کرکٹرز اور سوشل میڈیا

سلیم خالق  جمعرات 28 اپريل 2022
احمد شہزاد اور عمر اکمل سوشل میڈیا پر تو ہیرو بن گئے لیکن کرکٹ فیلڈ میں زیرو ثابت ہوئے۔ فوٹو: فائل

احمد شہزاد اور عمر اکمل سوشل میڈیا پر تو ہیرو بن گئے لیکن کرکٹ فیلڈ میں زیرو ثابت ہوئے۔ فوٹو: فائل

آپ کو احمد شہزاد اور عمر اکمل تویاد ہی ہوں گے، خیر ابھی یہ دونوں اس حال پر ہی نہیں پہنچے کہ لوگ انھیں بالکل ہی بھول جائیں مگر جب بھی ان کا ذکر ہو تو یہ کہا جاتا ہے کہ ’’کتنے زبردست کرکٹرز تھے مگر خود اپنے کیریئر تباہ کر دیے‘‘ واقعی ایسا ہی ہوا، ان کے زوال کی بڑی وجہ سوشل میڈیا بنا، ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں،اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ کس جانب جائیں۔

احمد شہزاد اور عمر اکمل سوشل میڈیا پر تو ہیرو بن گئے لیکن کرکٹ فیلڈ میں زیرو ثابت ہوئے، کھیل سے توجہ ہٹی تو سوشل میڈیا پر بھی اہمیت ملنا کم ہوئی، اب دوسرے لوگ ان سے بہت آگے نکل گئے،بابر اعظم کے  ٹویٹر پر 32 لاکھ فالوورز ہیں، انھوں نے ہر روز نت نئی سیلفیز سے یہ توجہ حاصل نہیں کی بلکہ کارکردگی کی وجہ سے ایسا ہوا، اگر آپ اپنے اپنے شعبوں میں اچھا پرفارم کریں گے تو لوگ خود متوجہ ہوں گے۔

اس کے لیے فضول پوسٹس کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی لیکن افسوس اس حوالے سے ان دونوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی موجود نہ تھا، موجودہ کرکٹرز تھوڑے سمجھدار ہیں اور شاید ہی کسی نے احمد شہزاد اور عمر اکمل کا انداز اپنایا ہوا،البتہ اس حوالے سے ان کو آگاہی فراہم کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔

یہ کام پی سی بی ہی درست طور پر کر سکتا ہے، کھلاڑیوں پرسوشل میڈیا کا اثر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، بدقسمتی سے ہم اب جس دور میں جی رہے ہیں اس میں نئی نسل اخبار پڑھتی ہے نہ ٹی وی دیکھتی ہے، ان کی معلومات کا اہم ذریعہ موبائل فون اور سوشل میڈیا ہی ہے جس میں فیک نیوز کی بھی بھرپور ہوتی ہے، میں جب کبھی بعض شخصیات سے منسوب غیرمعمولی ٹوئٹس دیکھوں تو فورا ان کے اکاؤنٹ پر جا کر تصدیق کرنے کی کوشش کرتا ہوں، یقین مانیے بیشتر غلط ہوتی ہیں جنھیں فوٹو شاپ پر بنایا ہوتا ہے مگر وہ جعلی پوسٹ ہی ہزاروں لائکس اور ری ٹویٹس حاصل کر چکی ہوتی ہے،کرکٹرز  پر سوشل میڈیا کا بہت اثر ہوتا ہے۔

کچھ عرصے قبل ایک کھلاڑی سے میرا کئی دن تک رابطہ نہیں ہوا، اس کے بھائی سے بات ہوئی توپتا چلا کہ سوشل میڈیا پر منفی کمنٹس سے وہ ڈپریشن میں چلا گیا،میرا تو اہم شخصیات کو یہی مشورہ ہے کہ کمنٹس پڑھا ہی نہ کریں، ہزاروں میل دور بیٹھے جعلی اکاؤنٹ بنائے ہوئے کسی شخص کو آپ کا سکون غارت کرنے کا بالکل بھی حق حاصل نہیں ہے، ایسے ٹرولز بس یہ سوچ کر کوئی پوسٹ کیا کریں کہ وہ جس کے بارے میں لکھ رہے ہیں کیا۔

اس کے منہ پر بھی ایسا کہہ سکتے ہیں، اگر ہاں تو ضرور لکھیں ورنہ نہیں۔سوشل میڈیا سے اہم شخصیات کے متاثر ہونے کا آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ چیف سلیکٹر محمد وسیم کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ ٹرینڈز سے بہت متاثر ہو جاتے ہیں،تابش خان جب عروج پرتھے تو انھیں موقع نہ ملا، وسیم نے بطور ٹی وی ماہر ان کے حق میں آواز اٹھائی، پھر جب وہ چیف سلیکٹربنے تو سوشل میڈیا پر ان کی تابش کے بارے میں پوسٹ کو مختلف لوگ شیئر کر کے یاد دلاتے رہے کہ آپ تو یہ کہتے تھے اب اختیار ملا ہے تو اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنائیں،وسیم نے تابش کو اس وقت ٹیسٹ کھلا دیا جب وہ ماضی جیسے بولررہے تھے نہ ڈومیسٹک کرکٹ میں پہلے والی کارکردگی تھی،اسی لیے کامیاب ثابت نہ ہو سکے اور صرف ٹیسٹ کیپ وصول کر کے کیریئر ختم ہو گیا،اہم عہدوں پر موجود لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ عام لوگوں اور ان کے ویژن میں فرق ہے۔

وہ اپنے شعبے کے ماہر ہیں، اگر آپ ٹویٹر کی بات مانیں تو ہر پی ایس ایل کے بعد تمام ٹاپ پرفارمرز کو پاکستان کی نمائندگی کا موقع مل جائے۔ پی سی بی تو سوشل میڈیا کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے، ایک کرکٹر کو اسٹارکی طرح ٹریٹ کرنا چاہیے مگر ہم نے حد سے زیادہ ایکسپوژر دے کر ان کی اہمیت خود کم کر دی، ویراٹ کوہلی آپ کو کتنا سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے؟ پی سی بی نے آئی سی سی اور دیگر بورڈز کے آئیڈیاز سے سیکھا اور خود بھی ویسا کیا مگر اعتدال نہ رکھا، جیسا کہ بھارت میں چاہل ٹی وی کے نام سے اسپنر ساتھی کھلاڑیوں سے انٹرویوز کرتے ہیں پاکستانی کرکٹرز  نے بھی ایسا کیا، ان کی ہر سرگرمی کی ویڈیو بنائی گئی لیکن ان میں مصنوعی پن نظر آیا، جیسے اعظم خان کو سلیکشن پر چیف سلیکٹر کی فون کال واضح طور پر فیک لگی۔

بیچارے موجودہ کرکٹرز ڈرتے زیادہ ہیں لیکن قریبی لوگوں کے سامنے وہ یہی کہتے ہیں کہ سوائے واش روم میں ہاتھ منہ دھونے کے ہر کام کی ویڈیو جاری کر دی جاتی ہے،اگر اتنا ہی شوق ہے تو ڈریسنگ روم میں کیمرے لگا دیں اور آسٹریلیا کی طرح دستاویزی فلم بنا کر ریلیز کریں، ظاہر ہے ایسا ہوگانہیں، کھلاڑی آپس میں باتیں کرتے ہیں، غصہ بھی آتا ہے، ہر چیز کی ویڈیو نہیں بنانا چاہیے، یوٹیوب ویڈیوز سے کمائی پی سی بی جیسے بڑے ادارے کے لیے تو معمولی سی بات ہوگی، اتنی دیر میں کسی اشتہار وغیرہ سے کھلاڑی زیادہ کما سکتے ہیں۔

ویوز کرکٹ بورڈ اور اسٹارز کی ویلیوز کی وجہ سے آتے ہیں،اس میں کسی آفیشل کا کوئی کمال نہیں،نیپال کرکٹ کے سوشل میڈیا پر کتنے فالوورز ہوں گے؟ کھلاڑیوں کی ویڈیوز بیچ کر پیسہ کمانے پر ان کو بھی حصہ لینا چاہیے،پاکستان کو سوشل میڈیا میں توازن لانے کی ضرورت ہے، ٹیم ہار جائے تو لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلیے انفرادی کارکردگی اور ریکارڈز کوبڑھا چڑھا کر نہ پیش کریں، چند دن خاموش رہیں۔

روایتی میڈیا کو تو بورڈ نے بالکل فراموش کیا ہوا ہے، ڈومیسٹک کرکٹرز کو بھی پابندیوں میں جکڑا جا چکا اور وہ بیچارے بھی انٹرویوز سمیت ہر معاملے میں اجازت کے طلبگار ہوتے ہیں، بچپن میں والدین سے بھی اتنی اجازت نہیں لینا پڑتی ہوگی جتنا ہر معاملے میں بورڈ سے پوچھنا پڑتا ہے،من پسند سوالات کے من پسند جوابات، یہ تو فکسڈ میچ ہوا، یہ کھلاڑی بچے نہیں ہیں انھیں آزادی دیں، ہاں ایک ضابطہ اخلاق ضرور ہونا چاہیے کہ یہ بات کرنا ہے اور یہ نہیں۔ جیسے ہم احمد شہزاد اور عمر اکمل کی مثالیں دیتے ہیں اب تو سوشل میڈیا کے معاملے میں پی سی بھی انہی کی ڈگر پر چل پڑا ہے حالانکہ اعتدال سے کام لینا چاہیے، کھلاڑیوں کا اصل کام کرکٹ کھیلنا ہے انھیں اسی پر توجہ دینے دیں، سوشل میڈیا نہیں کرکٹ فیلڈ کے اسٹارز بنائیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔