عمران خان ناکام کیوں ہوئے؟

سالار سلیمان  بدھ 20 اپريل 2022
عمران خان نے حکومت میں آتے ہی سیاسی اختلافات کو دشمنی میں بدل دیا۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان نے حکومت میں آتے ہی سیاسی اختلافات کو دشمنی میں بدل دیا۔ (فوٹو: فائل)

ریاست عمرانیہ کا پروجیکٹ ناکام ہوچکا، فلاپ ہوچکا، اور یہ اُس مقام تک پہنچ گیا جہاں سے آگے حالات ہاتھ سے نکل سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ سمیت ہر فیصلہ ساز ادارے نے اس مقام پر نیوٹرل ہوجانے میں بہتری سمجھی۔ اپوزیشن کےلیے یہ ایک سگنل تھا اور انہوں نے عمران خان کی حکومت کے اتحادیوں سے بات چیت کرکے بعین براستہ آئین اس حکومت کا خاتمہ کردیا۔ آج ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی وجوہات کیا رہی ہیں۔

عمران خان کی شخصیت میں بہت سے جھول موجود ہیں۔ اس بات کا علم مجھے ایسے ہوا تھا کہ ایک مرتبہ شاید 2012 میں ایک ماہر نفسیات کے ساتھ میں ان کا کوئی انٹرویو دیکھ رہا تھا، اس ماہر نفسیات نے جو عمران خان کی شخصیت کا خلاصہ کیا تھا، کم وبیش وہ ویسا ہی نکلا۔

عمران خان کو پاکستان کی تاریخ کی مستحکم ترین حکومت ملی تھی۔ یہ اگر چاہتے تو پاکستان کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوا سکتے تھے لیکن انہوں نے ملکی تاریخ کا وہ پہلا وزیراعظم بننا پسند کیا جسے پارلیمنٹ نے عدم اعتماد سے فارغ کیا ہو۔ 2018 کے اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ہمیں ہر معاملے میں نوازشریف کی سابق حکومت بہتر نظر آتی ہے۔ اس کے دور میں عسکری قیادت نے سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کیا، کراچی جیسے شہر کو امن کے دن دیکھنے نصیب ہوئے۔ جی ڈی پی 5 سے زائد جا رہا تھا، فی کس آمدنی میں اضافہ ہورہا تھا، لوڈشیڈنگ کا بھوت غائب ہوچکا تھا، پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہورہا تھا، الغرض کہ تمام اشاریے بہتری کی نوید سنا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس بات پر مصر ہوں کہ عمران خان کو بہتر اور مستحکم حکومت ملی تھی۔

عمران خان نے حکومت میں آتے ہی سیاسی اختلافات کو دشمنی میں بدل دیا۔ اصل میں عمران خان نے حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن ہی کی ہے۔ یہ وہ خطرناک مائنڈ سیٹ ہے جس میں ڈلیور نہیں کیا جاسکتا۔ حکومتی مائنڈ سیٹ میں رکھ رکھاؤ، تحمل، برداشت، بردبادی کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ عمران خان 3 سال 7 ماہ کنٹینر مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان کی ہرتقریر میں اپوزیشن کو رگڑنے کی باتیں ہوتی تھیں۔ انہوں نے اس مقصد کےلیے ریاستی اداروں کا بھی استعمال کیا۔ قومی اسمبلی میں بعد از حلف اپنی تقریر کے بعد سے لے کر اپنی آخری تقریر تک، عمران خان اپوزیشن لیڈر کے مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں آسکے۔

اس کے بعد انہوں نے اپنی ٹیم بھی انتہائی ناقص رکھی ہوئی تھی بلکہ تجزیہ کاروں کو پہلے ایک دو ماہ میں اندازہ ہوگیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کی کسی بھی حوالے سے نہ کوئی تیاری ہے اور نہ ہی ان کا کوئی ہوم ورک ہے۔ اس کے بعد جب وزارتوں میں اکھاڑ پچھاڑ ہونا شروع ہوئی تو سسٹم میں خلل پیدا ہونا شروع ہوا۔ سب سے زیادہ مسائل خزانہ کی وزارت کے ساتھ تھے، وہاں عاطف میاں کے مشورے اور نااہل وزیرو مشیر موجود رہے کہ جن کےلیے پاکستان سے زیادہ آئی ایم ایف عزیز تھا اور وہ خان صاحب کی قیادت میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ملک کو آئی ایم ایف کے قدموں میں رکھ کر آگئے۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ جب آقا آئی ایم ایف اپنے غلاموں کو آرڈر لگاتا تھا تو ملک میں مہنگائی بڑھتی چلی جاتی تھی اور یوں عام آدمی کا سانس تک لینا محال ہوگیا تھا۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں گیا ہو، پاکستان اس سے قبل کئی مرتبہ جاچکا ہے بلکہ دو مرتبہ پروگرام کو کامیابی سے مکمل بھی کرچکا ہے۔ عمران حکومت نے مذاکرات ہی اس بھونڈے انداز میں اور بغیر کسی دور اندیشی کے کئے تھے کہ پاکستان کی معیشت کا ستیاناس ہوتا گیا۔ اس کے بعد حکومت نے اسٹیٹ بینک کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف کی شرائط مان لیں اور یوں پوری معیشت آئی ایم ایف کو رینٹ آؤٹ کردی گئی۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں ڈالر تقریباً 190 روپے تک بھی گیا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں 150 فی لیٹر سے زائد ہوئیں۔ ٹیکس کی شرح میں کمر توڑ اضافہ ہوا اور معاملات مملکت چلانے کےلیے تقریباً 20 ہزار ارب کا مزید قرض لیا گیا۔ یہ جن صحافیوں کے دل میں آج عمران خان کی محبت جاگ رہی ہے، کل تک وہ معاشی قتل عام پر صفحے کالے کرتے ہوئے عمران خان کو ہٹلر بنانے میں مصروف تھے۔

عمران خان نے احتساب کے نام پر جو اس سسٹم اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا ہے وہ ایک الگ ہی داستان ہے، جس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ انہیں جس سیاستدان سے مسئلہ ہوتا تھا، اس پر کیس بنایا جاتا تھا اور پھر وہ سلاخوں کے پیچھے ہوتا تھا۔ جس بیوروکریٹ کو کسنا ہوتا تھا،ا س کو نیب کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ الغرض کہ ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تھی۔ قوم بھی احتساب کی بانسری کے پیچھے لگی ہوئی تھی لیکن آپ خود ایمانداری سے بتائیے کہ ان 3 سال اور 7 ماہ میں تمام تر وسائل، طاقت، اختیارات اور اداروں کے بے دریغ استعمال کے بعد بھی نتیجہ کیا ہے؟ اس احتساب کے نام پر قومی خزانے سے کتنا خرچ ہوا اور اس کے مقابلے میں قومی خزانے میں کتنی رقم آئی؟ خان حکومت نے احتساب خاک کرنا تھا، انہوں نے تو ملک ریاض کو جرمانے کے سیکڑوں ارب روپے شکریہ کے ساتھ واپس کردیے تھے۔

عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے زعم سے باہر نکل کر حالات کا سامنا کرتا اور حقائق کو تسلیم کرتا۔ مطلب اگر ایک آدمی شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی تعریف خود ہی کرتا چلا جائے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟ عمران خان کو ایسا لگتا تھا کہ یہ الیکٹ ایبلز اصل میں اس کے کرشمہ سے متاثر ہوکر اس کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ یہ ایک بندوبست کرکے ان کو دیا جارہا تھا تاکہ وہ حکومت کرسکیں۔ یہ سب کیٹ فش ہوتی ہیں، یہ جھیل سوکھنے سے پہلے ہی اسے چھوڑ کر دوسری جھیل یا تالاب کی جانب چلی جاتی ہیں۔

پھر جنہوں نے آپ کو یہ بندوبست کرکے دیا، جو آپ کے محسنین تھے، آپ نے وقت کے بعد ان کی ہی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ آپ نے جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے ساتھ کیا نہیں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں شخصیات درحقیقت کن کے ساتھ گہرے روابط رکھتی ہیں۔ آپ نے حکومت میں آتے ساتھ ہی پہلے عبدالعلیم خان کو سائیڈ لائن کیا اور پھر جہانگیر ترین کو بھی آپ نے فارغ کردیا۔ یہ آپ نے اصل میں کس کو اور کیا پیغام دیا تھا؟ جہانگیر ترین نے تو مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کےلیے اپنے طیارے کو رکشے کی طرح چلایا تھا۔ آپ نے اُن کے بچے اور خواتین بھی کیسز میں ملوث کروا دیے۔ یہ دونوں جب آپ سے رابطہ کرنا چاہتے تھے تو آپ کسی تیسرے درجے کے آدمی کو حکم جاری کردیتے تھے۔ یہ سب کیا تھا؟ آپ بھول گئے تھے کہ یہ پرانے لوگ ہیں اور یہ وقت آنے پر اپنا بدلہ ضرور لیں گے۔ دیکھ لیجئے، یہ دونوں سائیڈ پر ہوئے، ادارے بھی سائیڈ پر ہوئے اور آج آپ جلسوں میں اپنا قصور پوچھ رہے ہیں۔

اس کے بعد پوری دنیا آپ کو سمجھاتی رہی کہ عثمان بزدار ایک نکما انسان ہے لیکن آپ کو اس میں وسیم اکرم کی جھلک دکھائی دیتی تھی اور آپ اس کو وسیم اکرم پلس کہنا شروع ہوگئے۔ اور شخص نے بھی 3 سال 7 ماہ میں کوئی ایک ڈھنگ کا کام نہیں کیا۔ اس کی نالائقی اور آپ کی پنجاب پر کنٹرول رکھنے کی خواہش نے پورے صوبے کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔

شیخ رشید اور فواد چوہدری جیسوں کو ساتھ رکھنا بھی آپ کا بلنڈر ہے۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید دونوں حکومتوں کو گرانے میں بنیادی وجہ ہوتے ہیں۔ شیخ رشید تو پارٹی کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی کلیدی حیثیت اختیار کرچکے تھے۔ یہ دونوں آپ کے قریب بھی تھے اور آپ کو غلط مشورے بھی دیتے رہتے تھے۔ یہ سستی اور بازاری زبان استعمال کرتے تھے اور آپ سے داد پاتے تھے۔ اس کے بعد شہباز گل بھی اسی ویگن میں سوار ہوئے اور پھر چل سو چل، معاملہ کہاں رکتا ہے، اللہ ہی جانے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو عمران خان کی تکبر کو چھوتی انا نے بھی تباہ کیا ہے۔ یہ اپنے عروج میں اپنے اتحادیوں سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے تھے اور ملاقاتوں میں ان کا سلوک ایسا ہوتا تھا کہ جیسے کوئی آقا اپنے ملازم کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ان کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے اور اتحادیوں کو چند منٹ کی ملاقات کےلیے بھی اچھی خاصی مشقت کرنا پڑتی تھی۔ پھر ان کی ضرورت سے زیادہ خوش گمانی جس میں وہ سرحدیں ملاتے تھے، عالمی معاشی مسائل حل کرتے رہتے تھے، ثالثی کرواتے تھے۔ عمران خان کا کھوکھلا احساس برتری کہ میں سب سے بہترین ہوں اور باقی ساری سیاسی قیادت بالکل حقیر ہے۔ اس کے بعد طاقت کے منبع کو تابع سمجھنے کا بلنڈر، جس میں عمران خان کو خود 440 واٹ کا جھٹکا لگا تھا۔ عمران نیازی نے دشمنی کی آگ میں جلتے ہوئے اپوزیشن پر ملک کی زمین کو تنگ کرنا شروع کردیا، جس میں کئی ارب روپے کے اخراجات کے بعد ریکوری کتنی ہے، کوئی نہیں جانتا۔

عمران خان اہم ترین اداروں پر غیر اہم اور سفارشی لوگوں کو بھرتی کرتے تھے، جس کے بعد ظاہر ہے اداروں نے بیٹھنا ہی تھا۔ عمران خان پر میڈیا نے ان کی حکومت بننے کے پہلے بہت احسانات کیے تھے، انہوں نے آتے ساتھ ہی میڈیا کا مکو بھی ٹھپ کردیا۔ جو صحافی اس کے خلاف لکھتا تھا، اس کی غلطی کی نشاندہی کرتا تھا، مسائل کا حل بتاتا تھا، وہ پابندیوں کے سلاسل میں بھیج دیا تھا یا اس کو نوکری سے برخاست کروا دیا جاتا اور یا پھر اس کو گرفتار کرنے کےلیے کوئی بھی مقدمہ بنادیا جاتا تھا۔ آخری ایام میں تو پیکا کے کالے قانون کے ذریعے پریس کا جنازہ نکالنے کی بھی پوری کوشش کی گئی تھی۔

خان صاحب کا آخری بلنڈر اپنی شکست کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ انہیں نظر آچکا تھا کہ وہ اسمبلی میں نمبرز گیم ہار چکے ہیں۔ اپنی سیاست کو بچانے کےلیے عمران خان نے لیٹر گیٹ کا کارڈ کھیلا جو عوام کےلیے نشانے پر لگا۔ لیکن یہ تحقیقات میں ان کو لے کر بیٹھ جائے گا۔ فی الوقت، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہ مومینٹم کب تک قائم رکھ سکیں گے؟ ان کے جلسے آہستہ آہستہ چھوٹے ہوتے چلے جائیں گے، پھر؟

اب تک وہ جو کچھ بھی کرچکے ہیں اور جو کچھ سمجھانے کے باوجود خان صاحب کر رہے ہیں، آپ کو لگتا ہے کہ وہ کسی کےلیے بھی قابل قبول رہ گئے ہیں؟ کوئی بھی طاقت کی اکائی ان کو دوبارہ سسٹم میں شامل کرنے کی بات کرے گی؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ ابھی ایسا ممکن نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔