزیر اعظم کی سفارش پر صدر مملکت کی طرف سے قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے والے اقدامات نے ملک کو بے یقینی کا شکار کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بروقت آئین کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے لے کر صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اقدام تک تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دیکر کالعدم قرار دیا اور اسپیکر کو آئین کی روح کیمطابق تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کروانے کا واضح حکم جاری کیا تب کہیں جا کر یہ آئینی بحران ٹلا۔

تحریک انصاف کی قیادت اپنی حکومت کی مکمل ناکامی کے بعد بھی اپنی ناکامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اب وہ آئینی طریقے سے اقتدار سے معزول کیے جانے کے بعد بھی نئی آنیوالی حکومت کو پوری یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دینے کو ہرگز تیار دکھائی نہیں دیتی بلکہ ایک فرضی خط کو بلا جواز غیر ملکی سازش قرار دیکر اسے ایک قومی مسئلہ بنانے پر مصر ہیں۔ حالانکہ اب تو افواج پاکستان کے ترجمان نے بھی بہت واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اس نام نہاد لیٹر میں امریکا کی جانب سے ہمیں کوئی دھمکی نہیں دی گئی ،البتہ اس میں استعمال کی گئی زبان کو سفارتی آداب کے خلاف قرار دیا گیا جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کر کے اپنی تشویش سے آگاہ کردیا۔

اب افواج پاکستان کے ترجمان کی جانب سے اتنی وضاحت آجانے کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس فرضی خط میں غیر ملکی سازش کی گردان کو ترک کر دینا چاہیے تاکہ شہباز شریف کی حکومت، پاکستان کے عالمی سطح پر تنہائی کے خاتمے کے لیے ناصرف موثر اقدامات کرسکے بلکہ دنیا بھر سے پاکستان کے بہتر تعلقات کو مضبوط بنیادیں بھی فراہم کرسکے۔شہباز شریف نے جیسے ہی وزیراعظم کے منصب کا حلف اٹھایا ہے تو دنیا کے بیشتر قابل ذکر ممالک کی جانب سے ان کی حکومت کے لیے خیر سگالی کے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سرمایہ داروں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے ضمن میں ایک اعتماد پیدا ہوا ہے جس کی جھلک ہم ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل استحکام کی صورت میں دیکھ رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری سرگرمیوں میں بتدریج اضافہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں مکدر سیاسی فضا میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔

معاشرے میں موجود سیاسی عدم استحکام کے خاتمے اور سیاسی تناؤ میں کمی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی حالات میں معاشی سرگرمیوں کے لیے فضا سازگار ہو سکے گی کیونکہ ریاست میں سیاسی استحکام کے بطن سے ہی معاشی استحکام پیدا ہوتا ہے۔ ماضی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے جن شرائط پر قرض حاصل کیا آخر کار وہ اس سے بھی روگردانی کی مرتکب ہوئی نتیجے میں آج کی حکومت کے لیے معاشی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔

تحریک انصاف نے اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں اپنے بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے غیر ترقیاتی اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرنے کے بجائے ہر بار ضروریات زندگی کی اشیاء سمیت بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ کیا۔ نتیجے میں ملک کو شدید مہنگائی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی وجہ سے صنعتی لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اسی باعث ملک بھر میں صنعتیں بند ہونے لگیں۔

صنعتیں بند ہونے سے ایک جانب روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونا بند ہوئے تو دوسری جانب پہلے سے برسرِ روزگار افراد بھی بڑے پیمانے پر بیروزگار کیے گئے۔ تحریک انصاف حکومت میں تقریباً دو کروڑ عوام بیروزگار ہوئے ہیں۔  جہاں حالات کو معمول پر لانے کے لیے بڑے پیمانے پر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کسی نوعیت کے آپریشن کلین اپ کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔

تحریک انصاف حکومت نے اقتدار سے محروم ہونے سے کچھ عرصہ قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے خلاف ورزی کی جو اب اس نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ کس طرح آئی ایم ایف سے ازسرِنو مذاکرات کرکے ان ہی قرضوں کو ری شیڈول کروانے میں کس حد تک کامیاب ہوپاتی ہے یا دوسری صورت میں وہ پہلے سے مشکل معاشی حالات سے دوچار عوام کو کس طرح حقیقی صورتحال سے آگاہ کرکے ان کے اعتماد کے ساتھ ان مشکل معاشی حالات کا مقابلہ کرتی ہے۔ ویسے شہباز شریف نے وزیراعظم کا منصب سنبھالتے ہی جس عزم اور برق رفتاری کے ساتھ ہر چار جانب کاموں کا آغاز کیا ہے ،اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے تمام اتحادیوں کی باہمی مشاورت اور معاونت کے ساتھ پاکستان کو موجودہ گرداب سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔