اسلام آباد ہائیکورٹ کا لاپتہ افراد کا معاملہ نئی وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم

ویب ڈیسک  جمعـء 22 اپريل 2022
کیس کی مزید سماعت 17 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔ فوٹو : فائل

کیس کی مزید سماعت 17 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو لاپتہ افراد کا معاملہ نئی وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دے دیا۔

مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئندہ سماعت پر سیکریٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

جبری گمشدگی افراد کمیشن کی تازہ رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی، عدالتی معاون اور دیگر فریقین سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے تجاویز طلب کر لیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کو ایک موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ پالیسی وضع کرے، سیکریٹری داخلہ وفاقی حکومت سے جبری گمشدگی سے متعلق ہدایات لیکر آگاہ کرے۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ 31 مارچ کی کمیشن رپورٹ ہے کہ 76 افراد مارچ میں لاپتہ ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری داخلہ مارچ میں لاپتہ ہونے والے افراد کی رپورٹ کابینہ کے سامنے پیش کریں۔

مدثر نارو کی والدہ نے عدالت کو بتایا کہ میں قانون نہیں پڑھی ہوئی لیکن کوئی چور بھی ہوتا ہے تو اس کی بھی ضمانت ہوتی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ مدثر نارو کی فیملی کے پاس مصدقہ رپورٹ ہے سیکریٹری داخلہ مدثر نارو کی فیملی سے رابطہ کرے اور مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق رپورٹ عدالت جمع کرائیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے جواب جمع کرانے کے لیے تین ہفتے کا وقت دینے کی استدعا کر دی۔ عدالت نے کمیشن کے رجسٹرار سے مکالمہ کیا کہ پہلے تو اپنی کارروائی میں ہمدردی لیکر آئیں ان تک تو آپ کو خود پہنچنا چاہیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگی کمیشن کی جانب سے مسنگ پرسنز کی فیملیز کو مطمئن کرنا ضروری ہے، اگر مسنگ پرسنز کی دوبارہ شکایت آئے گی تو عدالت کمیشن کو ذمہ دار ٹھہرائے گی، جب مدثر نارو کی فیملی کے پاس مصدقہ معلومات ہے تو سیکریٹری داخلہ نے کیوں نہیں دیکھا، جس وقت بھی جو ہو یہ آپ لوگوں کی عدالتیں ہیں۔

عدالت نے وفاقی حکومت سے فیڈرل ٹاسک فورس آن مسنگ پرسنز کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 17 مئی تک ملتوی کر دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔