غیر جانبداری کی ضرورت

ناصر الدین محمود  اتوار 24 اپريل 2022

ان دنوں قوم کو سابق صدر ممنون حسین (مرحوم) بہت یاد آئے کہ جس طرح انھوں نے اپنی قومی روایات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تحریک انصاف اور عمران خان سے اپنے تمام تر سیاسی اختلافات کو اپنے فرائض منصبی پر غالب نہیں آنے دیا۔

باوجود اس حقیقت کے کہ انھوں نے 2014 کے دھرنوں سے لے کر میاں نواز شریف کی نااہلی اور گرفتاری تک کے تمام فیصلے دل پر جبر کرتے ہوئے ہی قبول کیے۔ اسی طرح کے قومی اور اعلیٰ اخلاقی روایات کی پاسداری کے اقدامات نے ان کی شخصیت کو یادگار بنا دیا۔

سابق صدر مملکت ممنون حسین (مرحوم) نے اپنے صدارتی منصب کے قومی تقاضوں اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف سے وزیر اعظم کے منصب کا حلف لیا لیکن کسی قسم کا کوئی آئینی بحران پیدا کرنے کا شائبہ تک ان کے ذہن میں نہیں آیا کیونکہ ان کے نزدیک اس طرح کے حربوں سے ملک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو کر سیاسی اور معاشی مشکلات میں مبتلا ہو جاتا ہے جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے، وہ جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے جمہوری روایات کے سچے امین تھے۔

جنہوں نے اپنی غیر جانبداری کو ہر حال میں برقرار رکھا۔ ویسے اس ضمن میں میاں محمد نواز شریف کو بھی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھی گئی ہر زیادتی کو خوش دلی سے قبول کیا لیکن اپنے دیرینہ ساتھی اور اپنے ہی نامزد کردہ صدر مملکت ممنون حسین (مرحوم) سے کسی غیر جمہوری، غیر اخلاقی کام کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ جو جگ ہنسائی کے ساتھ ساتھ ملک کو کسی نوعیت کے آئینی بحران میں مبتلا کردیتا۔ سابق صدر مملکت ممنون حسین (مرحوم) نے اپنی خواہش کے برخلاف عمران خان سے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان سے بطور وفاقی وزراء کے حلف بھی لیا اور پھر عمران خان کی سفارش پر صوبوں میں گورنر بھی تعینات کیے۔

دوسرا منظر ان دنوں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب ملک کی تاریخ میں پہلی بار آئین کے مطابق ایک حکومت کو اقتدار سے معزول کرکے اس کی جگہ دوسری حکومت قائم کی گئی ہے۔ یعنی عین آئینی طریقہ کار پر عمل درآمد کرتے ہوئے اب ملک میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہو چکی ہے اور مسلم لیگ ن اور دیگر اتحادی جماعتوں نے عنان اقتدار سنبھال لیا ہے لیکن صدر مملکت عارف علوی اس موقع پر اپنے منصب جلیلہ کے وقار کے شایانِ شان اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ صدرِ مملکت عارف علوی نے آخر کار تحریک انصاف کے کارکن کا طرز عمل اختیار کر لیا ہے اور وہ اپنی غیر جانبداری کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی بعد ازاں قومی اسمبلی نے نئے قائد ایوان کا انتخاب کرلیا۔ آئین کی روح کے مطابق صدر مملکت نے نومنتخب وزیراعظم سے حلف لینے سے احتراز کیا اور بیماری کی وجہ بیان کرکے اس تقریب میں شرکت سے معذرت کر لی۔

صدر کی عدم دستیابی کے باعث چیئرمین سینیٹ نے نو منتخب وزیراعظم سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔ اس کے چند روز بعد جب نئی وفاقی کابینہ میں شامل وزراء سے حلف لینے کا موقع آیا تو قوم نے ایک بار پھر وہی منظر دیکھا کہ نئی کابینہ سے صدر مملکت کے بجائے چیئرمین سینیٹ نے حلف لیا اس بار بھی صدر مملکت کی عدم شرکت کا جواز بیماری ہی بیان کیا گیا۔ بہرحال جواز جو بھی رہا ہو قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر تاثر یہی لیا گیا کہ گویا صدر مملکت عارف علوی نے حکومت کی تبدیلی کے اس عمل کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔

اس تاثر کو مزید تقویت اس وقت ملی جب وزیراعظم نے گورنر پنجاب کو سبکدوش کرنے کی سفارش کی لیکن صدر مملکت نے اب تک ان کی سبکدوشی کے احکامات جاری نہیں کیے ہیں بلکہ گورنر پنجاب نے ایک جانب پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلیٰ سے ان کے منصب کا حلف لینے سے انکار کردیا بلکہ اس سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ پنجاب کے مستعفی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کو ہی متنازع بنا کر صوبہ پنجاب کو ایک نئے آئینی بحران میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس سلسلے کا آخری شبہ اس روز یقین میں بدل گیا جب وزیراعظم شہباز شریف صدر مملکت عارف علوی کی عیادت کی غرض سے ایوانِ صدر گئے تو اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کی اس خواہش کے جواب میں کہ ہم آپ سے تعاون اور شراکت داری سے امور مملکت کی انجام دہی کے خواہشمند ہیں، جواب میں صدر مملکت نے انھیں مختصر سا جواب دیتے ہوئے باور کروا دیا کہ میں اپنی آئینی ذمے داریوں سے بخوبی واقف ہوں اور آئین کے مطابق میں امور مملکت کی انجام دہی جاری رکھوں گا۔

صدر مملکت کا عہدہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً ایک آئینی منصب ہے، جو حکومت نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ اسی نسبت سے اس منصب کا یہ تقاضا ہے کہ اس منصب پر فائز شخص اپنی سیاسی فکر اور شناخت سے بلند ہو کر صرف پاکستانی کے طور پر اپنے کارہائے منصبی کو انجام دے۔ اس کے طرزِ عمل سے اس کی سیاسی فکر کا شائبہ تک نہ ہو سکے اور وہ مکمل غیر جانبدار رہے۔ سیاسی جماعت کی بنیاد پر اس کے نزدیک لوگوں میں بالکل تخصیص نہیں ہونی چاہیے لیکن آج حقیقت اس سے کچھ مختلف دکھائی دے رہی ہے۔

ان ہی اعمال سے محفوظ رہنے کے لیے قوم کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے نتیجے میں آئین میں 18 ترمیم ہوئی جس کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی گئیں ترامیم کو ختم کرکے صدر کو حاصل بے پناہ اختیارات کو محدود کیا گیا اور آئین کو ایک بار پھر پارلیمانی دستور کی ہیئت میں بحال کیا گیا۔ آج اگرچہ صدرِ مملکت کا کردار ایک بار پھر متنازع بنتا جا رہا ہے ۔ پاکستان کا آئین ایک پارلیمانی نظام حکومت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جس میں صدر مملکت کا منصب ریاست کے سربراہ کا ہے۔

آئین کی روح سے اس کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہے لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ صدر ممنون حسین (مرحوم) کی روایت پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیاسی نظریات و تشخص سے بالاتر ہو کر آئینی کردار ادا کیا جائے۔ ریاست کو کسی نوعیت کے نئے بحران میں مبتلا کرنے کے بجائے آئینی طور پر منتخب حکومت کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے سے اجتناب برتیں اور ان کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کریں تاکہ ملک جو پہلے ہی کئی مسائل اور بحرانوں کا شکار ہے اس سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے۔

ممنون حسین (مرحوم) نے اپنے دورِ صدارت میں ایوان صدر کو غیر ملکی سربراہان مملکت یا سربراہان حکومت اور قومی تقریبات کے علاوہ علمی و ادبی سرگرمیوں تک محدود کردیا تھا۔ اس دور میں ایوان صدر میں کوئی سیاسی سازش نہ تیار کی جاتی تھی اور نہ ہی اس پر عمل پیرا ہوا جاتا تھا۔ قوم کو اسی طرح کے صدر مملکت اور ایوانِ صدر کی ضرورت ہے جو منتخب حکومت کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔