- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
عصرِ حاضر میں تحقیق کا گرتا ہوا معیار
تحقیق ایک ایسا کام ہے کہ جب تک پوری جانفشانی سے نہ کی جائے اُس وقت تک تحقیق نہیں کہلاتی۔ اس تحقیق کے بعد جو نیا کام نکل کر آتا ہے، ایک محقق اور دنیا کےلیے وہ کسی کامیابی سے کم نہیں ہوتا۔ عصرِ حاضر میں سائنسز اور سوشل سائنسز کے مضامین کے حوالے سے (بطورِ خاص پاکستان میں) دیکھا جائے تو تحقیق کا معیار وہ نہیں رہا جس پر تحقیق کے اصول کارفرما ہوتے ہیں۔ جس طرح کی تحقیقات (استثنیٰ ہر جگہ موجود ہے) کی جارہی ہیں، اُن میں کچھ ایسے مسائل ہیں کہ اگر ابھی سے اصلاحات نہ کی گئیں تو آگے چل کر تحقیق کا معیار مزید گرتا چلا جائے گا۔ وہ مسائل کیا ہیں؟ اور ایک ’محقق‘ کو تحقیق میں کن معیارات کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوتا ہے؟ انھیں یہاں سپردِ قرطاس کیا جاتا ہے۔
مسائل
چار چیزوں کو جمع کرکے کسی کے سامنے پیش کرنا۔ یعنی ادھر ادھر سے معلومات کو اکھٹا کرنا اور پھر یہ کہنا یہ ’تحقیقی مقالہ‘ ہے۔ ہمارے یہاں عام طور پر تحقیق کا معیار کچھ اسی طرح کا بن گیا ہے۔ مختلف جگہوں سے معلومات اکھٹا کرنے کا مطلب تحقیق نہیں ہوتا بلکہ چیزوں کو ’جمع‘ کرنا کہلاتا ہے۔ زیادہ تر تحقیقی (نام نہاد) مضامین کو جب دقتِ نظر سے پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جسے تحقیق کہا جارہا ہے وہ اصل میں ادھر ادھر کی معلومات کو اکھٹا کیا گیا ہے۔
چند لوگوں کی باتوں کو سن کر کچھ لکھنا
ہر شخص کو رائے دینے کا پورا پورا حق ہے۔ وہ رائے صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ اب کسی کی رائے کو سپردِ قرطاس کرنا (یہ بھی غیر اخلاقی بات ہے کہ کسی نجی محفل میں ایک شخص کی جانب سے بولا گیا جملہ یا دی گئی کوئی رائے، اس کو اعتماد میں لائے بغیر لکھنا، وہ بھی اپنے نام سے) اور پھر اس میں چند مزید باتوں کی آمیزش کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرنا اور پھر اس پر بضد ہونا کہ یہ تحقیق ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر کچھ اسی طرح کی تحقیقات نظر آرہی ہیں۔
ایسے موضوعات پر لکھنا جن پر ماضی میں بے انتہا کام ہوچکا ہو
اگر محقق بننے کا شوق ہے تو ضرور اپنا حصہ ڈالیے، لیکن ماضی میں کیے گئے کاموں پر پھر اسی طرح کا کام کرنا معیارِ تحقیق نہیں۔ کبھی کبھار تو ایک جیسے موضوعات پر اتنا کام ہوچکا ہوتا ہے کہ دل کرتا ہے کہ بس! اب بس! بہت ہوگیا۔ لوگ ایک جیسے موضوع (معمولی ردوبدل کےساتھ) کو پڑھ پڑھ کر تھک چکے ہوتے ہیں۔
شخصیات پر کام کرنا
تحقیق کی دنیا میں شخصیات پر کام کرنا ناپسندیدہ ہے، کیوں کہ ایک ہی شخصیت پر زیادہ لوگ کام کریں گے تو ابتدائی ابواب تقریباً (کب پیدا ہوئے، کہاں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی، کتنی شادیاں کیں، کتنے بچے تھے، وغیرہ وغیرہ) یکساں ہوتے ہیں۔ اگر آپ کی پسندیدہ شخصیت پر کام ہوچکا ہے، تو پھر مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ مزید کام کا مطلب یہ ہے کہ مکھی پر مکھی بٹھانا۔ تاہم! کسی شخصیت پر کام کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو اس شخص کے ان پہلوؤں پر کام کیا جائے جن پر ماضی میں کبھی کسی نے کام نہ کیا ہو تاکہ قاری کو ایک نیا چہرہ نظر آئے۔
دوسروں کے کاموں کو اپنا نام دینا
دوسروں کے کاموں پر انتہائی عرق ریزی (عنوان بدل دیا، اندر کی سطروں پر چند الفاظ کا اضافہ کردیا، وغیرہ وغیرہ) کرکے اپنا کام بنالینا۔ یہ تو عام سی بات ہوگئی ہے کہ کسی کی تحقیق میں معمولی ردوبدل کر کے اپنا نام موسوم کردیا جاتا ہے۔ حالاںکہ یہ بھی علمی سرقے کے زمرے میں آتا ہے، تاہم! اب یہ بات عام سی ہوگئی ہے، لوگوں نے یہ سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ اس طرح کے کام سرقے کے زمرے میں آتے ہیں۔
تجاویز
کسی بھی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے سے قبل جن باتوں کو مدِنظر رکھنا چاہیے، وہ کچھ یوں ہیں:
موضوع کا انتخاب
کسی بھی موضوع پر کام کرنے سے پہلے ’اپنا شوق‘ دیکھیے۔ آپ کا شوق ہی آپ کو تحقیق میں آگے بڑھنے میں معاونت کرے گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ طلبا جب تحقیق کے شعبے میں آتے ہیں تو دوسرو ں سے پوچھتے پھر رہے ہوتے ہیں کہ کس موضوع پر کام کیا جائے؟ ہر کسی کا اپنا میلان ہوتا ہے، تو وہ اپنے ذوق کے مطابق نت نئے موضوعات بتا رہا ہوتا ہے، لیکن وہ موضوع آپ کےلیے اس وقت تک دلچسپی کا باعث نہیں بنے گا جب تک آپ کا اپنا شوق نہ ہو۔ دوسروں سے ضرور پوچھیے، لیکن پہلے اپنا مائنڈ سیٹ کیجیے کہ آپ کو کس موضوع کی طرف جانا ہے، تاکہ سامنے والا (آپ کے اساتذہ، دوست واحباب بھی ہوسکتے ہیں) آپ کو اسی سے متعلق مختلف علمی موضوعات سے راہ نمائی دیں۔ مثلاً، اگر ایک صاحب (جن کا تعلق سوشل سائنس سے ہے) کا میلان ’سیرت النبیؐ‘ پر ہے۔ جب وہ مشورہ کریں تو پہلے سے یہ بتادیں کہ میرا میلان ’سیرت‘ پر ہے، تاکہ سیرت سے متعلق ہی اُن صاحب کی رہنمائی کی جائے۔
ماضی میں کیے گئے تحقیقی کاموں پر دوبارہ کام کرنے کی زحمت نہ کیجیے
موضوع کے انتخاب کے بعد یہ لازمی دیکھنا چاہیے کہ اس موضوع پر ماضی میں کتنا کام ہوچکا ہے؟ اگر ماضی میں کام ہوچکا ہے تو کوشش کیجیے کہ دوسرے موضوع کا انتخاب کریں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’تین سے چار موضوعات (جن میں دلچسپی اور شوق ہو)‘ کا انتخاب کیا جائے، تاکہ اگر ایک موضوع پر ماضی میں کام ہوچکا ہے تو دوسرا موجود ہو۔
تحقیقی موضوع کو معاشرے سے جوڑیے
اگرچہ تحقیقی کام خاص الخاص کےلیے ہی ہوتا ہے، لیکن اپنے تحقیقی کام میں ’معاشرہ‘ ضرور پیشِ نظر رکھنا چاہیے تاکہ آپ کی تحقیق مستقبل میں معاشرے کےلیے سودمند ثابت ہو۔
صفحات نہ بھریے
اپنے تحقیقی کام کو ہمیشہ دو اصولوں پر رکھیے۔ ’مدلل اور جامع‘ تمام حوالہ جات جمع کرنے کے بعد جب آپ لکھیں تو یہ پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ وہ مدلل اور جامع ہو۔ یعنی جو بھی کام ہو اس کے پیچھے دلائل اور جامعیت کا ہونا ضروری ہے۔ وگرنہ صفحات پر صفحات بھرنے سے اگر دلالت اور جامعیت ثابت نہیں ہورہی تو ان صفحات کا کچھ فائدہ نہیں۔ اکثر لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میرا مقالہ پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے یا دو، تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ بہت اچھی بات ہے، لیکن اس ضخامت کا فائدہ اُس وقت ہی ہوگا جب اُس میں ’محقق‘ کے اپنے دلائل ہوں گے۔
ایک محقق، اپنی تحقیق کے دوران اگر مذکورہ تمام باتوں کو اپنے مدِنظر رکھے تو مستقبل میں نہ صرف معیاری تحقیقات سامنے آئیں گی، بلکہ تحقیق کا معیار بھی بلند ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔