سیاست دانوں کے مفادات کی جنگ

عابد محمود عزام  جمعـء 29 اپريل 2022
 فوٹوفائل

فوٹوفائل

ملک کے سیاسی حالات سب کے سامنے ہیں۔ عدم برداشت ، انتہا پسندی ، تعصب ، غصہ اور نفرت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے رویوں میں در آیا ہے۔ عدم برداشت کا یہ حال ہے کہ کوئی انسان کسی سیاسی جماعت کے بارے میں اپنی آزادانہ رائے نہیں دے سکتا ، اگر آپ کی رائے کسی کو پسند نہ آئے تو طوفان بدتمیزی برپا کردیا جاتا ہے۔ گھر اور خاندان میں بھی سیاست پر بات کرنا ایک رِسک بن چکا ہے۔

سیاست پر بات کرتے کرتے ایک گھر میں مختلف نظریات کے حامل افراد میں ہی لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ ان انتہا پسندانہ سیاسی رویوں نے پوری قوم کو جکڑ لیا ہے، جس کی وجہ سے نفرت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر ذمے دار سیاست دانوں نے جس پراگندہ سیاسی کلچر کو فروغ دیا ہے، اس کے نتائج معاشرے کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ رہے ہیں۔

اب سیاسی اخلاقیات کے زوال کا ایک بڑا مظہر سوشل میڈیا بن چکا ہے، جہاں مخالفین پر الزام تراشی کی جاتی اور ان کے بارے میں انتہائی غلط زبان استعمال کی جاتی ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے ایسے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں ، جن کا مقصد مخالفین کی کردار کشی کرنا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ سیاست دانوں نے محض اپنے مفادات کے لیے پوری قوم میں ، انتہا پسندی ، نفرت اور عدم برداشت کے بیج بو دیے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں پر حیرت ہوتی ہے کہ سیاست دانوں کے مفادات کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو ضایع کر رہے ہیں۔

جن سیاست دانوں کی خاطر کارکن دن رات ایک کردیتے ہیں۔ لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔ اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں تک سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ جیلوں میں چلے جاتے ہیں اور اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک کارکنوں کی معمولی سی بھی حیثیت نہیں ہوتی۔ کارکن سیاست دانوں کے ہاتھوں صرف استعمال ہوتے ہیں۔

یہ بات تو کئی بار ثابت ہوچکی ہے کہ سیاست میں سارا جھگڑا مفادات کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست برائے خدمت نہیں، بلکہ سیاست برائے مفادات ہوتی ہے۔ سیاستدان ہر جگہ اپنے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے یہ لوگ دن رات عوام سے رابطے میں رہتے ہیں اور خود کو ملک و قوم اور عوام کا سب سے بڑا ہمدرد قرار دیتے ہیں ، لیکن الیکشن کے بعد ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ہر آنے والا سیاست دان قوم کو نئے سبز باغ دکھاتا ہے۔ مفاد کی خاطر عوام الناس کا نعرہ لگاتا ہے۔ اپنی جیبیں بھرتا ہے اور پھر الیکشن کے دنوں میں مظلوم و مجبور بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

کئی دہائیوں سے یہی تماشا جاری ہے۔ کردار بدل بدل کر عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ قوم کے خوابوں کو ذاتی مفادات کی چکی میں پیس کر انھیں بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کو صرف اپنی سیاست ، اپنی کرسی اور اپنے مفادات کی فکر ہوتی ہے۔ معیشت تباہ ہو رہی ہے تو ہوتی رہے ، لوگ مر رہے ہیں تو مرتے رہیں۔ ملک میں معاشی بد حالی اور معاشرتی مسائل کی بڑی وجہ سیاسی عدم و استحکام ہے۔

سیاستدانوں کی طاقت کے غلط استعمال ، کرپشن اور سفارشات کی وجہ سے ہمارے قومی ڈھانچے کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ملک کے بیشتر سیاستدانوں پر کرپشن کے اور دیگر کیسز چل رہے ہیں۔ یہ کیسز خود بہ خود تو نہیں بنے ، انھوں نے کرپشن کی۔ ملکی اثاثہ جات کا بے دریغ استعمال اور طاقت کا غلط استعمال کیا ، تبھی ان کے خلاف کیسز بنے ہیں۔ یہ الگ بات ہے اقتدار میں آکر یہ لوگ سب سے پہلے اپنے کیسز ختم کرتے ہیں اور عوام کی نظر میں پاک صاف ہوجاتے ہیں۔

حالیہ دنوں سیاستدانوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ سیاست میں کوئی اصول نہیں ، یہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے سیاست دان گراؤٹ اور اخلاقی پستی کی آخری حد کو بھی چھونے سے گریز نہیں کرتے۔ جتنی محنت یہ سیاستدان اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے کرتے ہیں ، اس کا آدھا بھی اگر ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشش کریں تو اس قوم کا مستقبل سنور سکتا ہے۔

ذاتی مفادات اور کرسی کے لیے اپنے بدترین مخالف کوگلے لگانے میں یہ سیاستدان عار محسوس نہیں کرتے، لیکن ملک کی معیشت، اچھی طرز حکمرانی، میرٹ ، عوام کو سہولیات کی فراہمی ، قابلِ اعتبار نظام احتساب ، ادارہ جاتی ریفارمز، نظام انصاف میں جلد انصاف کی فراہمی کے لیے مل بیٹھ کر قوم کی خاطر اتفاق رائے پیدا کرنے کا کہا جائے تو یہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ عوامی فلاحی کاموں میں یہ لوگ دلچسپی نہیں لیتے۔ انھیں فقط اپنے عہدوں سے غرض ہوتی ہے۔ انھیں اپنا اقتدار عزیز ہوتا ہے۔ عوامی مفادات سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ انھیں اپنی کئی نسلوں کے لیے دولت جمع کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔

جب ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی عروج پر ہوتی ہے۔ کئی قسم کے مسائل کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہوتا ہے۔ عوام ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں۔ تب یہ سب خاموش رہتے ہیں، لیکن جونہی ان کی کرپشن ، بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کی بات کی جائے اور ان کے مفادات پر زد پڑتی ہے ، تب ان کی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور یہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگتے ہیں۔

کہنے کو تو یہ سیاست کو خدمت کا نام دیتے ہیں ، لیکن حقیقت میں سیاست ان کے ہاں ایک کاروبار ہے۔ سیاست کے ذریعے یہ لوگ اقتدار حاصل کرتے ہیں اور اقتدار کے ذریعے اپنے لیے ملک کے وسائل کے انبار لگاتے ہیں اور اپنی نسلوں کے لیے اس کاروبارکی راہ ہموار کرتے ہیں۔

کسی بھی سیاسی پارٹی کو دیکھ لیں۔ سیاسی رہنما مستقبل کی حکمرانی کے لیے اپنے بچے تیارکر رہے ہیں تاکہ عوام ساری زندگی ان کے تابع و مطیع رہیں۔ عوام کو پہلے باپ اور پھر ان کی نسلوں کے اشاروں پر چلنا پڑے۔ کچھ خاندانوں کی ملک کی قومی سیاست اور قومی وسائل پر اجارہ داری قائم ہے اور یہ سلسلہ کئی نسلوں سے چل رہا ہے۔ ان خاندانوں کی اجارہ داری صرف قومی یا صوبائی اسمبلیوں تک ہی محدود نہیں ، مقامی حکومتوں میں بھی امیدواروں کی شرح موروثی سیاست کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔ 2010تک پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔

اب بھی یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ملک کے تقریباً چار پانچ سو خاندان مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آرہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ خاندانی سیاست میں بیٹے، بیٹیوں، قریبی رشتہ داروں، بھتیجوں، بھانجوں اور دامادوں کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ خاندان اور ان کی نسلیں موروثی سیاست کی وجہ سے ملک پر مسلط ہیں۔ عوام کو ایک آزاد شہری کی طرح جینا چاہیے۔ اپنی زندگی ان مفاد پرست سیاست دانوں کے مفادات میں ہرگز نہیں کھپانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔