دعا اور نمرہ مل گئیں، اب آگے کیا ہوگا؟

نورجہاں شیخ  منگل 26 اپريل 2022
لڑکیاں اغوا نہیں ہوئیں بلکہ انھوں نے اپنی پسند سے شادی کرلی ہے۔ (فوٹو: فائل)

لڑکیاں اغوا نہیں ہوئیں بلکہ انھوں نے اپنی پسند سے شادی کرلی ہے۔ (فوٹو: فائل)

بالآخر کراچی کی لاپتہ دعا زہرہ کا پتہ مل ہی گیا۔ ہاں وہی 14 سالہ دعا زہرہ، جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ گھر کے دروازے پر کچرا پھینکنے گئی اور پھر اس طرح گم ہوگئی کہ علم ہی نہ ہوسکا اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

دعا کے والد کی آہ و زاری پر پوری قوم غمگین ہوگئی۔ ہر دردمند شخص دعا کی واپسی کے لیے دعاگو تھا۔ حالانکہ دعا کے والد مہدی کاظمی اور جے ڈی سی کے ظفر عباس نے ایک بیٹی کی گمشدگی کے معاملے کو بھی مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی، فرقہ وارانہ بنیاد پر مسجد میں گمشدگی کا اعلان نہ کرنے کا غلط الزام بھی عائد کیا گیا۔ لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہی رہے کہ دعا کی سلامتی کے لیے دعا کرنے والوں میں ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگ شامل ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں یہ کسی فرقے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک بیٹی کی گمشدگی کا معاملہ تھا۔ اور بیٹیوں والے دعا کی شکل میں اپنی بیٹی کو دیکھ رہے تھے۔

ابھی دعا کو غائب ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے اور اس کی تلاش جاری ہی تھی کہ کراچی کی ایک اور بیٹی گم ہوگئی۔ نمرہ کاظمی کے والدین نے ابتدائی بیان دیا کہ وہ کام پر تھے، واپسی پر علم ہوا کہ ان کی بیٹی کو زبردستی گاڑی میں بٹھا کر اغوا کرلیا گیا ہے۔

شہری ہراساں تھے کہ یہ کراچی میں کیا ہورہا ہے؟ ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری لڑکی دینہ کے بھی غائب ہونے کی خبر نے شہریوں کو فکرمند کردیا۔ شہری پریشان تھے کہ کہیں اغوا کاروں کا کوئی منظم گروہ تو شہر میں دوبارہ فعال نہیں ہوگیا جو لڑکیوں کے اغوا میں ملوث ہے؟ اس شہر خراباں میں اس سے پہلے بھی تو اس قسم کے واقعات ہوچکے ہیں۔ دوسرا خیال زیادہ پریشان کن تھا۔

جے ڈی سی کے ظفر عباس اور دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے لڑکی کی گمشدگی کے معاملے کو جس طرح فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی تھی، اس پر بھی چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔ دعا اور نمرہ کا ایک ہی اقلیتی فرقے سے تعلق ہونے اور یکے بعد دیگرے گم ہونے کے بعد جس طرح اس معاملے میں اقلیتی فرقہ کی مظلومیت کا رونا رویا گیا، شہر کے ذی ہوش افراد پریشان تھے کہ کہیں یہ معاملہ کسی اور سمت نہ نکل جائے۔ یہ شہر ناپرساں مزید کسی لسانی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو نہیں جھیل سکتا۔ بہت مشکل سے اس شہر کو امن نصیب ہوا ہے، کسی بھی قسم کی مہم جوئی اس شہر کے سکون کو دوبارہ غارت کرسکتی ہے۔ لیکن جے ڈی سی کے ظفر عباس، جو اپنی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے انھوں نے دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے ساتھ مل کر اپنی وائرل ویڈیوز اور نجی ٹی وی کے شو میں بھی اس واقعے کو جو مخصوص رنگ دینے کی کوشش کی وہ بھی نامناسب عمل تھا۔

اچانک ان سارے معاملات کا ڈراپ سین ہوتا ہے اور شہریوں کی ہمدردیاں لعن طعن میں بدل جاتی ہیں۔ مظلوم ظالم اور معصوم شرانگیز نظر آنے لگتا ہے۔

25 اپریل کو علم ہوتا ہے کہ کراچے کے علاقے الفلاح گولڈن ٹاؤن سے 16 اپریل کو لاپتہ ہونے والی دعا نے لاہور کے رہائشی ظہیر احمد سے شادی کرلی ہے۔ ایک 14 سالہ لڑکی جو کچرا پھینکنے گھر سے باہر نکلی وہ کراچی سے لاہور کتنی آسانی سے اور اتنی جلدی پہنچ گئی کہ جاتے ہی اس نے 17 اپریل کو نکاح بھی کرلیا؟ دعا نے الزام عائد کیا کہ والد کا سلوک ناروا تھا، تشدد بھی کیا جاتا تھا۔ اور نکاح کے بعد 18 اپریل کو والد اور کزن زین العابدین لاہور کے گھر میں زبردستی گھس آئے لیکن محلے والوں کی مداخلت پر واپس لے جانے میں ناکام رہے۔ بہرحال واقعے میں کچھ ابہام یا غلط بیانی تو ہے۔

دعا زہرہ کے ملنے کی خبر میڈیا پر نشر ہونے کے کچھ دیر بعد نمرہ کاظمی کے معاملے کا بھی ڈراپ سین ہوجاتا ہے۔ نمرہ کی والدہ نے ابتدائی تفتیش میں کسی شاہ رخ نامی لڑکے پر اغوا کا شبہ ظاہر کیا تھا۔ خبر ملتی ہے کہ کراچی ملیر سے لاپتا ہونے والی 16 سالہ نمرہ نے ڈیرہ غازی خان میں نجیب شاہ رخ نامی لڑکے سے نکاح کرلیا ہے۔ نمرہ کی ویڈیو بھی موصول ہوجاتی ہے، جس میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش ہے اور ایک ویڈیو میں بیان دیتی ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتاتی ہے کہ نجیب شاہ رخ سے بچپن میں منگنی ہوئی تھی۔ اور والد پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ زبردستی کسی بڑی عمر کے آدمی سے اس کی شادی کرانا چاہتے تھے۔

اگلی صبح تک تیسری لڑکی دینار کی وہاڑی کے اسد عباس نامی لڑکے سے نکاح کی خبر سامنے آگئی۔

شہریوں نے سکھ کا سانس لیا کہ کم از کم دونوں لڑکیاں خیریت سے ہیں اور یہ کوئی اغوا کا معاملہ نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ہی کئی اور سوالات نے جنم لیا۔ والدین کا بچوں سے غفلت برتنے اور اخلاقی تربیت کے فقدان کا معاملہ زیر بحث ہے۔ بچوں کے بے جا آزادی اور آزاد روی پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ معاشرے میں اخلاقی تنزلی کوئی نئی بات نہیں، ہماری سنہری اقدار تو اکیسویں صدی کی ابتدا سے پہلے ہی کہیں کھو گئی تھیں۔ اس نفسانفسی کے دور میں والدین کی لاپرواہی اور غفلت نے بچوں کے اخلاق کو مزید بگاڑ دیا، سونے پہ سہاگہ موبائل اور انٹرنیٹ کی دنیا نے بچوں پر وہ در بھی وا کردیئے جنھیں وقت سے پہلے جاننا بچوں کی معصومیت چھین کر بچپن میں ہی بالغ کردیتا ہے۔ غضب تو یہ ہوا کہ بچوں کو ان راہوں پر جانے سے روکنے کے لیے والدین بھی اپنا کردار نہیں نباہ سکے۔ نتیجتاً ہمیں معاشرے کی وہ بگڑی ہوئی صورت دکھائی دیتی ہے جسے سنبھالنا اور سدھارنا مشکل امر محسوس ہوتا ہے۔

خبروں کے مطابق دعا زہرہ کی ظہیر احمد سے دوستی موبائل پر پب جی گیم سے ہوئی۔ پب جی تو یونہی بدنام ہوا، اصل معاملہ تو بے مہار روابط کا ہے۔ بلاشبہ آج کے دور میں بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور رکھنا خود ان کے ساتھ ظلم ہوگا، نہ ہی بچوں کو گھروں میں قید کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر تربیت درست ہو تو انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی یا گھر سے باہر نکلنا بچوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ اس معاملے میں صرف اور صرف والدین ہی قصوروار ہوتے ہیں۔ صحیح اور بروقت فیصلے بدنامی سے بچا سکتے ہیں۔

ان لڑکیوں نے نکاح کرکے کوئی غلط کام نہیں کیا لیکن طریقہ کار غلط اختیار کیا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ انھیں مستقبل میں گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کا طعنہ ملے۔ ابھی تو معاملہ تازہ ہے اس لیے شوہر کی محبت اور توجہ بھی حاصل ہے، لیکن مستقبل میں سسرال اور شوہر کا رویہ وقت کے ساتھ بدل نہ جائے کہ میکے کا دستِ شفقت تو سر پر رہا نہیں۔ یہ کم عمر لڑکیاں اپنی زندگی کی کتنی بڑی غلطی کر بیٹھی ہیں انھیں شاید اندازہ بھی نہیں ہے۔ ہم تو انھیں صرف دعائیں ہی دے سکتے ہیں۔

دعا کے والد اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ غلط بیانیاں بہرحال کی گئی ہیں، جن کا اندازہ وقت کے ساتھ ہورہا ہے۔ لیکن اس سارے معاملے میں جو خرابی پیدا ہوئی ہے اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہورہا۔ اور اس خرابی کے پیدا ہونے میں قصوروار لڑکیوں کے والدین سمیت خود یہ لڑکیاں اور شریک جرم شوہر بھی شامل ہیں۔ جانتے ہیں وہ خرابی کیا ہے؟ اب لڑکیوں اور اپنے بچوں سے لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے گا۔ اور خدانخواستہ مستقبل میں کسی لڑکی کا سچ میں اغوا ہوجاتا ہے تو لوگ اب دھیان نہیں دیں گے، انھیں یہی لگے گا کہ وہ لڑکی بھی اپنے گھر سے بھاگ گئی ہے۔ کیونکہ ان تمام واقعات میں جس طرح لوگ جذباتی طور پر ملوث ہوئے، لڑکیوں کے لیے دعاگو رہے، معاملہ کھلنے کے بعد اب اتنی ہی تنقید کی جارہی ہے۔ اس خرابی کی صورت میں بھاگنے والی لڑکیوں، ان کو بہکانے والے لڑکوں، انھیں سپورٹ کرنے والے دوستوں اور رشتے داروں سمیت والدین نے جو جرم کیا ہے وہ قابلِ معافی نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

نورجہاں شیخ

نورجہاں شیخ

بلاگر کئی سال سے اپنے شہر کوٹ غلام محمد میں تعلیمی، سماجی اور فلاحی کاموں میں فعال ہیں۔ آج کل سیو ہیومین سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن کی میرپورخاص میں ڈویژنل انچارج کی ذمے داریاں بھی نباہ رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔