درخت انسان کے مخلص دوست

زین الملوک  منگل 3 مئ 2022
درخت ہمارے ماحول کو سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

درخت ہمارے ماحول کو سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور دوسری مخلوقات کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جن سے سب کی حیات وابستہ ہے۔ اُن نعمتوں میں غذا، پانی، ہوا اور مختلف موسم سرِفہرست ہیں۔

انسانی زندگی کا بہت سا دار و مدار درختوں سے جڑا ہوا ہے۔ درخت ہمارے ماحول کو سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ درخت غذا، تعمیرات، آکسیجن اور ایندھن (اگرچہ ایندھن کےلیے درختوں کی کٹائی اچھی روایت نہیں لیکن مجبوری کی حالت میں درخت کاٹ کر ایندھن کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے) کا ذریعہ ہیں۔ نیز درختوں سے انسان کو بے شمار معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بہت سارے درختوں، پودوں اور جڑی بوٹیوں سے جان بچانے والی ادویہ بنتی ہیں اور یہ درخت ہی ہیں، جن سے کاغذ بنتا ہے۔

جب پودا اُگایا جاتا ہے تو اُسے تناور درخت بننے میں کئی سال اور کچھ کو تو کئی دہائیاں لگتی ہیں۔ اس حساب سے پودے اور انسانوں کی نشوونما میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے، کیوں کہ انسان بھی زندگی کے مختلف ارتقائی مراحل طے کرکے بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپے اور آخرکار موت کی دہلیز پار کر جاتا ہے۔ انسان اور درخت دونوں کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں دونوں مرجھا جاتے ہیں۔ انسان کو محبت، تحفظ، خوراک، لباس، پانی، تعلیم اور دیگر ضروریاتِ زندگی ہمیشہ درکار رہتی ہیں، اِسی طرح درختوں کو بھی پانی، صاف ماحول، شاخ تراشی، کھاد اور مختلف آفات سے حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔

درخت کسی بھی قوم اور ملک کا بہت اہم اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ درخت نہ صرف انسان کو پھل، سبزی، پانی، چھاؤں، لکڑی اور آکسیجن دیتے ہیں بلکہ اس کرۂ ارض کے بے مثال حسن میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ درخت سیلاب سے بچاؤ، زمین کے کٹاؤ اور ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ لہٰذا اس حسن کا تحفظ اور اس میں اضافہ حضرت انسان پر فرض ہے۔ درخت لگانا کارِ ثواب بھی ہے۔ درخت چاہے خود رَو ہوں یا انسانوں کے لگائے ہوئے، ہر صورت میں انسانوں کےلیے قدرت کی طرف سے بہت عظیم تحفہ ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ درخت انسان کے انتہائی مخلص دوست ہیں۔

کراچی میں میری رہائش گاہ سے متصل سڑک کے کنارے ایک قطار میں مخصوص فاصلے پر مختلف درخت لگے ہوئے تھے۔ یہ جنوری کے سرد موسم کی بات ہے کہ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک دکان دار اپنی دکان کے سامنے والے درخت کی ساری شاخیں کاٹ رہا ہے۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگا ’’سردیاں بڑھ گئی ہیں اور اس درخت کی وجہ سے میری دکان پر دھوپ نہیں پڑتی اور مجھے سردی لگتی ہے۔‘‘

اس پر مجھے بہت افسوس ہوا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’کراچی میں سردی ہی کتنی پڑتی ہے اور اس کا دورانیہ بھی کتنا مختصر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سارا سال یہ درخت تمھیں خوب صورتی کے ساتھ چھاؤں بھی تو مہیا کرتا رہتا ہے۔‘‘

اس کے انداز سے ظاہر ہوا کہ وہ سنی اَن سنی کررہا ہے۔ دوسرے دن میں نے دیکھا کہ وہ اُس درخت کو تنے سے کاٹ رہا ہے۔ اب کی بار میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ اوپر والی شاخیں کاٹنے سے تو شاخیں دوبارہ نکل آتی ہیں اور اُن شاخوں کی بڑھوتری بھی جلدی ہوجاتی ہے۔ لیکن تنے سے کاٹنے کا مطلب یہ تھا کہ اس بے چارے درخت کا قتل ہورہا تھا۔ ایسے میں میرے اندر کا معلم جاگ اٹھا اور میں نے اسے روکتے ہوئے ایک لمبا چوڑا لیکچر دیا، مگر بے سود۔ وہ شخص نہ صرف مجھے سننے کےلیے تیار نہ تھا بلکہ بدتمیزی پر بھی اتر آیا تھا اور کلہاڑی سے مجھ پر وار کرنے کا اشارہ بھی کر ڈالا۔ بڑی مشکل سے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے وہاں سے چلتا بنا۔ وہ دن جیسے تیسے بےچینی میں گزر گیا مگر اگلے دن کیا دیکھتا ہوں کہ کٹے ہوئے تنے کے باقی ماندہ حصے پر مٹی کا تیل چھڑک کے اُس کی آگ میں ہاتھ گرم کیے جارہے تھے۔

اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ سرکار یا کسی نجی ادارے کے لگائے ہوئے درخت یوں کاٹ دیے جائیں اور کراچی کی ہفتہ دس دن کی 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ سردی میں ہاتھ گرم کرنے کےلیے درخت سے جدا کی گئی شاخیں اور زخمی تنا جلایا جائے۔ اسی طرح میں نے دیکھا کہ ایک ایک کرکے مختلف اوقات میں تقریباً سارے ہی درختوں کا قتلِ عام ہوا۔

بقول پروین شاکر:

اب کے جو ایندھن کےلیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

یہ دھرتی ہماری ماں ہے اور اس کے ماحول کو فرضِ اولین سمجھ کر ہمیں خوش گوار اور سازگار بنانا ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف 2030 کے دیباچے میں عالمی رہنماؤں نے عہد کیا ہے کہ سال 2030 تک کرۂ ارض کو کم از کم پچاس فیصد ماحولیاتی آلودگی اور آفات سے محفوظ بنائیں گے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق کسی بھی ملک کا کم از کم 25 فیصد رقبہ درخت اور جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ تاہم! اقوامِ متحدہ کی تنظیم برائے خوراک اور زراعت کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں یہ شرح صرف چار فیصد کے آس پاس ہے۔

ایک تو ہمارے ملک میں جنگلات نہ ہونے کے برابر ہیں، اوپر سے جب درختوں کی بےدریغ کٹائی ہوتی ہے تو یہ عالمی حدت میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ درختوں کے ناپید ہونے سے فضا میں آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جو کہ انسانی حیات کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔

مذکورہ بالا واقعے میں وہ درخت جنھیں معمولی ٹھنڈ میں ہاتھ سینکنے کےلیے استعمال کیا گیا، اُن کے نہ ہونے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھے گی جو کہ سورج سے آنے والی شعاعوں کی گرمی کو قید کرنے کےلیے کافی ہے۔ فضا میں مقید یہ ہی شعاعیں عالمی حدت اور آئے دن چلنے والی گرم لہروں کا باعث ہوتی ہیں۔ ایسے معاشرے میں بندہ کرے تو کیا کرے؟

اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں زمین کی تزئین کو فروغ دیا جارہا ہے، حتیٰ کہ گھر اور دوسری عمارتوں کی تعمیرات میں لگے ہوئے درخت کاٹنے کے بجائے ایسے تعمیراتی منصوبے بنائے جاتے ہیں جن میں درختوں کو لگے رہنے اور بڑھنے کے بھرپور مواقع میسر ہوں۔

یہ درخت ہی ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔ جتنے زیادہ درخت ہوں گے اتنے ہی بارش برسانے والے بادل پیدا ہوں گے اور گرمی کی شدت میں کمی ہوگی۔ قدرت نے ہمارے ملک کو چار الگ الگ موسموں سے نوازا ہے لیکن درختوں کی کٹائی اور نتیجتاً بارش کی کمی کی وجہ سے ہم ان موسموں سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ گو کہ تحریکِ انصاف حکومت نے ملک میں دس ارب درخت لگانے کا اہم کام شروع کیا تھا جسے عالمی سطح پر پذیرائی بھی ملی تھی، لیکن دوسری طرف درختوں کی کٹائی اسی طرح زوروں پر ہے جس سے ایسی مثبت کاوشیں دم توڑتی ہیں۔

لہٰذا حکومتی ادارے، سول سوسائٹی، تعلیمی ادارے اور نمایاں شخصیات کو موسمیاتی تغیر کو روکنے کےلیے درخت لگانے، اس کے فوائد اور درخت نہ لگانے یا بےدریغ کٹائی کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ سالانہ شجرکاری کا بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ درختوں کی تعداد میں اضافہ ہو، جس کے سبب ماحول پرفضا، صاف ستھرا، معطر اور خوش گوار رہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زین الملوک

زین الملوک

بلاگر ایم اے اردو (پشاور یونیورسٹی)، ایم اے سیاسیات (پشاور یونیورسٹی) اور ایم ایڈ (آغاخان یونیورسٹی، کراچی) ڈگری کے حامل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شعبۂ تعلیم اور آج کل آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ، کراچی سے بطورِ منیجر ایگزامینیشن ڈیولپمنٹ وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔